سفر ملک کے اندر کا ہو یا سمندر پار کا، وطن سے روانگی ہو یا واپسی، سفر سے پہلے ایک عجیب دل گرفتگی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ ایک ڈپریشن سا، ایک اضطراب سا! جیسے اُس شخص کی کیفیت ہوتی ہے جسے معلوم ہو کہ اب سانپ کے کاٹنے کا موسم آ گیا ہے! یہ عجیب بات ہے کہ ساری زندگی سفر میں گزری مگر اس اضطراب سے چھٹکارا نہ ملا۔ ایسا بھی نہیں کہ سفر سے بچنے کی خواہش ہو جیسا کہ منیر نیازی کی خواہش تھی:
بہت قیام کی خواہش سفر میں آتی ہے
طلسمِ شامِ غریباں رہائی دیتا نہیں
یہ بھی معلوم ہے کہ سفر زندگی کی علامت ہے۔ جس دن پوٹلی ہاتھ نے چھوڑ دی اور گٹھڑی سر سے اتر گئی، زندگی سے یہ اورنگِ ہمہ رنگ اور نغمہ و آہنگ رخصت ہو جائے گا۔ سفر پوست ہے اور جو باقی بچتا ہے استخواں ہے۔ سفر باہر کا ہو یا ذات کے اندر کا، ضروری ہے۔ ہجر اور ہجرتیں انسانی زندگی کا وہ حصہ ہیں جس سے گریز ممکن نہیں۔ جس نے گریز کیا، وہ زندگی ہی میں زرد، پژمردہ گھاس کی صورت بیٹھ گیا۔
سفر سے پہلے کی یہ اضطرابی کیفیت کیا کم ہے کہ اس پر مستزاد وہ کرب ہے جو فراق کا پیش خیمہ ہے۔ جیسے جیسے روانگی کا دن قریب آتا ہے، تیمور کے آنسو زیادہ گرنے لگتے ہیں۔ 'میں آپ کو مِس کروں گا‘ یہ کہہ کر اس کی آنکھیں بھر آتی ہیں۔ اپنے باپ سے پوچھ رہا تھا کہ ہم پاکستان کب جائیں گے؟ اور کتنے دن رہیں گے؟ اس نے بتایا کہ اتنے ہفتے! اس پر روتے ہوئے کہنے لگا: کیا ہم زیادہ نہیں رہ سکتے؟ زینب اب تو بڑی ہو گئی ہے۔ چھوٹی تھی تو وہ بھی یہی کچھ کرتی تھی۔ جاتے ہوئے رونا! ہم آرہے ہوں تب بھی رونا۔ اب بڑی ہو گئی ہے تو روتی تو نہیں، یہ ضد ضرور کرتی ہے اور ہر بار کرتی ہے کہ آج نہ جائیں، دو دن اور رُک جائیں۔ ہمارے ہاں آئی ہوئی ہو تو کہے گی اماں اور بابا سے کہیں کہ میں ان کے ساتھ واپس نہیں جانے کی! ایک ہفتہ اور رہوں گی!
زندگی کے مختلف ادوار ہیں! ہر دور کے اپنے تقاضے ہیں! ہر دورکی اپنی دلکشی، اپنی دل آویزی اور اپنا چارم ہے۔ جب ہم بچے تھے تو ہماری ساری کائنات دادا دادی اور نانا نانی تھے۔ عید اس لیے اچھی لگتی تھی کہ گاؤں جائیں گے تو اُن سے ملیں گے۔ سکول سے واپس، گھر میں داخل ہوتے تھے اور اگر ان بڑوں میں سے کوئی آیا ہوا ہوتا تو بستہ اور تختی ایک طرف پھینکتے اور دوڑ کر لپٹ جاتے۔ شباب کا اپنا افسوں تھا۔ اپنے بچے بڑے ہو رہے تھے تو زندگی کی جدوجہد بھی عروج پر تھی۔ صبح کا پتہ چلتا تھا نہ شام کا۔ ذمہ داریاں تھیں اور مالی مسائل! وہ جو کسی نے کہا تھا:
میں نے اپنی زیست کی مشعل دونوں طرف سے جلائی ہے۔
تو جوانی کے اختتام اور ادھیڑ عمر کے آغاز کا مطلب ہے کہ آپ اُس مشعل کی طرح ہیں جو دونوں طرف سے جل رہی ہے۔ بچوں کی تعلیم، شادیاں، ریٹائرمنٹ کے بعد نان و نمک کی فکر! پھر ہمارا نظام ایسا ہے کہ ایک پوری عمر چاہیے سر پر چھت تعمیر کرنے کے لیے۔ ملازم پیشہ مرد یا عورت ریٹائرمنٹ کے بعد بھی بنا لے تو غنیمت ہے۔ کچھ جنازے تو کرائے کے مکانوں ہی سے اٹھ جاتے ہیں۔
