Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Sunday, June 24, 2018

اثاثے اور انکی قیمت


عجیب و غریب بستی تھی۔ حیرتوں کے مجھ پر پہاڑ ٹوٹ پڑے۔

پوری بستی میں ایک بھی باتھ روم نہ تھا۔ یہ تو وہ زمانہ ہے کہ باتھ روم پر بے تحاشا دولت لٹائی جاتی ہے۔ ایک سابق وزیر اعظم کے بارے میں یہ خبر تواتر سے چھپتی رہی ہے کہ سرکاری گھر میں باتھ روم پر کروڑوں روپے صرف کر دیے۔ وہ تو خیر سرکاری معاملہ تھا۔ مال مفت دل بے رحم۔ اپنی جیب سے بھی جو لوگ مکان بنواتے ہیں‘ باتھ روم پر اس قدر توجہ دیتے ہیں جیسے حجلۂ خاص یہی ہو! مہنگی ٹائلوں کا فرش! دیواریں دیدہ زیب ! ٹب‘ کموڈ‘ بیسن اعلیٰ سے اعلیٰ۔ مہنگے سے مہنگے۔ اپنے عرب بھائی تو باتھ روموں میں ٹونٹیاں سونے کی لگواتے ہیں۔ سرسید احمد خان نے تقریباً ڈیڑھ سو سال پہلے بحری جہاز میں انگلستان کا سفر کیا تو پہلی بار نہلانے والا شاور دیکھا۔ لکھتے ہیں کہ ایک کل کھینچی تو بارش برسنے لگی۔(کچھ اسی مفہوم کا فقرہ تھا) شاور بازار میں قسم ہا قسم کے ہیں۔ خوب چوڑے کچھ گول بناوٹ والے۔ نیچے کئی قسم کی ٹونٹیاں‘ ایک کھولیں تو گرم پانی نکلے دوسری کو ہاتھ لگائیں تو ٹھنڈا‘ تیسری سے معاملہ کریں تو مکس پانی جو ٹھنڈا نہ گرم بلکہ گوارا اور آرام دہ! لاکھوں روپیہ ایک ایک باتھ روم پر لگایا جاتا ہے! کچھ میں تو پنکھے اور فون بھی لگے ہوتے ہیں ۔ پرانے زمانے میں بلکہ از منۂ وسطیٰ میں شاہی حمام ہوتے تھے۔ ساتھ ڈیوڑھیوں اور راہداریوں کا ایسا سائنسی نظام کہ ادھر شاہ یا شاہ زادی نہا کر نکلی ادھر ان ڈیوڑھیوں راہداریوں سے ہوائیں چلیں! شاعروں نے صبح کے نہانے سے ہی محبوب کا تصور وابستہ کر لیا ؎

صبح جب دھوپ کے چشمے سے نہا کر نکلی

ہم نے آئینہ بہ دل تیرا سراپا دیکھا

بستی کی طرف واپس چلتے ہیں عجیب و غریب بستی! پوری بستی میں ایک باتھ روم بھی نہیں! سوچنے لگا لوگ آخر کیسے رہ رہے ہیں! کس طرح گزران کر رہے ہیں! گھروں کے درمیان کچی پگڈنڈیاں تھیں۔ اس قدر تنگ کہ کار یا موٹر یا لاری گزر ہی نہ سکتی تھی! سنگ مر مر کی دیواریں تھیں نہ خالص دیار کی لکڑی کے دروازے’ کھڑکیاں نہ روشندان ! شہ نشینیں نہ محراب! ملبوسات لٹکانے کی الماریاں بھی نہ تھیں! کسی ایک گھر میں بھی ایئر کنڈیشنر لگا ہوا نہ نظر آیا اور تو اور چھت والے عام برقی پنکھے بھی نہیں تھے۔

