پہلی شادی عمران خان نے غیر ملکی عورت سے کی اور وہی غلطی کی جو غیر ملکی عورتوں سے شادی کرنے والے پاکستانی کرتے ہیں۔
بہت کم ایسا ہوا ہے کہ غیر ملکی بیوی پاکستان آ کر ہنسی خوشی آباد ہوئی ہو جو مثالیں ملتی ہیں وہ اس قدر کم ہیں کہ ان سے قاعدہ کلیہ نہیں بنتا۔ اس لیے کہ محاورہ ہے ؟؟الشاذ کالمعدوم‘‘ جو کبھی کبھار ہوتا ہے وہ نہ ہونے جیسا ہوتا ہے۔
غیر ملکی عورتوں سے جن پاکستانیوں کی شادیاں کامیاب ہوئی ہیں ان میں سے بھاری تعداد وہ ہے جن میں مرد بیوی کے ملک ہی میں رہتا ہے۔ اسی کا رنگ اوڑھ لیتا ہے، اس کے سانچے میں ڈھل جاتا ہے یا بچوں کے مستقبل کی خاطر، بچوں کو ماں اور باپ کے درمیان تقسیم ہونے سے بچانے کی خاطر قربانی دیتا ہے۔
مصطفی زیدی نے یورپی خاتون سے شادی کی تھی۔ پھر ایک نظم کہی
ہم پر ہنسنے والے بچو آئو تمہیں سمجھائیں
جس کے لیے اس حال کو پہنچے اس کا نام بتائیں
اس نظم میں آگے چل کر کہا
ع اٹھارہ گھنٹوں کا دن اور چھ گھنٹوں کی رات
جو پاکستانی غیر ملکی عورتوں سے شادی کرتے وقت یہ سمجھتے ہیں کہ وہ پاکستان آ کر رہ لے گی، انہیں ان لاکھوں پاکستانی عورتوں کو دیکھنا چاہیے جو ایک دفعہ یورپ یا امریکہ جا کر چند دن رہ کر واپس پاکستان آنے کا نام نہیں لیتیں۔ جمائما جتنا عرصہ پاکستان رہیں ان کی ہمت تھی اور ایک نجیب خاندانی پس منظر۔ زمین اور آسمان اور ہوائیں چاندنی بادل دھوپ چھائوں پانی سب کچھ مختلف۔ خاندانی نظام کی دنیا یکسر مختلف۔ پھر خوش قسمتی یا بدقسمتی سے عمران خان میدان سیاست کے شہسوار تھے۔ جس معاشرے میں سیاست دان اتنے ’’تعلیم یافتہ‘‘ اور ’’خوش نیت‘‘ ہوں کہ انہیں لندن کے محلے مڈل سیکس میں جنس نظر آ رہی ہو اور فتویٰ دیں کہ اس محلے کا نام لینے سے وضو ٹوٹ جاتا ہو، اس معاشرے میں ایک یورپی عورت کا رہنا معجزے سے کم نہیں اور معجزوں کے زمانے لد چکے۔
عمران خان کے بچے یورپ میں ماں کے پاس ہیں۔ اخبار بینوں کو یاد ہو گا حال ہی میں چیف جسٹس اپنے داماد پر ناراض ہوئے تھے کہ کسی کی سفارش کی تھی۔ ایک اعلیٰ پولیس افسر کا معاملہ تھا۔ غیر ملکی عورت سے شادی کی۔ بچے پاکستان لے آیا۔ بچوں کی ماں تعاقب میں آئی، اسے واپس نہ جانے دیا۔ اگر عمران خان اصرار یا ضد کرتے کہ بچے پاکستان میں رہیں گے تو صورت حال زیادہ مختلف نہ ہوتی۔ غیر ملکی عورتوں سے شادی کرتے وقت پاکستانی مرد اس قدر کوتاہ بیں ہو جاتا ہے کہ دس پندرہ بیس سال بعد کے منظر کا تصور
(Visualise)
نہیں کرتا۔
عمران خان کی دوسری شادی جو ریحام خان سے ہوئی، انتہائی مضحکہ خیز پیش منظر کے ساتھ ہوئی۔ نہ جانے یہ روایت جو عام ہے کس حد تک درست ہے کہ جنرل حمید گل مرحوم نے عمران خان کو منع کیا تھا۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ لڑکا جب بیرون ملک سے اعلیٰ ترین ڈگریاں لے کرواپس آتا ہے تو اس کے بظاہر ان پڑھ و الد مامے چاچے شادی کے ضمن میں جو مشورے دیتے ہیں وہ صائب ہوتے ہیں اس لیے کہ ان معاملات میں ڈگریاں نہیں، زندگی کے تجربے کام آتے ہیں۔ نہیں معلوم ریحام خان سے ازدواج کا فیصلہ کرتے وقت عمران خان نے خاندان کے بڑوں سے مشورہ کیا یا نہیں۔ بہر طور اس شادی کی اس قدر تشہیر ہوئی کہ سنجیدہ لوگوں کو گھن آنے لگی۔ پہلے تو عقد کی تاریخ چھپائی گئی۔ یہاں تک کہ ٹوہ لگانے والے معروف صحافیوں کو واہ واہ کرانے کا موقع مل گیا۔ پھر اندرون خانہ کی کون سی بات تھی جو میڈیا پر نہ آئی اور اچھالی نہ گئی۔ خواب گاہ کے معاملات، پالتو کتوں کے جھگڑے، ریحام خان کا پارٹی معاملات میں عمل دخل۔ ریحام خان ایک جاہ طلب خاتون تھی۔ پھر وہی ہوا جو ان معاملات میں ہوتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ عمران خان کا ریحام خان سے شادی کرنے کا فیصلہ ایک وقتی ابال کا نتیجہ تھا۔ اس معاملے میں اس نے گہرائی او رگیرائی سے سوچ بچار نہ کی اورایک ٹین ایجر کی طرح جھٹ منگنی پٹ بیاہ۔ جذبات کی رو میں بہہ کر، یا ظاہر کی کشش اور خوبصورتی سے گھائل ہو کر اپنے آپ کو ایک ایسی جگہ لا پھینکا جہاں سبز، پھولوں والی ٹہنیاں پڑی تھیں مگر جن کے نیچے کنواں تھا جو سبز، پھولوں والی ٹہنیوں سے ڈھکا ہوا ہونے کی وجہ سے نظر نہیں آ رہا تھا۔
