سفید ریش حکیم صاحب کے چہرے کو دیکھا تو دل میں جیسے سکون کی ایک لہر سی اُٹھی! طمانیت کا احساس ہوا!
اُن دنوں میری طبیعت خراب رہتی تھی۔ دوا مستقل لینے سے بلڈ پریشر تو کنٹرول میں تھا مگر ٹینشن پھر بھی رہتی تھی۔ سر درد‘ چڑچڑا پن‘ ہمیشہ رہنے والی بے خوابی میں مزید اضافہ‘ ایک قسم کی بے اطمینانی‘ بھوک کی کمی! مردم بیزاری‘ تھکاوٹ! بیگم کو کسی نے ان حکیم صاحب کا بتایا تھا۔ ان کا مطب اسلام آباد کی کراچی کمپنی میں واقع تھا۔ ہفتے میں ایک دن اپنے قصبے سے تشریف لاتے تھے اور مطب میں بیٹھتے تھے۔ ہم گئے تو زیادہ رش نہیں تھا۔ ہماری باری آئی تو بہت خندہ پیشانی سے پیش آئے۔ ان کے چہرے کو دیکھا تو عجیب نرمی کا احساس ہوا جیسے گرمی میں خنکی کی لہر چلنے لگے یا جیسے دھوپ میں سر پر بادل کا سایہ آ پڑے۔ بیگم نے انہیں میری صورتحال بتائی۔ ساری شکایات سن کر انہوں نے پوچھا: کرتے کیا ہیں؟ یعنی پیشہ اور مصروفیات! بیگم نے پروفیشن بتایا اور اُس وقت کی پوسٹنگ کی نزاکت‘ مکروہات اور مشکلات سے بھی آگاہ کیا۔ ساتھ یہ بھی بتایا کہ کالم بھی لکھتے ہیں اور شاعری بھی کرتے ہیں۔ حکیم صاحب نے میرا ہاتھ مستقل اپنے ہاتھ میں لے رکھا تھا۔ وہ مسلسل میرے ہاتھ کو اپنے دونوں ہاتھوں کے درمیان رکھ کر آہستہ آہستہ مَل رہے تھے۔ مجھے بہت اچھا لگ رہا تھا۔ اس نرم لمس کا اثر جیسے اندر‘ دور‘ دل کی گہرائی میں پڑ رہا تھا۔ جیسے کوئی گرہ کھل رہی تھی۔ جیسے ذہن سے کوئی بوجھ اُتر رہا تھا‘ مجھے یقین ہے کہ حکیم صاحب یہ عمل علاج کے طور پر کر رہے تھے اور اس کے اثرات سے بخوبی آگاہ تھے۔ نرم گفتار تھے۔ آہستہ بات کرتے اور ٹھہر ٹھہر کر! یوں لگ رہا تھا جیسے مجھے دیکھنے اور ہمارے ساتھ بات کرنے کے علاوہ ان کا اور کوئی کام ہی نہ ہو۔ مطب کی فضا میں کاروبار کی بُو تھی نہ کسی افرا تفری یا جلدی کا ٹچ!! فرمانے لگے کہ کسی دوا کی کوئی ضرورت نہیں۔ صرف دو کام کرنے ہیں۔ پہلا یہ کہ ہفتے میں ایک دن کسی پرانے دوست یا دوستوں کے ساتھ بیٹھوں اور وہاں خاصا وقت گزاروں۔ دوسرا یہ کہ ہفتے میں ایک بار بیگم کے ساتھ لانگ ڈرائیو پر نکل جاؤں یا ہم دونوں کسی ریستوران یا سیر گاہ میں وقت بسر کریں اور اس آؤٹنگ کے دوران گھریلو بجٹ یا رشتہ داروں کو چھوڑ کر دنیا جہان کی باتیں کریں۔ میں نے کہا کہ کوئی دوا بھی دے ہی دیجیے۔ اس اصرار پر انہوں نے برائے نام کوئی دوا بھی دے دی۔ یاد نہیں کوئی فیس لی بھی یا نہیں۔اگر لی بھی تھی تو برائے نام ہی!! چاہتے تو بہت سی ادویات دے کر سینکڑوں‘ ہزاروں روپے لے سکتے تھے اور بار بار آنے کا کہہ سکتے تھے اور ہر بار بھاری فیس لے سکتے تھے۔ ان کے تجویز کردہ دونوں ''نسخوں‘‘ کا استعمال شروع کر دیا اور طبیعت میں واضح بہتری محسوس کی۔ ان کا یہ کہنا کہ بیگم کے ساتھ آؤٹنگ کرو تو بجٹ یا رشتہ داروں کے ذکر سے اجتناب کرو‘ کروڑ روپے کا نسخہ تھا۔ اکثر جوڑوں میں انہی دو موضوعات سے تلخیاں پھوٹنے کا امکان ہوتا ہے !