اس عجیب و غریب بستی کی تنگ کچی پگڈنڈی نما گلیوں میں پھرتے ہوئے مجھے لوگوں کے اثاثوں کا خیال آیا۔ اپنے سردار ایاز صادق کے اثاثوں کی مالیت ساڑھے چار کروڑ روپے۔ تین بنک اکائونٹس۔ علیم خان کے لاکھوں حصص کی مالیت بارہ کروڑ ۔پاکستان میں 43اور بیرون ملک تین کمپنیاں‘ تین لینڈ کروزر اور ہونڈا سوک! کیپٹن صفدر کے چار کروڑ کے اثاثے تین ہزار کنال زرعی اراضی ‘دس لاکھ کی جیولری ۔آصف زرداری صاحب کے پاس چھ بلٹ پروف لگژری گاڑیاں‘ دبئی میں ہزاروں ایکڑ کی پراپرٹی‘ کروڑوں روپے کے گھوڑے اور مویشی‘ ڈیڑھ کروڑ کا اسلحہ‘ ڈیفنس اور کلفٹن کی جائیدادیں اس کے علاوہ! بلاول بھٹو کی لاہور کی رہائش گاہ پانچ ارب روپے سے تعمیر ہوئی جس میں بیس ڈرائنگ روم‘ تین کانفرنس ہال۔ دو ہیلی پیڈ‘ اس کے علاوہ پانی کے حوض اور ٹینس کورٹ! مریم صفدر (یا مریم نواز) پانچ ملوںمیں شیئر ہولڈر ہیں ڈیڑھ ہزار کنال اراضی بھی رکھتی ہیں۔ ملک کے اندر 84کروڑ کے اثاثے ہیں64لاکھ روپے سے زائد کے غیر ملکی دورے کیے۔

ان اثاثوں کا خیال دماغ سے جھٹک کر نکالا اور تنگ گزرگاہوں پر چھوٹے چھوٹے مکانوں کے درمیان چلتا رہا کہیں کہیں درخت لگے تھے۔ پوری بستی میں پانی کی بہم رسانی کا انتظام نہیں نظر آ رہا تھا ‘کوئی واٹر ٹینک کہیں نہ تھا۔ بجلی کا ایک کھمبا‘ ایک بلب نہ دکھائی دیا۔ مکانوں کے درمیان خالی جگہ اول تو تھی ہی کم‘ جو تھی وہ جھاڑیوں‘ جھاڑ جھنکار سے بھری ہوئی تھی۔ ایک چھوٹی سی مسجد وہ بھی بستی کی حدود سے باہر ذرا فاصلے پر یوں لگتا تھا اگر کوئی نماز کے لیے آتا بھی تھا تو گھر سے وضو کر کے۔ یہ اور بات کہ پانی کی سپلائی کا بندوبست جیسا کہ اوپر بیان کیا ہے بظاہر نظر ہی نہیں آ رہا تھا۔

میں حیران پریشان! آخر یہ لوگ کس طرح رہ رہے ہیں یا خدا ! مکانوں کی چھتیں اس قدر نیچی کہ چھتوں کو ہاتھ لگانے کے لیے جھکنا پڑتا تھا۔ زیادہ تر چھت کچی مٹی کے تھے کچھ پر اینٹیں لگی تھیں کچھ سیمنٹ کے تھے کچھ امرا نے چھتوں پر سنگ مر مر لگوایا تھا۔ دیوار زمین سے اٹھتی تھی‘ چند انچ کے بعد ہی چھت تک پہنچ جاتی تھی۔ کوئی گھر بھی 6X3سے زیادہ کے رقبے کا نہ تھا!

میں مکانوں کے درمیان پھرتا رہا۔ یہاں دروازوں پر نام کی تختیاں لگانے کا رواج نہ تھا دروازے ہی نہ تھے تو تختیاں کہاں لگتیں گھر ہر طرف سے بند تھے اندر جانے کا راستہ تھا نہ اندر سے باہر نکلنے کا۔ یوں لگتا تھا ان گھروں میں جو بھی داخل ہوا آج تک باہر نہیں نکلا۔ کچھ چھتوں کے ساتھ تختہ نما پتھر تھے جن پر مکان کے مالک کا نام اور مکان کے اندر داخل ہونے کی تاریخ درج تھی بہت سے مکان کچے تھے۔ ان پر کسی کا نام نہیں لکھا تھا۔ ایک عجیب بات اس بستی میں یہ دیکھی کہ ناجائز قبضے کا یہاں تصور نہ تھا! جن مکانوں پر مالک کے نام کا پتھر نصیب نہیں تھا وہ بھی بالکل محفوظ تھے ایسا کبھی نہ ہوا کہ کوئی کسی کے گھر میں داخل ہو گیا۔ امن و امان مثالی تھا۔ یہاں کوئی کسی کو تنگ نہ کرتا تھا ‘کوئی تھانہ ‘نہ پولیس چوکی‘ کچہری تھی نہ پٹوار خانہ‘ خریدو فروخت کا رواج نہ تھا پراپرٹی ڈیلر‘ مکانوں کے اندر چھپے ہوں تو ہوں باہر کوئی نہ تھا!

