Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, March 22, 2022

الاٹمنٹ کا انوکھا کاروبار

اس سرکاری قبرستان میں کئی بار جانا ہوا۔ کچھ قریبی اعزہ وہاں میرے بھی مدفون ہیں۔ سرکاری کارندے قبرستان میں کم ہی نظر آتے ہیں۔ پرائیویٹ مزدور ہاتھوں میں درانتیاں لیے گھومتے رہتے ہیں۔ آپ جس قبر پر رکیں گے فوراً دو تین افراد وہاں پہنچ جائیں گے۔ قبر کی دیکھ بھال کا ماہانہ معاوضہ طے کرینگے۔ یہ وفاقی دارالحکومت کا قبرستان ہے۔ قبروں کی دیکھ بھال سرکاری افراد کیوں نہیں کرتے؟ نہیں معلوم! ہو سکتا ہے وہ بااثر لوگوں کے گھروں میں ڈیوٹی دے رہے ہوں۔
اُس دن میں وہاں شام کے بعد پہنچا۔ آسمان پر گھٹا چھائی ہوئی تھی۔ اندھیرا معمول سے زیادہ تھا۔ خال خال کوئی انسان نظر آتا تھا جو کسی قبر کی پائنتی پر کھڑا، ہاتھ اٹھائے، دعا مانگ رہا تھا۔ قبرستان کے ایک سرے پر ایک عزیز کی قبر تھی۔ فاتحہ پڑھ کر دوسرے عزیز کی قبر کا رخ کیا جو دوسرے کنارے پر تھی۔ پورا قبرستان عبور کرنا تھا۔ قبروں کے درمیان کچی پکی روشوں پر چلتا ایک موڑ مڑا تو سامنے، کچھ دور، دو سائے نظر آئے۔ یوں لگتا تھا‘ جیسے دو آدمی کھڑے ہوں۔ نزدیک پہنچا تو اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ ٹانگیں کانپنے لگیں۔ دل کی دھڑکن پہلے تیز ہوئی پھر جیسے دل ڈوبنے لگا۔ آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ فاصلہ بھی اتنا کم تھا کہ اشتباہ کی گنجائش نہ تھی۔ یہ دو انسانی ڈھانچے تھے جو آپس میں گفتگو کر رہے تھے۔ ہڈیوں کے ڈھانچے! اس سے پہلے کہ ان میں سے کسی کی نظر مجھ پر پڑ جاتی اور مجھے کچھ ہو جاتا، میں ایک درخت کی اوٹ میں ہو گیا۔ یہ درخت دو قبروں کے درمیان تھا۔ یہ محض حسنِ اتفاق تھا کہ ان کی گفتگو یہاں سے سنی جا سکتی تھی۔ میں درخت کے پیچھے دبک کر بیٹھ گیا۔ دونوں ڈھانچے کسی بات پر بحث کر رہے تھے۔ ایک بار ذرا آگے ہو کر دیکھا تو ایک ڈھانچا، جو بات کر رہا تھا، بہت ڈراؤنا لگ رہا تھا۔ ہونٹ غائب تھے۔ بتیسی پوری نظر آرہی تھی۔ بات کرتا تھا تو بتیسی ہلتی تھی۔ یوں وہ زیادہ ہولناک لگتا تھا۔ ڈر کے بارے میں پھر پیچھے ہو کر بیٹھ گیا۔
کچھ دیر ان کی بحث سننے کے بعد اندازہ ہوا کہ جھگڑا اس سرکاری قبرستان میں قبریں ریزرو کرانے کے متعلق تھا۔ ایک ڈھانچے نے اونچی آواز میں بات کی تو دوسرے نے کہا ''آواز نیچی رکھو! اب تمہیں کوئی برتری حاصل نہیں۔ آج ہم دونوں کو دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ میں نائب قاصد تھا یعنی چپڑاسی اور تم وزیر تھے یا سینیٹر یا گریڈ بائیس کے افسر! جب ہم دونوں زندہ تھے تو میں حقیر تھا اور تم بااثر۔ تم نے اس وفاقی دارالحکومت کو طبقاتی تقسیم کی بد ترین مثال بنا دیا تھا۔ ہزاروں نائب قاصدوں، ڈرائیوروں اور خاکروبوں کے لیے چند سو کوارٹر! جنہیں تم حقارت سے ''اے ٹائپ کوارٹر‘‘ کہتے تھے۔ ایک کمرہ! ایک غسل خانہ اور کھانا پکانے کے لیے ایک چھپر! کتنوں کو تو یہ بھی نہ الاٹ ہوا۔دوسری طرف تم لوگوں کے لیے بڑے بڑے محلات! وہ بھی ہزاروں کی تعداد میں! تمہارے بازار الگ تھے۔ تمہارے بچوں کے سکول الگ تھے۔ تمہاری ہر شے ہم سے مختلف تھی اور برتر! ہمارے بچوں کو ہماری طرح نائب قاصد کی نوکریاں ملتی تھیں۔ تمہارے بچے انگلستان اور امریکہ جاتے تھے۔ یہ سب کچھ تو دارالحکومت میں ہو رہا تھا مگر ستم کی انتہا یہ ہوئی کہ تم نے قبرستان میں بھی یہ مکروہ طبقاتی تقسیم جاری رکھی۔ تمہاری بیوی مری اور دفن ہوئی تو تم نے ساتھ والی قبر کی جگہ اپنے لیے ریزرو کرا لی۔ اس لیے کہ تم بااثر تھے۔ میرا باپ مرا تو میں نے کوشش کی کہ اس کے پاؤں کی طرف جو جگہ ہے اسے اپنی قبر کے لیے مختص کرا لوں مگر میری کون سنتا تھا۔ متعلقہ افسر کے پاس گیا تو اس نے کہا کہ رُول اجازت نہیں دیتا۔ تمہارے لیے، اور تم جیسے دوسرے گردن بلندوں کے لیے رُول اجازت دیتا تھا۔ میں اپنے لیے قبر ریزرو نہ کرا سکا۔ تم نے کرا لی۔ گویا پلاٹوں کی الاٹمنٹ کا مکروہ کاروبار تم قبرستان میں بھی لے آئے۔ تمہارا اور تمہاری کلاس کے دوسرے افراد کا بس چلتا تو اپنے لیے اور اپنی بیگمات کے لیے تین تین چار چار قبریں فی کس کے حساب سے الاٹ کراتے۔ پھر ان پر اہرام یا بڑے بڑے قبّے بنواتے۔ کتبوں پر عہدوں کے نام لکھواتے۔ پھر ان پر گارڈ آف آنر کا انتظام کراتے۔ فل ٹائم پہریدار، ڈرائیور اور خاکروب تعینات کراتے۔ ایک پی اے بھی قبر پر بٹھا دیتے۔
میں نے معاملہ تقدیر پر چھوڑ دیا۔ یہ تو مجھے مرنے کے بعد معلوم ہوا کہ قبر، بیوی یا باپ کی قبر کے پاس رکھوانے کا کوئی فائدہ نہیں! حساب تو اپنے اعمال کا ہونا ہے۔ اور یہ تو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ساتھ یا پاؤں کی طرف، یا سر کی طرف کس کی قبر ہے اور کون لیٹا ہوا ہے۔ میں کئی دن سے سوچ رہا تھا کہ تم سے پوچھوں کہ بیوی کی قبر کے پاس دفن ہو کر تمہیں کیا حاصل ہوا؟ کئی دن سے فرشتے کی منت کر رہا تھا کہ مجھے باہر نکلنے دو کہ تجھ تکبر مآب سے بات کروں۔ آخر آج اس نے اجازت دی‘ اور ساتھ ہی تمہاری قبر کا پتہ دیا اور یہ بھی کہا کہ کھینچ کر تمہیں تمہاری قبر سے باہر نکالوں۔ تم کیا سمجھتے تھے کہ تدفین کے بعد بھی تمہاری افسری اور تمہاری وزارت اور تمہاری چوہدراہٹ اور تمہاری کھڑپینچی جاری رہے گی؟ بتاؤ! بیوی کی بغل میں دفن ہو کر تم کیا اس سے باتیں کرتے ہو؟ یا کیا وہ ہر ہفتے تمہارا کفن دھو کر استری کرتی ہے؟ یا سرِ شام اس کے ساتھ قبرستان میں سیر کرتے ہو جیسے مرنے سے پہلے کرتے تھے اور تمہارا کُتا بھی ساتھ ہوتا تھا۔ احمق انسان! آج ہم دونوں ہڈیوں کا ڈھانچا ہیں! تمہاری قبر پر جو قیمتی سنگ مرمر لگا ہے اس کا تمہیں کیا فائدہ ہے؟ ہم دونوں ایک جیسے ہیں۔ دونوں کی کھوپڑیاں عبرت ناک ہیں۔ دونوں کی جہاں آنکھیں تھیں وہاں گہرے گڑھے ہیں۔ چہرے کا گوشت، دونوں کا، حشرات الارض چٹ کر چکے! صرف بتیسی ہے جو اٹکی ہوئی ہے۔ پھیپھڑے ہیں اور ننگی پسلیاں! بازؤوں اور ٹانگوں کی جگہ لمبی لمبی ہڈیاں ہیں۔ آج میں نادار ہوں نہ تم ثروت مند! میں محتاج ہوں نہ تم غنی! تو پھر تم نے اور تمہارے جیسے دوسرے بے وقوف امرا نے اثر و رسوخ استعمال کر کے اپنے لیے اور اپنے رشتہ داروں کے لیے قبریں کیوں ریزرو کرائیں؟
دوسرا ڈھانچا، چپ چاپ، سر جھکائے سب کچھ سنتا رہا۔ چوں تک نہ کی۔ کر بھی نہیں سکتا تھا۔ اتنے میں فرشتے کی پاٹ دار آواز آئی کہ ملاقات کا وقت ختم ہو چکا۔ دونوں ڈھانچے اپنی اپنی قبروں میں واپس جائیں۔ ان کے جانے کے بعد میں اٹھا مگر سچی بات یہ ہے کہ میری ٹانگیں لرز رہی تھیں!
پس نوشت! ایک تازہ خبر کے مطابق وفاقی دارالحکومت کے دونوں قبرستانوں میں بااثر افراد نے اپنے لیے اپنی پسند کی جگہوں پر قبریں ریزرو کرائی ہوئی ہیں۔ جو قبرستان دس سال پہلے بند ہو چکا، اس میں یہ عوامی نمائندے اور نوکر شاہی کے ریٹائرڈ ارکان اب بھی چار سو پچاس قبریں ریزرو کرا کے بیٹھے ہوئے ہیں۔ رہا دوسرا قبرستان تو اس میں ریزرو قبروں کی تعداد دو ہزار سات سو ہے۔ اس کے باوجود کہ پیشگی ریزرویشن منع ہے بلکہ بند ہے، قبریں ریزرو کی گئی ہیں۔
بشکریہ روزنامہ دنیا 

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com