Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Sunday, June 03, 2018

واہ رے پاکستان تیری بھی کیا قسمت ہے


‎سب سے پہلے تو قوم کو اس زبردست تبدیلی کی مبارک باد! 
‎افسر شاہی کے ایک مشہور 
‎ معروف کردار کو سول سروس اکیڈمی کا سربراہ بنا دیا گیا ہے! نگران حکومت کا یہ کارنامہ سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے۔ 
‎جیسا کہ ہم میں سے ہر پڑھے لکھے پاکستانی کو معلوم ہے کہ سول سروس اکیڈمی میں مستقبل کے بیورو کریٹ تیار کیے جاتے ہیں۔ سی ایس ایس یعنی مقابلے کے امتحان میں کامیاب ہونے والے نوجوانوں کو مختلف سروس گروپ الاٹ کیے جاتے ہیں۔ کچھ کو ضلعی انتظامیہ‘ کچھ کو فارن سروس‘ کچھ کو کسٹم اور انکم ٹیکس ‘کچھ کو پولیس ‘کچھ کو آڈٹ اینڈ اکائونٹس ‘کچھ کو اطلاعات اور کچھ کو دوسرے محکمے جیسے ریلوے اور کنٹونمنٹ بورڈ مختص کیے جاتے ہیں۔ ا
اپنے مختص کردہ محکموں میں عملی کام کے لیے تعیناتی سے قبل مستقبل کے ان معماروں کو ایک سال سول سروس اکیڈمی میں تربیت دی جاتی ہے۔ اس تربیتی عرصہ کے دوران یوں تو بہت سے مضامین جیسے اقتصادیات‘ پبلک ایڈمنسٹریشن‘ تاریخ پاکستان‘ بجٹ سازی‘ ملکی قوانین وغیرہ کی تعلیم دی جاتی ہے مگر اصل کام ذہن سازی ہوتا ہے۔ یعنی مستقبل کی سول سروس میں خدمات سرانجام دینے کے لیے ایک وطن دوست دیانت دار اور بے لوث ذہن کی تیاری! 
‎یہ صاحب جو پہلے پنجاب حکومت میں شہباز شریف کی ناک کا بال رہے‘ گزشتہ پانچ سال وفاق میں سابق وزیر اعظم کے دست راست رہے۔ یہاں تک کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے والی ٹیم کا بھی حصہ بنائے گئے۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں سابق وزیر اعظم خود سرکاری فائلیں پڑھتے تھے نہ ان پر کچھ لکھتے تھے یہ سارا کام ان کے یہ سیکرٹری کرتے تھے۔ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران ہر غلط اور ہر صحیح فیصلے میں یہی صاحب شریک تھے۔ اب انہیں آئے دن نیب میں بلایا جا رہا ہے۔ میڈیا میں ان کی جائیداد کا تذکرہ بھی کیا جا رہا ہے نیب نے انہیں آٹھ جون کو آٹھویں بار طلب کیا ہے۔ الزام ہے کہ بطور پرنسپل سیکرٹری وزیر اعلیٰ پنجاب ان صاحب نے آشیانہ اقبال ہائوسنگ کا ٹھیکہ لطیف سنز سے لے کر کاسا کمپنی کو دینے کے لیے دبائو ڈالا۔ ان کے بارے میں اور کیا کیا انکشافات ہوتے ہیں‘ مستقبل ہی میں معلوم ہو سکے گا! 
‎دیانت و امانت میں ایسی بے مثال شخصیت کو سول سروس اکیڈمی کا سربراہ تعینات کر کے نگران حکومت نے مستقبل کے پاکستان کو محفوظ تر اور تابندہ تر کر دیا ہے۔ ماشاء اللہ ! اس وقت اکیڈمی میں موجود نوجوان افسر‘ اور آئندہ آنے والے افسر‘ اس مثالی شخصیت کو اپنا سربراہ پائیں گے تو یقینا انہیں آئیڈیل بھی مانیں گے! یہ صاحب ان نوجوان افسروں کو سارے قاعدے کلیے تراکیب گُر بتائیں گے کہ باس کو خوش کرنے کے لیے ٹھیکوں کی تبدیلی کے حوالے سے دبائو کس طرح ڈالا جاتا ہے۔ کیسے ہر غلط کام میں حکم کی تعمیل کی جاتی ہے! اخبار میں مذکور مبینہ پلازے کیسے کھڑے کیے جاتے ہیں! ہم نگران حکومت کی خدمت میں بصد احترام و ادب تجویز پیش کرتے ہیں کہ ایک اور معروف کردار جناب احد چیمہ کو قید سے باہر نکال کر اسی سول سروس اکیڈمی میں نائب سربراہ مقرر کیا جائے تاکہ ذہن سازی کا کام بدرجہ اتم سرانجام پا سکے۔ چیمہ صاحب کی جائیداد‘ کیش اور گاڑیوں کے حوالے سے میڈیا میں وقفے وقفے سے جو اطلاعات آ رہی ہیں یہ اطلاعات زیر تربیت افسروں کو ’’مشق‘‘ کے طور پر دی جائیں تاکہ وہ ایک مکمل تصویر دیکھ سکیں! 
‎اور ہاں! سول سروس کے دیگر تربیتی اداروں میں بھی‘ جو اسلام آباد پشاور کوئٹہ اور کراچی میں واقع ہیں‘ اسی قبیل اور اسی قماش کے افسران کو تعینات کیا جائے تاکہ ذہن سازی کے اس پروگرام میں کسی قسم کا رخنہ نہ رہ جائے! 
‎روزنامہ 92نیوز کی رپورٹ کے مطابق بیورو کریسی کے کچھ ارکان نے حکومت کے نئے سربراہ کو آتے ہی گھیر لیا اور مبینہ طور پر ’’اپنے چہیتے افسران کے لیے سفارشیں کیں‘‘ نگران حکومت اس حوالے سے اگر قوم کو اعتماد میں لے تو کیا عجب قوم اس پر بھی تیار ہو جائے کہ اس معروف کردار کو سول سروس اکیڈمی کی سربراہی سے ہٹا کر ملک کا وزیر تعلیم بنایا جائے تاکہ یہ آئیڈیل شخصیت قوم کے بچے بچے کے ذہن میں مثالی اور قابل تقلید حیثیت اختیار کر لے۔ 
‎واہ رے پاکستان! تیرا بھی کیا بخت ہے! باقی صدیقی نے یہ شعر کہا اور اقبال بانو نے گا کر اسے امر کر دیا۔