یہ حکیم صاحب ‘ غلام رسول بھُٹہ تھے۔ آج مجھے بے اختیار یاد آئے۔ یوں کہ ایک بہت پرانے دوست افتخار کا فون آ گیا۔ کسی زمانے میں افتخار راول ڈیم میں ''جل ترنگ‘‘ کے نام سے ریستوران چلاتے تھے۔ یہ ایک کامیاب اور مقبول ریستوران تھا۔ پھر وہ کچھ اور کام کرنے لگ گئے۔ کچھ عرصہ پہلے انہوں نے فون کیا کہ یار زمانے ہو گئے ملاقات کو‘ تم کہاں ہو؟ میں آسٹریلیا میں تھا۔ چند ماہ کے بعد میں نے فون کیا تو افتخار برطانیہ میں بیٹی کے پاس تھے۔ آج فون پر ان کا میسج تھا کہ میں پاکستان میں ہوں اور شاید تم بھی! ملنے کی کیا صورت ہے؟ میں نے لمبا چوڑا وائس نوٹ بھیجا اور بتایا کہ جلد ملتے ہیں اور یہ کہ پرانے دوستوں سے ملنا امراض کے لیے اکسیر ہے۔ اس پر مجھے حکیم غلام رسول بھٹہ صاحب یاد آئے۔ سوچا بیس پچیس برس گزر چکے! نہ جانے کس حال میں ہوں‘ مختلف نمبر ٹرائی کرتے کرتے ان کے ایک قریبی عزیز تک پہنچ گیا۔ انہوں نے بتایا کہ ماشاء اللہ حیات ہیں مگر اب مریض نہیں دیکھتے۔ زیادہ وقت گھر ہی میں گزارتے ہیں۔ سوچ رہا ہوں کسی وقت جاؤں اور ان کی زیارت کروں!
