یہ جنوبی اٹلی کا شہر نیپلز تھا‘ اطالوی اسے ناپولی کہتے ہیں۔ کئی سال پہلے کی بات ہے‘ ہم تیسری دنیا کے مختلف ملکوں سے بلائے ہوئے افسر شاہی کے پیادوں کو یہاں چھ ماہ گزارنے تھے اور ادارہ برائے ترقیاتی اقتصادیات (انسٹی ٹیوٹ فار ڈویلپمنٹ اکنامکس) میں پڑھ کر اپنا معاشیات کا علم دوبالا کرنا تھا! ’’طلبہ‘‘ میں ہم دو پاکستانی تھے‘ دو بنگالی‘ کچھ ترکی سے تھے اور برما سے‘ اور کچھ انڈونیشیا، سوڈان اور اردن سے۔ افریقی ممالک کی نمائندگی بھی تھی۔ جنوبی امریکہ کے ہسپانوی بولنے والے ملکوں سے بھی بیورو کریٹ اس گروہ میں شامل تھے۔ وہیں یہ دلچسپ بات معلوم ہوئی کہ اطالوی اور ہسپانوی زبانیں بہنیں ہیں، شاید پنجابی اور اردو کی طرح۔ اطالوی اساتذہ کے لیکچر سمجھنے کے لیے ہم ترجمہ کے محتاج تھے مگر ہسپانوی زبان جاننے والے براہ راست سمجھ لیتے تھے۔ اسی طرح وہ اپنے امتحانی پرچوں میں جوابات ہسپانوی میں لکھتے تھے اور اطالوی استاد ان پرچوں کو براہ راست جانچ سکتے تھے۔
پہلا دن تعارف میں گزرا۔ دوسرے دن ہمیں ہدایات دی گئیں۔ ایک ہدایت عجیب تھی: ’’اگر اٹلی میں کسی جگہ آپ کھو جائیں‘ آپ کا پاسپورٹ گم ہو جائے‘ آپ کے پاس پیسے بھی نہ ہوں‘ تو آپ کو گھبرانے کی قطعاً ضرورت نہیں! آپ نے وہاں لوگوں کو صرف یہ بتانا ہے کہ آپ پروفیسر ہیں‘‘۔
ہم پاکستانی اور بنگالی اس پر ششدر رہ گئے۔ بات سمجھ میں آنے والی نہیں تھی۔ ہم تو اس ملک سے آئے تھے جہاں یہ لطیفہ یا واقعہ روز سننے میں آتا تھا کہ گاڑی چلانے والے سے لال بتی کراس ہو گئی۔ پولیس نے پوچھا‘ سر آپ سی ایس ایس کے افسر ہیں یا فوجی افسر ہیں یا ایم این اے ہیں یا بینکار ہیں؟ کیا ہیں؟ گاڑی والے نے جواب دیا میں استاد ہوں۔ اس پر پولیس والے کا چہرہ دمک اٹھا۔ اس نے حقارت سے کہا اچھا تو ماسٹُر ہو۔ اب تو تمہارا چالان ضرور ہو گا۔
ہماری حیرت اور اچنبھا دیکھ کر ہدایات دینے والا مسکرایا۔ یا تو وہ جنوبی ایشیا میں رہ کر آیا تھا یا اسے ہمارے حالات کا علم تھا۔ کہنے لگا : ’’حیران ہونے کی کوئی بات نہیں‘ یہاں پروفیسر کا وہی رعب‘ دبدبہ اور وہی عزت و تکریم ہے جو تمہارے ہاں ڈپٹی کمشنر کی ہے‘‘۔
چند ہفتوں بعد اس کا عملی مظاہرہ دیکھنے میں آیا‘ بارسلونا سے واپس اٹلی آ رہا تھا۔ ٹرین کے ڈبے میں مَیں تھا اور ایک ہسپانوی جوڑا۔ خاتون نے باتوں باتوں میں حدود اربعہ پوچھا۔ میں نے کہا پروفیسر ہوں۔ اس کا میاں‘ جو باہر پلیٹ فارم پر کھڑا تھا‘ واپس آیا تو خاتون نے پرجوش انداز میں بتایا کہ یہ صاحب پروفیسر ہیں۔ پورا راستہ میاں بیوی دیکھ بھال کرتے رہے‘ مودب ہو کر‘ پوری فرماں برداری کے ساتھ!
