Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, August 18, 2022

ایک منفرد آواز

اردو شاعری پر کٹھن وقت ہے !
اس لیے نہیں کہ  جینؤین شاعر موجود نہیں!  جینؤین شاعر موجود ہیں۔ اچھی غزل کہی جا رہی ہے۔ نظمیں بھی جاندار کہی جا رہی ہیں۔ المیہ اور ہے۔ پہلے مسئلہ یہ تھا کہ ٹیلی ویژن سرکاری تھا۔اس پر مشاعرے ہوتے تھے، چند مخصوص گروہ چھائے ہوئے تھے۔ ٹھیکیداری نظام تھا! مگر اچھی  شاعری  کو اس سے فرق نہیں پڑ رہا تھا۔ ادبی جریدوں کی گرفت مضبوط تھی۔ فنون اور اوراق  جیسے رسالے تربیت کا کام بھی کر رہے تھے اور تنقید و تصحیح  کا بھی ! مگر اب جو افتادآن پڑی ہے وہ سوشل میڈیا کی ہے۔  پیش منظر پر “ بے استادے”  شاعروں کی کھیپ  ہے ۔اب لفظ کی صحت ضروری نہیں۔ اب زبان غیر معیاری ہو تب بھی شعر کی  گاڑی چلے گی۔ اب  ضروری یہ ہے کہ لائیکس کتنے آرہے ہیں۔  اشعار شئیر کیے جا رہے ہیں یا نہیں۔ ساتھ افتاد یہ آن پڑی کہ ادبی جریدوں کا کال پڑ گیا۔  گنتی کے چند جریدے نظر آتے ہیں۔ کراچی سے  “مکالمہ”  نکل رہا ہے لاہور میں”  ادب لطیف”  نے انگڑائی لی ہے۔  حسین مجروح “ سائبان” نکال رہے ہیں۔ “تسطیر “  چھپ رہا ہے مگر سال میں ایک آدھ بار! 
{
مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ  شاعری ، یعنی اصل شاعری، نہیں ہو رہی۔ جینؤین  شاعر سوشل میڈیا سے بے نیاز ہیں۔ مشاعرے بھی ان کا مسئلہ نہیں! اور یہ جینؤین شاعر اتنی کم تعداد میں بھی نہیں! خاموشی سے  تخلیقی کام کر رہے ہیں۔ نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پرواہ! انہی میں قمر رضا شہزاد بھی ہے۔  والدین انبالہ سے چلے تو کبیر والہ آگئے۔ قمر رضا شہزاد نے کبیر والہ ہی میں آنکھ کھولی ۔ مجھے  قمر رضا شہزاد کی شاعری میں  کثیر تعداد ایسے اشعار کی ملتی ہے جو چونکاتے ہیں۔ جن میں تخلیقیت 
( originality) 
 صاف دکھائی دیتی ہے۔لازم ہے کہ یہ آواز قارئین تک پہنچے۔ قمر رضا شہزاد کے کچھ اشعار ملاحظہ کیجیے۔ ان اشعار میں محبت بھی ہے، معاشرت بھی، سیاست بھی اور پاکستان کے حالات بھی ! کجکلاہوں کا ذکر بھی ہے اور بوریا نشینوں کا بھی !! 
دعا اٹھائی ، فلک کی طرف نکل پڑا میں 
خدا سے ملنے کو جی کر رہا تھا چل پڑا میں
 کہ جیسے چھوٹے سے بچے کی روح مجھ میں تھی
ذرا سی دیر توجہ ہٹی ، مچل پڑا میں 
دعائیں اپنی جگہ آسماں سے بارش کی 
مگر یہ پیڑ محبت کے ساتھ پلتے ہیں
الاؤ جلتا ہؤا اور جمی ہوئی چوپال 
جو تم یہ چھوڑ چلے ہو تو ہم بھی چلتے ہیں 
کہا نہیں ہے کہ بازار دل ہے یہ صاحب 
یہاں تو آج بھی سکّے پرانے چلتے ہیں 
وہی ہے  ایک زمانہ کئی زمانوں سے 
یہ صرف ہم ہیں جو اپنے بدن بدلتے ہیں 
چھپا ہؤا ہوں کہیں اپنے خوف سے صاحب 
کہاں ہوں میں، مجھے میرا پتہ نہ لگ جائے
میں اس لیے بھی تجھے چومنے سے ڈرتا ہوں 
مرے لبوں کو یہی ذائقہ نہ لگ جائے 
میں کیا کروں مجھے یونہی سکون ملتا ہے 
سو دوسروں کی طرح تو بھی ہاتھ کر مرے ساتھ 
اب خود ہی سوچتا ہوں کہ کیکر کی شاخ سے 
یونہی قلم بنایا ہے، نیزہ  بناتا میں 
دل بھر گیا ہے اور مری نیت نہیں بھری 
وہ حسن دیکھ دیکھ طبیعت نہیں بھری 
گِر تو رہے ہیں لمحہ بہ لمحہ فلک سے چاند 
لیکن مرے مکاں کی ابھی چھت نہیں بھری 
ہمارا حجرۂ جاں بند ہونے والا ہے 
ہمیں کسی کی نہیں فکر کوئی کب آئے 
میرا پانی چرایا گیا میری مٹی اٹھائی گئی 
تب کہیں جا کے اک اور دنیا بنائی گئی
کئی زمانے گذر گئے اب تو دفن کیجے 
جناب کہہ تو دیا  میں کب سے مَرا ہؤا ہوں 
مجھے تو کاٹتے ہیں جسم کے درو دیوار 
خدا گواہ میں بیزار اس مکاں سے ہوں 
یہ سلطنت کئی حصوں میں بٹ بھی سکتی ہے 
یہ سوچ لینا اسے بادشہ بناتے ہوئے 
سونپا تھا جسے ان کی حفاظت کا فریضہ 
قبضے میں اسی کے ہیں محلات ہمارے 
شعر گوئی تھی میاں کوئی تجارت تو نہ تھی 
اس سے بازار میں کیا دام بنا لیتا میں 
میں سوچتا ہوں یہ تقسیم کس نے کی آخر 
وہ بادشاہ ہؤا اور میں غلام ہؤا
 میں اپنے باپ کے مرتے ہی مر گیا شہزاد 
مکاں کے ساتھ ہی میرا بھی انہدام ہؤا
مجھے ملی ہے یہ دنیا بنی بنائی ہوئی 
یقین    کیجیے  میرا کوئی گناہ نہیں 
نہ جانے کون چلاتا ہے سلطنت کا نظام
 کمال ہے کہ یہاں بادشاہ کوئی نہیں 
میرا گناہ صرف محبت ہے اور بس 
میرے لیے جزا و سزا مسئلہ نہیں 
جہاز کیسے ہؤا غرق کچھ پتہ بھی تو ہو
 مگر یہ کون بتائے  کوئی بچا بھی تو ہو 
ہر ایک شخص محبت کا نام لیتا ہے 
یہ کار خیر  کسی نے  کبھی  کیا بھی  تو ہو 

