اپنی حفاظت کا ان سب کو بہت خیال ہے!
یہ اپنے گرد ایک حصار کھینچ لیتے ہیں۔ پھر چاہے جنگ ہی کیوں نہ کرنی پڑے، خون کے دریا ہی کیوں نہ بہانے پڑیں، ایٹمی دستوں کو الرٹ ہی کیوں نہ کرنا پڑے، اِس حصار کے اندر کسی مخالف کو قدم رکھنے کی اجازت نہیں دیتے۔
کیوبا میں یہی کچھ تو ہوا تھا۔ یہ 1962 کی بات ہے۔ سوویت یونین اور مغرب کے درمیان سرد جنگ عروج پر تھی۔ امریکہ نے اٹلی اور ترکی میں میزائل نصب کر دیے۔ یہ ایک لحاظ سے سوویت یونین کے گرد کھینچے گئے حصار کے اندر گھسنے والی بات تھی۔ ترکی کی سرحد مشرق میں آمینیا اور جارجیا سے ملتی تھی جو سوویت یونین کا حصہ تھے۔ شمال میں بحر اسود تھا جس کے پار سوویت یونین تھا۔ جواب میں خروشچیف نے کیوبا میں میزائل لگانے کا فیصلہ کیا اور انفرا سٹرکچر تعمیر کرانے کا آغاز بھی کردیا۔ یاد رہے کہ کیوبا اور امریکی ریاست فلوریڈا کے درمیان صرف سو میل کا فاصلہ ہے۔ جان ایف کینیڈی امریکی صدر تھا۔ اس کی سکیورٹی کمیٹی نے مشورہ دیا کہ کیوبا پر حملہ کر دیا جائے تاہم کینیڈی نے سمندری محاصرہ کرنے کا حکم دیا تا کہ کوئی بحری جہاز تنصیبات لے کر کیوبا میں داخل ہی نہ ہو سکے۔ ساتھ ہی امریکہ نے دھمکی دی کہ نصب شدہ میزائل کیوبا سے ہٹا لیے جائیں۔ ایٹمی جنگ کا خطرہ سر پر منڈلانے لگا۔ پھر مذاکرات ہوئے۔ کیوبا سے میزائل ہٹا لیے گئے۔ ساتھ ہی خفیہ معاہدہ ہوا کہ ترکی سے امریکی میزائل بھی ہٹا لیے جائیں گے۔ یوں خطرہ ٹلا‘ مگر دونوں طاقتوں نے اپنے اپنے حصار میں گھسنے کی اجازت نہ دی۔
آپ کو گریٹ گیم کا قصہ یاد ہے؟ آخر کیا تھی گریٹ گیم؟ یہی حصار کھینچے جانے کا معاملہ تھا۔ ہندوستان پر انگریز حکمرانی کر رہے تھے۔ اُدھر سے زارِ روس نے دھڑادھڑ ترکستانی ریاستوں کو ہڑپ کرنا شروع کیا۔ تاشقند، بخارا، سمرقند، خجند سب کو فتح کر لیا۔ تب انگریزوں نے حصار کھینچ لیا۔ افغانستان کو درمیان میں بفر سٹیٹ قرار دیا اور سوویت یونین اور برطانوی ہند کے درمیان طے ہوگیا کہ دونوں طاقتیں افغانستان کو عبور کر کے ایک دوسرے سے براہ راست متصادم نہیں ہوں گی۔ زار کا دور ختم ہوا تو سوویت یونین نے یہی پالیسی جاری رکھی۔ کون سا ظلم ہے جو وسطی ایشیا میں روسیوں نے روا نہیں رکھا۔ رسم الخط بدلا۔ لباس تک بدل دیا۔ مساجد‘ مدارس سب ختم کر دیے۔ لوگ گھروں میں چھپ کر بھی نماز پڑھنے سے ڈرتے تھے۔ فرغانہ وادی کی ایک مسجد میں نمازی سجدے میں تھے تو روسی جرنیل ان کی گردنوں پر پاؤں رکھتا، گزرتا گیا۔ آزادی کی تحریک کو، جس کا نام بَسماچی تحریک تھا، کچل کر رکھ دیا۔ روسی لاکھوں کی تعداد میں لا کر آباد کیے یہاں تک کہ آبادی کا تناسب ہی بدل گیا۔ صرف تاشقند شہر میں روسی چالیس فی صد ہو گئے۔ کاٹن کی پیداوار زبردستی بڑھائی یہاں تک کہ دریا خشک ہو گئے۔ ارال جھیل سُوکھ گئی اور اس کا نام بحری جہازوں کا قبرستان پڑ گیا۔ ترکستان کو ریاستوں میں اس طرح بانٹا کہ اندرونی ہم آہنگی پیدا ہی نہ ہونے پائے۔ تاجکستان کی زبان فارسی ہے مگر فارسی بولنے والے شہر (سمرقند اور بخارا) ازبکستان میں شامل کر دیے۔ ہمیشہ کوشش کی کہ ان ریاستوں میں حکمران ان افراد کو مقرر کیا جائے جن کی بیویاں روسی ہیں۔ دوسری طرف انگریزوں نے افغانستان کو اپنے دائرۂ اثر میں رکھنے کے لیے تین جنگیں لڑیں۔ افغان حکمرانوں کو چین سے کبھی نہ بیٹھنے دیا۔ ہر حکمران کے خلاف سازشوں کے جال پھیلائے۔