قدرت اللہ شہاب نے لکھا ہے کہ انگریزی عہد میں ڈپٹی کمشنر کے پاس پچاس سے زیادہ خدمت گار ہوتے تھے۔ چھت سے لٹکا‘ کپڑے کا پنکھا ہلانے والے نوکر کی‘ شدید گرمی میں‘ آنکھ لگ جاتی تو ڈی سی اس کی پسلیوں میں بوٹ کی ٹھوکر مارتا۔ بعض دفعہ ضرب ایسی ہوتی کہ موت واقع ہو جاتی۔ اس جُرم پر دو روپے جرمانہ ہوتا!
زمانے نے کروٹیں بدلیں‘ تقسیم ہوئی۔ چالیس سال گزرے۔ پھر صدی نئی آئی۔ پرویز مشرف کا عہد تھا۔ اس نے کمال کا کام یہ کیا کہ ڈپٹی کمشنر کو چلتا کیا اور ضلعی حکومتوں کا ڈول ڈالا۔ فائدے سامراج کے بھی ہوتے ہیں اور آمریت کے بھی! بچھو اور اژدھا بھی قدرت نے فائدے کے بغیر نہیں پیدا کئے۔ ڈی سی کا ادارہ اپنا وقت پورا کر چکا تھا۔ اس تبدیلی کو ہر ایک نے سراہا سوائے نوکر شاہی کے اُن چند ارکان کے‘ جو ڈی سی لگے ہوئے تھے یا جنہوں نے لگنا تھا!
سرکاری ملازم ڈی سی ہو یا کمشنر‘ یا پٹواری یا تحصیلدار، اس کی اوّلین ترجیح اپنی تعیناتی اور ترقی ہوتی ہے۔ وہ باس کو ہر حال میں خوش رکھتا ہے۔ پھر‘ ڈی سی کو اُس ضلع میں مدتِ ملازمت پوری کرنے کے بعد پلٹنا بھی نہیں ہوتا۔
مقامی حکومت کا نمائندہ‘ ضلع ناظم یا چیئرمین یا جو بھی کہلائے، جتنا بھی برا ہو‘ اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے وہیں جینا ہے وہیں مرنا ہے‘ کل پھر ووٹ بھی لینے ہیں‘ مخالفین کا بھی سامنا کرنا ہے چنانچہ اسے کام بھی کرنا پڑتا ہے اور انصاف بھی!
