انتظار حسین رخصت ہوئے تو ایک تحریر اس طالب علم کی چھپی تھی جس کا عنوان تھا ''بابے‘‘۔ اس وقت جو بابے موجود تھے ان کا بھی ذکر کیا تھا کہ یہ قدرت کی نعمتیں ہیں جن کی ہمیں قدر کرنی چاہیے! افسوس! اس کے بعد دو اور بابے آسمانوں کی طرف جا چکے ہیں! مشتاق احمد یوسفی اور شمس الرحمن فاروقی! کیا لوگ تھے اور کیا کچھ ہمارے لیے چھوڑ گئے! اب بابوں میں ظفر اقبال ہیں‘ عطا الحق قاسمی اور مستنصر حسین تارڑ! خدا ان بابوں کا سایہ ہمارے اور اردو ادب کے سروں پر قائم رکھے! مگر ایک بابا ایسا ہے جو چھپا ہوا ہے‘ وہ اُن پہنچے ہوئے بابوں میں سے ہے جنہیں ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ شاید فرقۂ ملامتیہ سے ہے۔
بابے شعیب بن عزیز سے یاری اس وقت سے ہے جب وہ گارڈن کالج میں تعلیم کے بالکل آخری مراحل میں تھا۔ میں نیا نیا ایم اے کرنے کے بعد گارڈن کالج کے قریب ہی ایک اور کالج میں اقتصادیات کا لیکچرر تھا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد شادی سے پہلے کا زمانہ آوارہ گردی کا ہوتا ہے۔ چنانچہ دو پیریڈ پڑھانے کے بعد باقی وقت کبھی عادل ہوٹل میں اور کبھی کالج روڈ پر واقع شبنم کیفے اور زمزم کیفے میں گزرتا۔ شام ڈھلتی تو گھر کا راستہ لیتے۔ وہیں شعیب بن عزیز سے دوستی ہوئی اور ایسی کہ آج تک ترپن اے ریلوے روڈ راولپنڈی‘ صدر ذہن پر نقش ہے۔ یعنی اس سرکاری گھر کا نمبر جو اس کے والد صاحب کو ریلوے کی طرف سے ملا ہوا تھا۔ سی ایس ایس امتحان کا فارم بھرتے وقت یہ بھی لکھنا ہوتا تھا کہ سول سروس کے مختلف گروپس میں سے امیدوار کس گروپ کو کس گروپ پر ترجیح دے گا۔ جیسے فارن سروس‘ ضلعی انتظامیہ‘ آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس سروس وغیرہ۔ ریلوے سروس کا کچھ پتا نہیں تھا کہ کیسی ہے اور کس نمبر پر رکھی جانی چاہیے۔ تب تک شعیب اپنی فیملی کے ساتھ لاہور شفٹ ہو چکا تھا۔ چنانچہ اسے خط لکھا کہ والد صاحب سے رائے لے کر اس بارے میں مطلع کرے۔ یہ خط آج‘ پچاس بلکہ باون برس بعد بھی شعیب کے پاس محفوظ ہے! غالباً یہ سرخ روشنائی سے لکھا تھا!
شعیب کے مزاج کے کچھ پہلوؤں اور Idiosyncrasies کا بیان کرنا ضروری ہے۔ یہ درست ہے کہ اس کا یہ شعر ضرب المثل بن چکا ہے :
اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
یا یہ کہ
مرے لاہور پر بھی اک نظر ہو
ترا مکہ رہے آباد مولا!
مگر سچ یہ ہے کہ بے پناہ شاعر ہونے کے باوجود شاعری کے معاملے میں وہ کبھی سنجیدہ نہیں رہا۔ اس نے کبھی اتنی تکلیف بھی نہیں کی کہ اپنی شاعری ادبی جرائد کو بھیجتا۔ حد یہ ہے کہ آج تک شعری تخلیقات مرتب ہی نہیں کیں! مجموعہ چھپوانا تو بعد کا مرحلہ ہے۔ عین ممکن ہے کہ موصوف کی بہت سی غزلیں محفوظ ہی نہ ہوں۔ رہی تفہیمِ شعر تو وہ اس پر ختم ہے! شعر اچھا ہے یا خراب‘ چست ہے یا ڈھلمل‘ رکھے جانے کے قابل ہے یا تلف کر دینا چاہیے‘ اسے پڑھ کر یا سن کر‘ کس شاعر کا کون سا شعر یاد آتا ہے‘ اس کے بارے میں اس کی رائے اور اس کا مشورہ حرفِ آخر ہوتا ہے! اس معاملے میں وہ اصل اور وڈا بابا ہے۔ مگر اس حوالے سے بھی وہ سنجیدہ کبھی نہیں رہا ورنہ اس کے شاگرد سودا اور داغ کے شاگردوں سے تعداد میں کم نہ ہوتے! شعر میں لفظ اور ایک ہی لفظ‘ تبدیل کرے گا اور شعر کو کہاں سے کہاں پہنچا دے گا۔ ایک بار اسے شعر سنایا :
کتاب اور شمشیر، زین اور عصا
یہی کچھ ہمارے مکانوں میں تھا