یہاں میں تخت سے ایسے اتارا جاؤں گا 
لڑائی ہونے سے پہلے ہی مارا جاؤں گا

اور اب تو آگئی رسّی تمہاری گردن میں 
پڑے گا فرق بھی کیا بے گناہ ہونے سے 

میں اتنا نرم طبیعت کہ یہ  بھی چاہتا ہوں
جو آستین میں رہتا ہے وہ بھی پل جائے
یہ پیڑ ، پھول، پرندے ، قلم، چراغ اور تیغ   
میں ان میں اپنا کوئی ترجمان ڈھونڈ لوں گا
ہمارے جیسے دوبارہ رقم نہیں ہوتے 
ہمارا  نام  ذرا سوچ  کر مٹائیے  گا 
بکھر رہے ہیں تو کیا ہے ، ہماری مٹی سے 
ہمارے  جیسا   کوئی  دوسرا  بنائیے  گا
کسی کا آپ سے کیوں مختلف عقیدہ ہو 
سو   تیغ  کھینچیے   گا اور  سر   اڑائیے  گا
یہاں غریب ہی کیوں بے گناہ مارا جائے
 کوئی   وزیر  کوئی   بادشاہ    مارا   جائے 
لہو میں ہر گھڑی پھنکارنے لگا ہے عشق 
اٹھاؤ  ہاتھ،  یہ  مارِ سیاہ  مارا  جائے 
یہ کیا کہ جنگ میں ہر بار ہو سپاہی شہید 
کبھی تو یہ بھی ہو میرِ سپاہ  مارا جائے 
دونوں ہی اپنی سمت مجھے کھینچتے رہیں 
دنیا و دیں کے بیچ یہ جھگڑا پڑا رہے 
میں چھوڑ دوں گا  حجرۂ دنیا مگر یہاں 
میری   چٹائی  میرا  پیالہ  پڑا  رہے
میں اپنے بعد بھی دنیا میں جگمگاتا رہوں 
مرے چراغ کی لو تا ابد کریں صاحب 
یہاں میں شہر محبت بسانا چاہتا ہوں 
سو آپ تھوڑی سی میری مدد کریں صاحب 
سنا ہے دشت کو مسند نشین چاہیے ہے 
مجھے بھی اس کے لیے نامزد کریں صاحب 
میں ایک بھٹکے ہوئے عشق کی لپیٹ میں ہوں 
سو مجھ پہ سورۂ یوسف کا دم کیا جائے 
ہجرت کے وقت کوئی نہیں سوچتا یہاں 
کیا چیز گھر میں  چھوڑیےکیا ساتھ لائیے 

میں وقت  آنے پہ تلوار  کھینچ سکتا ہوں 
ابھی تو شہر نے دیکھی  ہے وضعداری مری 
پلٹ کے آؤں تو شاید کوئی ملے نہ ملے 
میں جارہاہوں تو سب کو سلام کر جاؤں 
اتنا مسرور نہ ہو تو مری معزولی پر
 تیرے سر پربھی یہ دستار نہیں رہنے کی 
آپ کا ناؤ بنانے سے ہے مطلب صاحب
 کوئی جو اس کو ڈبوتا ہے ڈبونے دیجے 
……………………………………

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com