اب جب مقامی حکومتوں کی مصیبت موجودہ حکمرانوں کے سر پر مسلّط ہو ہی گئی ہے‘ تو انہیں بے بس کرنے کے لیے اور اپنے چنگل میں جکڑنے کے لیے‘ پنجاب حکومت نے ڈی سی کے عہدے کو ازسرِ نو پورے طمطراق سے زندہ کیا ہے۔ صوبائی وزیراعلیٰ نے بابائے قوم کے یوم پیدائش سے دو دن پہلے ایک قانون منظور کیا ہے جس کی رُو سے ڈپٹی کمشنر اپنی پوری حشر سامانیوں کے ساتھ واپس آ رہا ہے۔
بظاہر اسے کام ’’نگرانی اور کوآرڈی نیشن‘‘ کا دیا جا رہا ہے مگر وہ جو پنجابی میں کہتے ہیں، تُم مجھے کھڑا ہونے کی جگہ دو‘ بیٹھنے کی میں خود بنا لوں گا۔ ’’نگرانی اور کوآرڈی نیشن‘‘ کو کس طرح مکمل اقتدار میں بدلنا ہے‘ یہ نوکر شاہی کے گماشتوں کو بتانے اور سکھانے کی ضرورت نہیں۔ ایک افسر نے کیا خوب کمنٹ دیا ہے: ’’یہ قانون ڈپٹی کمشنر کے اُس ادارے کو بحال کر رہا ہے جسے جنرل مشرف نے ختم کیا تھا۔ وقت کے ساتھ اس کی طاقت میں اضافہ ہو گا‘‘۔
ایک اور سرکاری ذریعے کی رائے دیکھیے: ’’وہ تمام غیر تحریری اختیارات جو ڈپٹی کمشنر کے کسی زمانے میں ہوتے تھے‘ اس قانون سے زندہ ہو جائیں گے‘‘۔
یہ قانون کیا ہے؟ بلدیاتی اداروں کے لیے پوست کا وہ پیالہ ہے جو مغل حکمران اپنے مخالفین کو ہر روز پلاتے تھے، جب تک کہ وہ ختم نہ ہو جائیں۔ کون سی ضلعی حکومت؟ اور کہاں کا چیئرمین؟ ضلع میں رونما ہونے والی ہر حکومتی کارروائی کا مرکز ڈپٹی کمشنر ہو گا۔ وہ تمام صوبائی ملازمین کی نگرانی کرے گا! تعلیم کا محکمہ ہو یا نہروں کا‘ یا مالیے یا لگان کا‘ یا انجینئرنگ کا‘ سب کا مُنہ ’’طرف ڈپٹی کمشنر کے‘‘ ہو گا۔ وہ بلدیاتی نمائندے کو گھاس کیسے ڈالے گا؟ جبکہ اُس کے پاس انتظامی اختیارات ہوں گے۔ وہ مختلف محکموں کے خلاف ایکشن کی ’’سفارش‘‘ کر سکے گا۔ ضلع ناظم کے تمام اختیارات ڈپٹی کمشنر کی جھولی میں ڈال دیئے گئے ہیں۔ عوامی شکایات بھی وہی سنے گا۔ سزائیں بھی وہی تجویز کرے گا! اور تفتیشی انکوائریاں بھی وہی آغاز کرے گا۔
یہ قانون کہتا ہے کہ لوکل کونسلیں، ڈپٹی کمشنر کی مدد کرنے کی پابند ہوں گی اور صوبائی محکموں کی جو اُس ضلع میں واقع ہیں‘ کارکردگی کا جائزہ بھی ڈپٹی کمشنر لے گا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ منتخب چیئرمین کیا کام کرے گا؟قانون تو یہ پاس ہونا چاہیے تھا کہ ڈپٹی کمشنر مقامی حکومت کی مدد کرے گا! تمام صوبائی محکموں کی کارکردگی کا جائزہ لینا منتخب چیئرمین کا کام ہونا چاہیے تھا۔ مرکزی کردار‘ ضلعی سرگرمیوں کا‘ بلدیاتی ادارے کے سربراہ کو سونپنا چاہیے تھا!
دنیا جست بھر کر کہاں جا پہنچی ہے۔ ہم ابھی لارڈ کرزن اور وارن ہیسٹگز کے زمانے کے ڈپٹی کمشنر کے نیچے رہنا چاہتے ہیں! پھر اس قانون کی ٹائمنگ ملاحظہ فرمائیے! دو دن پہلے ضلعی کونسلوں کے سربراہ منتخب ہوئے اور ساتھ ہی یہ خوشخبری انہیں دی جا رہی ہے کہ تُم یہ نہ سمجھو‘ تمہیں اختیارات دیئے جا رہے ہیں۔ حکومت ڈپٹی کمشنر کی ہو گی اور وہ لاہور کا نمائندہ ہو گا!
قوم کو مقامی حکومتوں کا دودھ دیا گیا ہے مگر مینگنیاں ڈال کر!!
No comments:
Post a Comment