اپنی حفاظت کا انہیں بہت خیال رہتا ہے۔ دوسروں کو انسان ہی نہیں سمجھتے۔ جو ملک ان کی زمین سے جتنا دور ہو، اُس پر چڑھ دوڑنے میں اتنی ہی بے تابی دکھاتے ہیں۔ ویت نام کو بھنبھوڑ کر، ادھیڑ کر، رکھ دیا۔ مدتوں اس میمنے کے جسم سے خون بہتا رہا۔ صدی کا سب سے بڑا جھوٹ بولا کہ عراق کے پاس تباہ کُن ہتھیار ہیں جب کہ خود جاپان پر ایٹم بم گرائے تھے۔ افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ عراق کو اس طرح تقسیم کیا کہ آج کُرد، عرب، شیعہ، سُنی سب آپس میں برسر پیکار ہیں۔ عراقی عوام امن کو ترس گئے ہیں۔ صومالیہ تک ان کی چیرہ دستیاں بکھری پڑی ہیں۔ ہزاروں میل دور، فلپائن میں امریکہ بہادر نصف صدی آلتی پالتی مارے بیٹھا رہا۔
خود قسم قسم کے ایٹمی ہتھیاروں سے مسلح ہیں۔ کوئی اور ملک ایٹمی طاقت بنے تو ان کے پیٹ میں اس قدر مروڑ اٹھتے ہیں کہ درد کی شدت سے ان کے چہرے مکروہ شکل اختیار کر جاتے ہیں۔ 1991 میں جب سوویت یونین کا انہدام ہوا تو روس کے علاوہ سوویت یونین کی تین سابقہ ریاستوں کے پاس ایٹمی ہتھیار تھے: قزاقستان، بیلاروس اور یوکرین۔ ان کے استعمال کے کوڈ ماسکو کے پاس تھے مگر پھر بھی ہتھیار ماسکو کے قبضے میں نہیں تھے۔ یوکرین دنیا کی تیسری بڑی ایٹمی قوت تھی۔ یہ تینوں ریاستیں، عالمی چوہدریوں کے نزدیک کمی کمین تھیں چنانچہ انہیں شیشے میں اتارا گیا۔ ہنگری کے شہر بوڈاپست میں کانفرنس منعقد ہوئی۔ ان تینوں کمی کمین ملکوں کو کہا گیا کہ اپنے اپنے ایٹمی ہتھیار اپنے علاقے کے چوہدری (روس) کے حوالے کر دو۔ رہا تمہاری حفاظت کا مسئلہ تو ہم (امریکہ، روس، برطانیہ) تمہاری حفاظت کی گارنٹی دیتے ہیں۔ یہ ایک مشکل فیصلہ تھا مگر ان تینوں ملکوں کو کرنا پڑا کیونکہ انکار کی صورت میں بھی ان پر دباؤ پڑتا۔ اقتصادی پابندیاں لگتیں اور ان کا جینا دوبھر کر دیا جاتا۔ تینوں نے ہتھیار روس کو منتقل کر دیے۔ اس معاہدے کو بوڈاپست میمورنڈم کا نام دیا گیا۔
2014 میں اس معاہدے کی دھجیاں اڑاتے ہوئے روس نے جزیرہ نمائے کریمیا پر حملہ کرکے اسے یوکرین سے چھین لیا۔ یوکرین نے چوہدریوں کو گارنٹی یاد دلائی؛ چنانچہ اس ضمن میں پیرس میں اجلاس ہوا جس میں بوڈاپست معاہدے کے شرکا کو بلایا گیا۔ روس اس معاہدے کو کتنی اہمیت دے رہا تھا؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ پیرس میں موجود ہونے کے باوجود روسی وزیر خارجہ نے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ روس کی عجیب و غریب منطق تھی کہ معاہدہ یوکرین کی جس حکومت سے ہوا تھا، یہ وہ حکومت نہیں حالانکہ ایک بچہ بھی جانتا ہے کہ معاہدے حکومتوں کے درمیان نہیں ہوتے بلکہ ملکوں کے درمیان ہوتے ہیں۔ یوں روس نے بوڈاپست میمورنڈم کو عملی طور پر ختم کر دیا۔
روس کریمیا کو ہڑپ کر گیا۔ یوکرین کی تو خیر کیا مجال تھی کہ مزاحمت کرتا مگر عبرت کا مقام یہ ہے کہ امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین نے زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ نیٹو کے سپریم کمانڈر نے‘ جو امریکی جرنیل تھا، محض تشویش کا اظہار کیا۔ کچھ اقتصادی پابندیاں لگائی گئیں۔ کچھ مذمتی بیانات جاری کیے گئے اور اللہ اللہ خیر سلّا! یہ تھی گارنٹی جس کا لولی پپ یوکرین کو دیا گیا تھا۔ روس اتنا بڑا اور طاقتور ملک ہے کہ اقتصادی پابندیاں اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ ایران جیسا ملک بھی ان پابندیوں کے باوجود قائم اور سلامت ہے؛ چنانچہ یہ پابندیاں یوکرین کی اشک شوئی کے علاوہ کچھ نہیں تھیں۔ آج جب روس چڑھ دوڑا ہے تو یوکرین کے عوام کیا کہہ رہے ہیں اور کیا محسوس کر رہے ہیں؟ اس سارے معاملے میں پاکستان کے لیے کیا سبق ہے؟ اس کے اثرات عالمی سیاست پر کیا پڑیں گے؟ ان سوالوں کے جواب اگلی نشست میں عرض کروں گا۔
No comments:
Post a Comment