چہرے پر جھریاں تھیں۔کمر جھکی ہوئی تھی۔ ہاتھوں میں رعشہ تھا۔ منہ پوپلا ہو رہا تھا۔ہاتھ میں عصا تھا۔ عصا کے سہارے کے باوجود چال میں لڑکھڑاہٹ تھی۔لباس کی حالت جسم سے بھی بد تر تھی۔چارخانے کا تہمد اصل رنگ کھو چکا تھا۔سر پر کپڑے کی دھجی لپیٹی ہوئی تھی۔ایک میلی سی صدری ‘ بوسیدہ قمیض پر شرمندہ ہو رہی تھی۔ آنکھوں پر نظر کا چشمہ تھا جو بار بار نیچے کی طرف سرک آتا تھا اور وہ اسے ہاتھوں سے پھر ناک پر جماتا تھا۔ میں اپنے گھر کے دروازے پر کھڑا اخبار والے کا انتظار کر رہا تھا۔ دائیں طرف سے لاٹھی ٹیکنے کی آواز آئی۔ اُس طرف دیکھا تو اسے اپنی طرف آتے دیکھا۔ مگر میرے گھر کے دروازے کے برابر آکر وہ رکا نہیں۔ سر جھکائے آگے چلتا گیا۔ جب ذرا آگے پہنچا تو نہ جانے میرے دل میں کیا خیال آیا ‘ میں لپک کر اس کے پاس پہنچا۔ '' بزرگو! کدھر جارہے ہو؟ آپ بہت مشکل سے چل رہے ہیں۔میرے پاس ایک پیالی چائے کی پیتے جائیے۔‘‘ اس نے عینک کے شیشوں کے اوپر سے مجھے دیکھا اور بے نیازی سے کہا '' چھوٹے بھائی! سچ یہ ہے کہ صبح سے چائے نہیں پی مگر تمہیں خواہ مخواہ زحمت ہو گی!‘‘ بہر طور میں اسے اپنی بیٹھک میں لے آیا اور گھر والوں کو چائے کا کہا۔ سرگوشی میں بیوی سے درخواست کی کہ اس نے یقینا '' صبح سے کچھ نہیں کھایا اس لیے مہربانی کر کے ایک پراٹھا بھی چائے کے ساتھ پکا دے۔‘‘�میں نے بیٹھک میں ایک پلنگ بھی بچھایا ہوا ہے۔گاؤں سے پرانے دوست آتے ہیں تو بے تکلف ہو کر اس پر بیٹھتے ہیں یا نیم دراز ہو کر آرام کرتے ہیں۔ میں نے اسے کرسی پر بیٹھنے کی پیشکش کی مگر وہ پلنگ پر بیٹھا۔ اس پر میں نے اسے کہا کہ جوتے اتار کر آرام سے پلنگ کے اوپر بیٹھ جائے۔ یوں لگتا تھا وہ دہائیوں کا تھکا ہوا ہے۔ جوتے اتارے اور آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔ اتنے میں چائے آ گئی۔ساتھ پراٹھا دیکھ کر اس نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور کھانا شروع کر دیا۔ کھانے سے فارغ ہوا تو میں نے پوچھا ''بھائی! کہاں کے ہو ؟ کہاں رہتے ہو؟ ‘‘ کہنے لگا '' اب تو کہیں کا بھی نہیں! اور رہنا کہاں ہے! بس جدھر رات آجائے پڑ رہتا ہوں! ‘‘ یہ فقرہ اس نے اتنی بے کسی اور اس قدر بے بسی کے ساتھ کہا کہ مجھے کوئی اور سوال پوچھنے کی ہمت نہ ہوئی۔�کافی دیر ہم دونوں خاموش بیٹھے رہے۔ میں نیچے فرش کو دیکھتا رہا اور وہ اپنی پرانی عینک کے خراشوں والے شیشے قمیض کے دامن کے ساتھ صاف کرتا رہا۔آخر میں نے ہمت مجتمع کی اور پوچھا کہ اس کے بیٹے بیٹیاں کہاں ہیں؟ وہ اس کی دیکھ بھال کیوں نہیں کر رہے؟ اس سوال میں پتہ نہیں برق تھی جو اس پر گری یا خنجر تھا جس کی نوک اس کے سینے میں اتر گئی یا کچھ اور تھا ‘مگر جو کچھ بھی تھا بہت اذیت ناک تھا۔پہلے تو جیسے اس پر سکتہ طاری ہو گیا۔ پھر اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔ اچانک اس کے صبر نے جواب دے دیا اور وہ بلند آواز سے رونے لگا۔ اس کی ہچکی بندھ گئی۔ میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ روئے نہیں۔ اپنا حال مجھے بتائے تا کہ اس کا دل ہلکا ہو جائے۔ کچھ دیر خموشی رہی پھر وہ بولا اور بولتا ہی گیا۔ ''مجھے اولاد کی کمی تھی نہ مال و دولت کی نہ جائداد کی ! مگر افسوس! صد افسوس! میری اولاد نافرمان تو تھی ہی‘ نالائق بھی نکلی۔ میں نے اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو سب کچھ دیا۔ باغات بھی ‘ کارخانے بھی‘ مکانات بھی! جو بھی مروجہ تعلیم تھی اس کا بھی انتظام کیا۔ مگر حالت یہ ہے کہ آج باغ ویران پڑے ہیں۔بد بختوں نے پیڑ تک کاٹ کر بیچ دیے۔ جہاں سبزہ تھا وہاں آج پتھر پڑے ہیں۔ جہاں رنگ رنگ کے خوبصورت اور خوش آواز طائر تھے وہاں کووں ‘ چیلوں ‘ چمگادڑوں اور اُلّوؤں کا بسیرا ہے۔ کارخانے بند پڑے ہیں۔ مشینری کو زنگ لگ چکا ہے۔ کبھی اتنی نیک نامی تھی کہ ارد گرد کے زمیندار اور صنعتکار مجھے اور میرے خاندان کو اپنا رہنما سمجھتے تھے۔ آج ہماری حیثیت ان کے سامنے بھکاریوں جیسی ہے۔ رہا سوال میری دیکھ بھال کا تو نالائق‘ نافرمان اولاد کو یہ بھی نہیں معلوم کہ میں کہاں ہوں اور کس حال میں ہوں۔ وہ مجھے مکمل طور پر فراموش کر چکے ہیں۔ میری کیا ضروریات ہیں؟ میں ان سے کیا چاہتا ہوں؟ اس سے انہیں کوئی غرض نہیں! کوئی نہیں جو میرے کھانے کا‘ میرے لباس کا‘ میری دواؤں کا خیال رکھے۔ میرے ساتھ کے لوگ‘ جو میرے مقابلے میں مفلس تھے آج عیش اور بہاروں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ آہ ! میرے خدا! میرے ساتھ کیا ہوا ہے! میں کتنا تنہا ہوں اور بے یار و مددگار !‘‘۔�یہ کہہ کر وہ پھر دھاڑیں مار کر رونے لگ گیا۔اب کے میں خود اتنا مغموم ہو چکا تھا کہ دلاسا دینے کی بھی ہمّت نہ ہوئی۔ وہ روتا رہا۔ میں پاس بیٹھ کر اسے دیکھتا رہا۔ آنسو اس کے رخساروں سے ہو کر اس کی سفید داڑھی میں جذب ہو رہے تھے۔ میلی قمیض کے دامن سے وہ کبھی ناک پوچھتا کبھی آنسو! میں نے پوچھا: کیا اس سارے عرصے میں تم نے اپنی اولاد کو سمجھانے کی کوشش نہیں کی؟ کیا کسی بزرگ نے ‘ محلے کے کسی بھلے مانس نے‘ کسی کھڑپینچ نے انہیں شرم نہیں دلائی؟اس نے ایک اور سرد آہ کھینچی اور کہنے لگا '' بہت کوششیں ہوئیں! مگر المیہ یہ ہوا کہ سمجھانے والے ان سے بھی گئے گزرے تھے۔ جنہیں میں بزرگ سمجھتا رہا وہ اپنا اُلّو سیدھا کرتے رہے۔جو بظاہر بھلے مانس لگتے تھے وہ ان کے لیے بُری مثال قائم کرتے رہے۔�باتیں کرتے کرتے شام ہو گئی۔ اندھیرا چھانے لگا۔اس کی داستانِ غم ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ مانتا نہیں تھا مگر منت سماجت کر کے اُس رات اسے اپنے ہاں ٹھہرا یا! صبح رخصت ہونے لگا تو شلوار قمیض کا نیا جوڑا پیش کیا۔ مگر اس نے اصرار کے باوجود قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ کہنے لگا '' تمہارے پاس ٹھہرا‘ کھانا کھایا ‘ چائے پی‘ اتنی مہمان نوازی میں کوئی حرج نہیں! مگر ابھی وہ نوبت نہیں آئی کہ لباس بھی دوسروں کا دیا ہوا پہنوں! ‘‘ جاتے وقت اس کا نام پوچھا۔ کچھ دیر خاموش رہا! پھر اداسی بھرے لہجے میں کہا '' کبھی میرا نام بڑا نام تھا۔ مگر اب کیا بتاؤں کہ کیا نام ہے! ‘‘ یہ کہہ کر وہ لاٹھی ٹیکتا چلا گیا!�میں حیران تھا اور متجسس بھی کہ اس نے نام کیوں نہیں بتایا۔ دل میں سوچنے لگا کہ کیسا عجیب شخص ہے۔ مجسّم درد! سراپا آہ و فغاں! خود دار اتنا کہ چیتھڑوں میں ملبوس ہے مگر نئی پوشاک قبول نہ کی! سارا دن اور ساری شام وہ میرے حواس پر چھایا رہا۔ میری خموشی گھر والوں کے لیے بھی پریشان کن تھی۔کئی دن گزر گئے۔ ایک دن میں قریبی مال سے سودا سلف لے کر باہر نکل رہا تھا۔سامنے بنچ پر نظر پڑی! وہ لاٹھی کو بنچ پر ٹکائے بیٹھا تھا۔ ایک اور شخص اس سے باتیں کر رہا تھا۔ میرے دیکھتے دیکھتے وہ شخص اٹھا اور مال کی طرف چلنے لگا۔ قریب سے گزرا تو میں نے اسے روک کر پوچھا ‘‘ بھائی صاحب ! یہ بزرگ جو بنچ پر بیٹھے ہیں‘ کیا آپ ان کا نام جانتے ہیں؟ ‘‘ وہ شخص آنکھوں میں درد بھر کر بولا '' ان کا نام چودہ اگست ہے‘‘۔
بشکریہ روزنامہ دنیا
No comments:
Post a Comment