یہ دنیا ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے آباد ہے۔ کچھ حضرات کہتے ہیں کہ فلاں قطب اور فلاں ابدال دنیا کا نظام چلا رہے ہیں! مگر میں کہتا ہوں کہ دنیا کا نظام ایسے فرشتہ صفت افراد کی وجہ سے چل رہا ہے۔ یہی وہ صاحبان ہیں جن کی عزت دلوں میں ہمیشہ رہتی ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ ہر موڑ پر راہزن اور جیب تراش دندناتے پھر رہے ہیں۔ کچھ نے بیش قیمت فرنگی ملبوسات زیب تن کر رکھے ہیں اور گھومتی ہوئی کرسیوں پر براجمان ہیں۔ کچھ نے شیروانیاں‘ واسکٹیں اور عمامے پہن رکھے ہیں۔ کچھ سبز رنگ کے لمبے چولے پہنے ہیں۔ کچھ کے گلوں میں موتیوں کی مالائیں ہیں۔ سب میں ایک قدر مشترک ہے۔ وصولی‘ وصولی اور وصولی!! اب اصول وہ ہے جس سے کچھ وصول ہو! نقد یا جنس! فصل کی صورت میں یا کسی بھی شکل میں!! اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ جائز ہے یا ناروا! بس جیسا بھی ہے‘ آ جائے‘ آتا رہے اور آتا ہی رہے! ایک قریبی عزیزہ تشریف لائیں۔ خارش کے عارضے میں مبتلا تھیں! کہنے لگیں: اسلام آباد میں ایک طبیب ہیں‘ بہت شہرہ سنا ہے۔ عزیزہ کو بہت سمجھایا کہ کسی ماہر امراض جلد کے پاس جائیں اور طبیب وطیب کے چکر میں نہ پڑیں۔ مگر وہ مُصر رہیں۔ اُن دنوں ان طبیب صاحب کا مطب ایک معروف مرکزمیں تھا تاہم ہمیں انہوں نے قیام گاہ پر طلب فرمایا۔ انتظار گاہ کی دیواریں اُن تصویروں سے مزین تھیں جن میں وہ مختلف حکمرانوں کے ساتھ کھڑے تھے۔ صاف معلوم ہو رہا تھا کہ پی آر کی تخلیق ہیں۔ جینوین بندے کو ان بیساکھیوں کی حاجت نہیں ہوتی نہ تشہیر کی۔ خاتون کو انہوں نے یہ تو نہیں بتایا کہ خارش کی وجہ کیا ہے۔ گفتگو میں حکمت کا دور دور تک نشان نہ تھا۔ ہاں یہ ضرور بتایا کہ اس مرض کے لیے انہیں دوائیں تیار کرنا پڑیں گی جو مہنگی ہیں اور یہ کہ تیس ہزار روپے (دس سال پہلے کی بات ہے) لگیں گے جو انہوں نے پیشگی وصول کیے۔کہنے لگے: ایک ہفتہ دوا کی تیاری میں لگے گا۔ خاتون نے دوا استعمال کی ۔جیسا کہ مجھے اندازہ تھا‘ رتی بھر فرق نہ پڑا۔
بظاہر شکلیں انسانوں جیسی ہیں۔ ہر چہرے پر ماتھا‘ آنکھیں‘ ناک اور ہونٹ لگے ہیں۔ مگر اندر جھانک کر دیکھیں تو کچھ تو فرشتے ہوں گے! یہ وہ لوگ ہیں جو دوسروں میں آسانیاں بانٹتے ہیں! رحم کرتے ہیں۔ ہمدرد ہیں! زر اور زور ان کی ترجیحات میں کہیں نہیں! گِرے ہوئوں کو اٹھاتے ہیں اور اپنے پاؤں پر کھڑا کرتے ہیں۔ شہرت سے بے نیاز ہیں‘ دوسروں کی نظروں سے چھپتے پھرتے ہیں۔ مگر ایسے لوگ خال خال ہیں! زیادہ تر سگ اور خُوک نکلیں گے! کاٹنے والے‘ بھنبھوڑنے والے! خون نچوڑنے والے! شہرت اور جاہ کے لیے دوسروں کو پیروں کے نیچے کچل دینے والے! تیز چلتے ہوئے‘ دوسروں کو کہنیاں مار کر گرا دینے والے! کمزوروں پر غرانے والے اور طاقتوروں کے سامنے گھگیانے والے! ان کی ڈکشنری میں ایثار کا لفظ نہیں ہے۔ آپ کا امتحان یہ ہے کہ آپ نے ان ہر دو مخلوقات کو پہچاننا ہے۔ ایک کے قریب ہونا ہے۔ اس سے سیکھنا ہے۔ اس کی پیروی کرنی ہے۔ دوسرے سے بچنا ہے۔ مرعوب نہیں ہونا! اگر آپ سگانِ دنیا سے مرعوب ہو گئے تو جلد یا بدیر‘ اپنے آپ کو انہی کی صف میں کھڑا پائیں گے۔
No comments:
Post a Comment