پھر عمران خان نے تیسری شادی کی۔ یہ کہنا تو مناسب نہ ہوگا کہ اس شادی کے ضمن میں اس نے تین صریح غلطیاں کیں مگر یہ ضرور کہنا چاہیے کہ اس نے تین اہم ترین پہلوئوں کو یا عوامل کو یا
Factors
کو مدنظر نہیں رکھا۔ یہ تین پہلو یا عوامل کیا تھے۔ ان کا بیان مناسب نہیں ہے، اس لیے کہ ان سطور کا لکھنے والا کسی بدشگونی یا کال جیبا (سیاہ زبان والا) ہونے کا الزام سر پر نہیں لینا چاہتا۔ دعا ہے کہ اس تیسری شادی کا انجام پہلی دو کی طرح افسوس ناک نہ ہو۔ خدائے بزرگ و برتر اسے کامیابی سے ہم کنار کرے اور خان صاحب کے لیے راحت کا باعث بننے کے علاوہ ’’ہن لباس لکم و انتم لباس لہن ‘‘کا سامان ثابت ہو۔
حمزہ عباسی ایک نوجوان ہے۔ جذبات سے بھرا ہوا۔ عمران خان کی محبت کا سمندر اس کے دل میں ٹھاٹیں مار رہا ہے مگر کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ نادانستہ نادان دوست کا کردار ادا کر رہا ہے۔ ابھی اس نے زندگی کے گرم اور سرد نہیں چکھے۔ تجربوں سے اس کا دامن خالی ہے۔ میڈیا کی چکا چوند نے بہت سے ناپختہ نوجوانوں کو اتنی شہرت دے دی ہے کہ وہ اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے لگے ہیں۔ ریحام خان کی مبینہ کتاب کو، جو ابھی منظر عام پر نہیں آئی حمزہ عباسی نے اور پھر پی ٹی آئی کے مختلف بزرجمہروں نے اس قدر تشہیر دی ہے کہ ریحام خان لاکھوں ڈالر بھی خرچ کرتی تو اتنی تشہیر حاصل نہ کرپاتی۔
رہا میڈیا تو کون نہیں جانتا کہ میڈیا دکانداری ہے اور وہ بھی چوبیس گھنٹوں کی۔ صوابی یا سانگلہ ہل کے کسی دور افتادہ گائوں میں کنویں سے پانی بھرتے وقت کسی دوشیزہ کا گھڑا ٹوٹ جائے تو بریکنگ نیوز بن جاتی ہے
؎ ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق
نوحہ غم ہی سہی، نغمہ شادی نہ سہی
سنجیدہ ترین اینکر حضرات بھی اس رن میں کود پڑے ہیں۔ عمران خان کی حالت قابل رحم ہے اگرچہ اس نے خود اس معاملے میں کوئی بات نہیں کی مگر ظاہر ہے سب کچھ سن اور دیکھ رہا ہو گا۔ حریف سیاسی جماعتیں اس بہتی گنگا میں کیوں نہ ہاتھ دھوئیں۔ ایک مخصوص سیاسی جماعت اس ضمن میں سیاہ ترین ماضی رکھتی ہے۔ بینظیر اور نصرت بھٹو کے ساتھ بدترین اخلاقی پستی اور سفلہ پن کا مظاہرہ کیا گیا۔ تصویریں اور کہانیاں اور کارٹون اور نام اور آوازے۔ ایک معروف سیاست دان نے جو، اب عمران خان کی ناک کا بال ہے، بینظیر کو کیا نہیں کہا۔ اسے دہرانے سے شرم آتی ہے۔ پھر ریحام خان کا حسین حقانی سے ملاقات کرنا بے سبب نہیں ہوسکتا۔ عبرت حاصل کرنے والوں کے لیے اس ملاقات میں نشانیاں ہیں۔
کتاب شائع ہوئی ہے یا نہیں؟ کب شائع ہوئی ہے؟ کہاں سے شائع ہوئی ہے؟ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اس کالم نگار کا اندازہ یہ ہے کہ پہلے برطانیہ میں چھپے گی نہ پاکستان میں۔ بلکہ پہلے بھارت میں چھپے گی اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ انگریزی اور ہندی ایڈیشن دونوں بیک وقت بھارت سے شائع ہوں۔ اس لیے کہ ہمارے ہاں ایک سیاست دان ایسا بھی ہے جس کے لیے بھارت دل میں نرم گوشہ رکھتا ہے۔ اگر اس کتاب کی بھارت میں اشاعت سے عمران خان کو اور اس کی سیاست کو دھچکہ لگتا ہے تو بھارت کی طرف سے اپنے پسندیدہ سیاست دان کے لیے یہ ایک قابل قدر تحفہ ہوگا۔
No comments:
Post a Comment