اُس نے ایک ثانیے کی تاخیر کے بغیر کہا: بہت کچھ ہمارے مکانوں میں تھا۔ اسے غزل سنا کر ہمیشہ فائدہ ہی ہوا ہے۔ فارسی اور اردو کے لاتعداد اشعار اسے یاد ہیں۔ اک ذرا چھیڑیے پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے۔
دسترخوان اس کا وسیع ہے۔ اس حوالے سے اس کا شیخ ہونا کسی کام نہ آیا۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ اس کا کوئی دوست اس کے ہاں قیام پذیر نہ ہو۔ احباب کو جمع کرنا اور انہیں کھانا کھلانا جیسے اس کا مشغلہ ہے۔ اس کے لیے اسے بس بہانہ چاہیے۔ فلاں آیا ہوا ہے‘ فلاں کی سالگرہ ہے‘ کبھی گھر پر کبھی کلب میں‘ میزبانی اسے آسودہ رکھتی ہے! یہی وجہ ہے کہ کاتبِ تقدیر نے ہمیشہ اس کے رزق میں اضافہ ہی لکھا ہے۔ یہ سب کچھ تو ہے مگر اس کی حاضر جوابی اور فقرے کو کمان میں رکھ کر‘ کمان کھینچ کر‘ نشانے پر فقرہ پھینکنا! اللہ اللہ! قسمت اسی کی اچھی ہے جو خود اس کا نشانہ نہیں بنتا‘ ہاں! کسی اور کو نشانہ بنتے دیکھتا ہے! میرے بارے میں تو اس کا یہ فقرہ اب خاصا مشہور ہو چکا ہے کہ اتنی واجبی ذہانت کے ساتھ اتنی بڑی شاعری! ایک بار خاندان کے ایک بزرگ نے کہا کہ گرمی اس قدر شدید ہے کہ اللہ کو یاد کر رہا ہوں۔ شعیب پاس تھا۔ کہنے لگا: دیکھیے گا کہیں اللہ نہ آپ کو یاد کر لے!
شعیب بن عزیز اعلیٰ اور امتیازی مناصب پر فائز رہا۔ پنجاب پبلک ریلیشنز کا سربراہ تو تھا ہی‘ کئی صوبائی محکموں کا سیکرٹری بھی رہا۔ وزیراعلیٰ پرویز الٰہی تھے یا میاں شہباز شریف‘ پریس ایڈوائزر شعیب ہی رہا اس لیے کہ اُس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا۔ شعیب ضرورت مند نہ تھا بلکہ ضرورت تھا۔ واجپائی صاحب کا استقبال کرنے جب اُس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف واہگہ گئے تو جو چند افراد ان کے ہمراہ تھے‘ ان میں شعیب بھی تھا۔ اس بلند منصبی کے باوجود دو کام اس سے سرزد کبھی نہ ہو سکے۔ اول یہ کہ حکمرانوں کا دستِ راست ہونے کے باوجود وہ پرانے دوستوں سے دور نہ ہوا۔ منصب اس کے دماغ تک کبھی نہ پہنچ سکا۔ وہ شعیب ہی رہا۔ مصاحب بنا مگر اِترا نہ سکا۔ ورنہ یہاں تو بڑے بڑوں کی اصلیت کھل جاتی ہے۔ ایک صاحب ہمارے ساتھ ڈھاکہ یونیورسٹی میں پڑھتے تھے۔ واپس آئے تو مقابلے کا امتحان دے کر سول سروس کے برہمن گروپ میں آگئے۔ صوبائی سیکرٹری بنے تو مبارک کا خط لکھا۔ خاطر میں نہ لائے۔ الحمرا میں غالباً کوئی تصویری نمائش تھی۔ میں بھی گھوم پھر رہا تھا۔ وہی صاحب اہلکاروں کے ساتھ نمودار ہوئے۔ سلام کیا تو پہچاننے سے انکاری تھے۔ یہ ظرف اور خاندانی پس منظر ہے جو بڑا یا چھوٹا کرتا ہے۔ شعیب کو کوئی بڑا منصب‘ چھوٹا نہ کر سکا۔ وہ وہی شعیب رہا جو منصب کے بغیر تھا۔ دوم یہ کہ شاہوں کی قربت کے باوجود اس نے خلعت لی نہ ہاتھی نہ گھوڑا۔ مجھ جیسے دوستوں نے کئی بار مشورہ دیا کہ کسی بڑی کارپوریشن کے ہیڈ بن کر پریس ایڈوائزری کی مشقت سے نکل جاؤ مگر جہاں دوسرے افسر قسم قسم کے بڑے بڑے فوائد اٹھا رہے تھے‘ اس نے استغنا برتا۔ یہی وجہ ہے کہ اب سکون سے سوتا ہے۔ سکون! جو ان اونچے مناصب پر رہنے کے بعد لوگوں کو کم ہی ملتا ہے! بہت سوں کو تو بعد میں تاوان دینا پڑتا ہے۔ یہ کیا کم تاوان ہے کہ پرانے دوستوں کو کھو چکے ہوتے ہیں! شعیب کو حالِ مست دیکھتا ہوں تو طارق نعیم کا یہ شعر یاد آجاتا ہے:
یوں ہی تو کُنجِ قناعت میں نہیں آیا ہوں
خسروی، شاہ جہانی مری دیکھی ہوئی ہے!
بشکریہ روزنامہ دنیا
No comments:
Post a Comment