‎؎
 اپنی قسمت سے ہے مفر کس کو 
تیر پر اُڑ کے بھی نشانے لگے

کرہ ارض پر سب سے زیادہ سچ بولنے والے سابق خادم اعلیٰ نے اعلان کیا ہے کہ لوڈشیڈنگ نہ ہونے کے برابر ہے! تعلیم اور صحت کے شعبوں میں انقلابی تبدیلیاں آئی ہیں۔ پنجاب میں ہیلتھ کلچر تبدیل ہو گیا ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ خادم اعلیٰ کا دروغ گوئی سے دور کا بھی واسطہ نہیں! یہ سچ ہے کہ ہیلتھ کلچر تبدیل ہو گیا ہے بالکل اسی طرح جیسے تھانہ کچہری کا کلچر تبدیل ہوگیا ہے! لوڈشیڈنگ کے خاتمے کی تو شہر شہر قصبہ قصبہ گائوں گائوں گواہی دے ہی رہا ہے! بلکہ بجلی دوسرے ملکوں کو برآمد بھی کی جا رہی ہے!رہی تعلیم کے میدان میں انقلابی تبدیلیاں! تو اس تبدیلی کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ دس سالہ دور اقتدار میں وزیر اعلیٰ نے ایک سرکاری سکول کا بھی دورہ نہیں کیا۔ ان ہزاروں سرکاری سکولوں سے وزیر اعلیٰ کا کوئی تعلق بھی نہ تھا! ان کے مقابلے میں انہوں نے دانش سکولوں کا ڈول ڈالا! اب یہ تو مستقبل کے محققین ہی دریافت کریں گے کہ سسکتے بلکتے بے حال نڈھال سرکاری سکولوں سے خادم اعلیٰ کی نفرت اور غفلت کی کیا وجہ تھی؟ کیا یہ بچپن کا کوئی احساس کمتری تھا یا کوئی اور نفسیاتی گرہ ہاتھوں کے بجائے دانتوں سے کھولنے کی ضرورت تھی! 
پاکستان کی خوش بختی کی تازہ ترین مثال تحریک انصاف کی حد درجہ ذہنی ’’پختگی‘‘ ہے! ایسے ایسے نام سامنے آ رہے ہیں کہ اگر انہیں صوبے کی حکومت سونپی جائے تو طالبان سے لے کر داعش تک سب کو کھلی چھٹی مل جائے! اس جماعت کی ذہنی پختگی کا اندازہ اس امر سے لگا لیجیے کہ چند گھنٹے پیشتر جو وفاقی کابینہ تحلیل ہوئی ہے‘ اس کے ایک سرکردہ رکن کی تحریک انصاف میں آمد آمد ہے! نااہل ہونے والے جہانگیر ترین اس پر رضا مند پائے گئے ہیں اور مبینہ طور پر پارٹی کے ملتان کے علاقائی صدر اسحاق خاکوانی نے بھی شمولیت کی تصدیق کر دی ہے! اگر یہ خبر درست ہے اور اگر ایسا ہو رہا ہے تو ذرا چشم تصور سے منظر نامہ دیکھیے‘مسلم لیگ نون کی وفاقی کابینہ سے ایک ہی جست میں تحریک انصاف کی رکنیت اور پھر ظاہر ہے ٹکٹ بھی!!گویا معاملہ صرف عاشق اعوانوں‘ نذر گوندلوں‘ ندیم چنوں ہی تک محدود نہیں ہے‘ صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے اور یہ بھی کہ جو آئے آئے کہ ہم دل کشادہ رکھتے ہیں! لگتا ہے بہت جلد مستقبل کے تابناک پاکستان کے خواب دیکھنے والے نوجوان بال کھول کر سینوں پر دوہتھڑ مار رہے ہوں گے! کالے پٹکوں سے کمر باندھ کر‘ آسمان کی طرف دیکھ کر‘ آہ و زاری اور ماتم کر رہے ہوں گے! ان نوجوانوں نے طعنے سنے‘ دھرنے دیے برگر اور ممی ڈیڈی کے القابات اپنے ماتھوں پر لگوائے۔ ان نوجوانوں نے تحریک انصاف کے باغ کو خون پسینے سے سینچا۔ بارشوں اورکڑکتی دھوپ میں ثابت قدم کھڑے رہے اور اب ان کے سامنے لکڑ ہاروں کی ایک فوج کلہاڑے کاندھوں پر لٹکائے باغ میں دندناتی پھرتی ہے!! کیا عجب خان صاحب کو وہ قوالی پسند ہو 
ع ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے! 
انتظار کیجیے ‘ گلشن کے تحفظ کے لیے ناممکن نہیں اگر سکندر بوسن صاحب کے بعد شریف برادران بھی بنی گالہ کا رُخ کرتے دکھائ

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com