ایسی بستیاں پورے ملک میں ’’آباد‘‘ ہیں! ان آبادیوں میں رات دن اضافہ ہو رہا ہے بستی میں داخلے کا کلچر بہت سادہ ہے جب کسی کے لیے نیا گھر بنتا ہے تو اس کے عزیز و اقارب دوست احباب اسے چھوڑنے آتے ہیں ۔اسے ایک چارپائی پر لٹایا جاتا ہے‘ کچھ لوگ اس چارپائی کو کندھوں پر اٹھاتے ہیں اور بستی کی طرف چلنا شروع کر دیتے ہیں۔ چارپائی کے پیچھے پیچھے لوگ چلتے آتے ہیں۔کچھ اونچی آواز میں مقدس کلمات دہراتے ہیں‘ زیادہ تر خاموشی سے چلتے رہتے ہیں۔ مختصر سی نماز اور دعا کے بعد مکین کو اس کے نئے گھر میں جو پہلے سے تیار ہوتا ہے داخل کر دیا جاتا ہے پھر اس گھر کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند اور سربمہر کر دیا جاتا ہے۔ سیل کرنے کے بعد الوداعی دعا ہوتی ہے۔ پھر سب عزیز و اقارب دوست احباب واپس چلے جاتے ہیں۔ سنا ہے کہ جانے والوں کے قدموں کی آہٹ اسے سنائی دیتی ہے۔

اب وہاں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ اثاثے دکھائے جاتے ہیں اور ان اثاثوں کی قیمت گھٹائی یا بڑھائی نہیں جا سکتی! کوئی دشمن اثاثوں کی قیمت وہاں بڑھا کر نہیں بتا سکتا کوئی خیر خواہ اثاثوں کی قدر گھٹا نہیں سکتا وہاں منی ٹریل پوچھی نہیں جاتی‘ دکھائی جاتی ہے۔ انسان حیران ہوتا ہے کہ جو منی ٹریل‘ جو اثاثے جو جائیدادیں جو زرعی اراضی‘ جو کارخانے جو فلیٹ جو محلات‘ جو بینک بیلنس جو زیورات جو اسلحہ ساری عدالتیں ساری پولیس سارا نیب‘ سارا ایف بی آر‘ ساری ایف آئی اے نہیں معلوم کر سکی اس تنگ و تاریک گھر میں داخل ہونے کے بعد اس کی ایک ایک تفصیل دکھا دی جاتی ہے ۔

ایک اور تماشا وہاں یہ لگتا ہے کہ اب یہ اثاثے تحویل میں بھی نہیں ہوتے اب یہ ملکیت سے خارج ہو کر وارثوں کو مل چکے ہوتے ہیں اب ان اثاثوں کا رمق بھر فائدہ نہیں پہنچ سکتا ۔اب فائدہ پس ماندگان اٹھاتے ہیں اور حساب کتاب اسے دینا پڑتا ہے‘ انسان کی آنکھیں کھلتی ہیں۔ ہوش آ جاتا ہے کہ افسوس! جن اثاثوں کیلئے ساری زندگی محنت کی ‘ جائز ناجائز ہر حربہ استعمال کیا ‘ جمع کرتا رہا‘ چھپاتا رہا۔ ان میں اضافہ کرتا رہا۔ خوش ہوتا رہا۔ دل مضبوط کرتا رہا‘ آسودگی کا احساس ایک عجیب طمانیت بخشتا رہا۔ وہ یہاں آ کر بیکار نکلے۔ ع

خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا

کچھ بھی کام نہ آیا! الٹا حساب دینا پڑا۔ حساب بھی اتنا سخت کہ کسی ہیر پھیر کی گنجائش نہیں کوئی وکیل کوئی اکائونٹنٹ کوئی مالیات کا ماہر جادوگر کام نہ آیا۔

عقلمند لوگ اس بستی میں منتقل ہونے سے پہلے یہاں کا بندوبست کر لیتے ہیں ‘ایسے اثاثے اکٹھے کرتے ہیں جن کا حساب نہیں دینا پڑتا مگر یہاں کام آتے ہیں۔ انکی وجہ سے سہولیات میسر آتی ہیں! اوپر سے پتہ نہیں چلتا مگر اندر اس بستی کے نیچے‘ زیر زمین‘ ایک دنیا آباد ہے۔


No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com