اس ساری مشقت کے بعد آپ بڑھاپے میں وارد ہوتے ہیں۔ زندگی کے اس دور کا اپنا چارم ہے۔ یہ ایک اچھوتی ہی فرحت ہے، ایک الگ ہی کشش ہے اور نرالی ہی جاذبیت اور لُطف ہے۔ آپ کو آپ کا پروردگار کھیلنے کے لیے کھلونے دیتا ہے۔ ایسے کھلونے جو آپ کی ساری زندگی کی مشقت کا تلخ ذائقہ زائل کر دیتے ہیں۔ یہ سانسوں کی جدوجہد کا ثمر ہے جسے خوش بخت ہی کھا پاتے ہیں۔ یہ آپ کے پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں ہیں! آپ تو ان سے لطف اندوز ہوتے ہی ہیں، یہ سوچیے کہ آپ اُن کے لیے کیا ہیں؟ آپ ان کے لیے ایک سہانے خواب سے کم نہیں! صرف ان بچوں کا دل ہی جانتا ہے کہ یہ آپ کو دیکھ کر، آپ کے ساتھ رہ کر، آپ کے ساتھ کھیل کر، آپ کے ساتھ لیٹ کر، آپ سے کہانیاں سن کر کس قدر خوش ہوتے ہیں۔ یہ ان کی عمر کا وہ حصہ ہے جس میں زندگی ان کے لیے اُڑتے ہوئے رنگین بادلوں، خوبصورت پرندوں اور کہانیوں میں جگمگاتی پریوں کے سوا کچھ نہیں۔ دادا دادی، نانا نانی، ان کے لیے، انہی رنگین بادلوں، خوبصورت پرندوں اور جگمگاتی پریوں کی طرح ہیں۔ ایک خواب کی مانند! ان کی فرمائشیں پوری کرتے ہیں۔ انہیں سیر کراتے ہیں۔ انہیں امی اور ابو کی ڈانٹ سے بچاتے ہیں۔ میں نے اپنی بیٹی سے کہا کہ میری نواسی کو ڈانٹا نہ کرو۔ اس پر اس نے ایک طنزیہ ہنسی ہنس کر کہا: ابّو! یہ آپ کہہ رہے ہیں؟ کیا آپ کو یاد نہیں آپ ہمیں کتنا ڈانٹتے تھے؟ جواب دیا کہ ہاں! ڈانٹتا تھا کیونکہ تب میں باپ تھا۔ تب آپ کے دادا ابو مجھے ڈانٹنے سے منع کرتے تھے۔ اب میں نانا ہوں‘ اور نانا کا یہی کام ہے۔ زندگی میں ہمارے رول بدلتے رہتے ہیں! ہماری حالتوں کی طرح! ہمارے بچپن اور شباب کی تصویریں دیکھ کر بچے ہم سے پوچھتے ہیں کہ یہ کون ہے؟ پھر جب جان لیتے ہیں کہ یہ کون ہے تو حیران ہوتے ہیں۔ کہاں بچپن اور جوانی اور کہاں پیٹ نکلا ہوا اور بال اُڑے ہوئے۔
کہنے کو خدوخال نظر آشنا سے ہیں
ہے کون آئنے کے مقابل؟ کہا نہ جائے
حالتیں بدلتی ہیں تو ساتھ ہی رول بھی بدل جاتے ہیں۔
روانگی سے ایک دن پہلے بازار گیا اور بچوں کی پسندیدہ چیزیں لے کر آیا! پھل، کیک اور کھلونے! پاکستان میں روانگی کا دن ہو یا آمد ہو تو بچے آسانی سے سکول سے چھٹی کر لیتے ہیں‘ مگر یہ ولایت ہے! یہاں کوئی تصور ہی نہیں کہ دادا دادی واپس جارہے تھے اس لیے کل نہیں آیا۔ صبح بچے سکول گئے۔ حمزہ بھی! جو اب دس سال کا ہے اور بھاگ بھاگ کر دادا ابو کے کام کرتا ہے اور دادا کے ساتھ ہی ہوتا ہے اور مجھے سلیم احمد کا شعر یاد آگیا:
آخری دن تھا کئی دن کی ملاقاتوں کا
آج کی شام تو وہ شخص اکیلا ہوتا
بینک گیا۔ انہیں کچھ کرنسی نوٹ دیے کہ ان کے بدلے میں سِکّے دیں۔ میرے علاوہ کوئی کلائنٹ اُس وقت بینک میں نہیں تھا۔ بینک کلرک میری طرح ہی غیر سفید فام تھی۔ پوچھنے لگی: آپ انڈیا سے ہیں؟ کہا: نہیں! پاکستان سے! کہنے لگی: میں دہلی سے ہوں۔ پھر اس نے پوچھا: انکل اتنے سکّوں کا کیا کریں گے؟ کیا بتاتا! بس مسکرا دیا۔ چار چار پانچ پانچ ڈالر مختلف جگہوں پر رکھ جاؤں گا۔ لائبریری کی کسی کتاب میں، کسی دراز میں، اپنے کسی کوٹ کی جیب میں، پھر ہر ہفتے، ہر دس دن بعد حمزہ، تیمور اور زہرہ کو فون پر بتاؤں گا کہ پاکٹ منی کہاں رکھی ہے۔ یہ ان کے لیے سرپرائز ہوگا۔ پاکٹ منی تو انہیں ملتی ہے مگر وہ روٹین کی ہے۔ یہ اس کے علاوہ ہو گی۔ اس سے وہ خوش ہو جائیں گے۔ زندگی میں چھوٹی چھوٹی خوشیاں جزیروں کی طرح ہیں۔ ہم سمندر میں بہہ رہے ہیں۔ بہے جا رہے ہیں۔ بہاؤ کے ساتھ! خوشی کا کوئی جزیرہ راستے میں آ جائے تو کچھ لمحے اچھے گزر جائیں! ورنہ پھر ہم اور وہی بہاؤ!
بشکریہ روزنامہ دنیا
No comments:
Post a Comment