اپنے اپنے تیمور
ایئر پورٹ سے واپسی پر سب سے پہلے نظر اُس بڑے سے شاپنگ بیگ پر پڑی جس میں وہ اپنا ''سامان‘‘ ٹھونستا رہا تھا۔
اپنے خیال میں وہ اپنی پیکنگ کر رہا تھا۔ کانپتے ہاتھوں سے شاپنگ بیگ کو پکڑا۔ اندر جھانکا۔ کھلونے، ریموٹ کنٹرول۔ رنگین پنسلیں،ہائی لائٹر، خالی ڈبّے، بیٹریوں کے سیل، پرفیوم کی ایک خالی شیشی، مختلف قسم کی چابیاں! یہ تھا سامان اُس چھ سالہ مسافر کا! چھ سالہ تارکِ وطن کا! وہ مصر تھا کہ اسے ساتھ لے کر جائے گا‘ مگر بچوں کی سنتا کون ہے؟ دادا، دادی نے سب سے پہلے اٹیچیکیس میں اس کا سامان رکھنا تھا مگر یہ تو ماں باپ تھے! ماں نے کڑے لہجے میں فیصلہ سنایا کہ اس کاٹھ کباڑ کی گنجائش نہیںہے! کاٹھ کباڑ؟؟؟؎
محبت ہے اور اک دیوان ہے اور ایک چھاگل
یہ سامانِ سفر ہے، مرو سے رَے جا رہے ہیں
شاپنگ بیگ اٹھایا، نہ معلوم آنسو کہاں سے آ گئے! احتیاط سے، کمال احتیاط سے، کپڑوں والی الماری میں رکھا۔ جب بھی جانا ہوا، لےکر جائوں گا اور امانت اس کے مالک کے سپرد کروں گا!
ایک ماہ اس کا قیام رہا!؎
یوں گزرا وہ ایک مہینہ
جیسے ایک ہی پَل گزرا تھا
جیسے ہر روز روزِ عید تھا، ہر شب شبِ برات! ناشتہ کرنے کے بعد ہم اکثر اُس تین منزلہ پارک میں چلے جاتے جو گھر کے قریب تھا اوراس کی پسندیدہ جگہوں میں سے ایک! پہلے ہم نیچے پورا چکر لگاتے۔ یہاں پرندے تھے اور کچھ جانور! پھر گھاس کی روشوں پر چہلقدمی کرتے۔ واک کا اسے اتنا ہی شوق ہے جتنا ایک بڑی عمر کے سنجیدہ شخص کو ہو سکتا ہے! فوارے چل رہے ہوتے تو ان کا نظارہکرتے! پھر وہ بھاگتے بھاگتے، آگے آگے، سیڑھیاں چڑھتا اور اوپر کی منزل پر جا پہنچتا۔ پیچھے پیچھے میں! اس کی رفتار کا ساتھدینے کی کوشش کرتا ہوا۔ اوپر کی دونوں منزلوں پر مصنوعی گھاس لگی ہوئی ہے۔ اِدھر اُدھر کوئی کوڑا کرکٹ نظر آتا تو کمنٹ ضروردیتا... ''یہ کتنے گندے لوگ ہیں جو کوڑا ڈسٹ بِن میں نہیں ڈالتے‘‘۔ شام کو اکثر ڈیفنس کلب یا اسلام آباد کلب کا چکر لگتا۔ کچھ وقتوہ ان ڈور کھیلوں والے کمرے میں گزارتا۔ پھر ہم کچھ کھاتے پیتے! جن دنوں اس کے کزن بھی آئے ہوئے ہوتے، خوب ہنگامہ رہتا!؎
پوتوں، نواسیوں کے چمن زار! واہ واہ!
اولاد پر بہشت کے میوے لگے ہوئے
دن کا کچھ وقت وہ گھر کی اوپر کی منزل پر ضرور گزارتا۔ وہاں کوئی نہ ہوتا سوائے اُس کے، نہ معلوم کیا کرتا رہتا۔ گمان غالب یہ ہےکہ اپنا ''سامان‘‘ تھیلوں اور شاپنگ بیگوں میں پیک کرتا رہتا۔
اصل مزا رات کو آتا۔ اوّل تو سونے کو اُس کا دل نہ کرتا۔ کوشش اس کی یہی ہوتی کہ جتنا وقت کھیل کود میں، مٹر گشت میں،ترپوسیاں لگاتے گزر جائے، اتنا ہی اچھا ہے! ماں یا باپ دانت صاف کرنے، کپڑے بدلنے اور سونے کا کہتے تو ہر ممکن حد تک اِنکارہائے گراں کو ٹالنے کی کوشش کرتا۔ پھر میں اسے یاد دلاتا کہ سونے سے پہلے کہانی بھی سننی ہے! بستر پر آ کر، پہلے ایک بارگلے لگتا، پھر کہتا: کہانی سنائیں! ہمارے بہت سے خیالی کردار ہیں! ٹِکلُو، پنٹو (Pinto) پنٹو کا کزن ٹونکا، کِٹ کِٹ، کئی بار سوچا کہان سخت دلچسپ Spell binding قسم کی کہانیوں کو ضبطِ تحریر میں لا کر شائع کر دیا جائے تاکہ دوسروں کے پوتے، نواسے بھیمحظوظ ہو سکیں مگر اے بسا آرزو! کہ خاک شدہ! کارہائے بے مصرف کا ہجوم! کاہلی کی آہنی گرفت اور مزاج میں شہنشاہ ہمایوںجیسا تلوّن!! زیرِ تصنیف خود نوشت بھی انہی مسائل کا شکار ہے!
اکثر و بیشتر وہ پِنٹو کی کہانیوں کی فرمائش کرتا۔ پنٹو ہمارے کرداروں میں سب سے زیادہ شریر اور ناقابلِ اعتبار ہے! بہت ماہ پہلے،آسٹریلیا میں اسے کہانی سنائی جس میں پنٹو اپنی بائیسکل پر میلبورن سے پاکستان روانہ ہوتا ہے۔ آسٹریلیا سے بحری جہاز کےذریعے انڈونیشیا پہنچتا ہے، پھر ملائیشیا۔ تھائی لینڈ پہنچ کر وہ مصیبت میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ سائیکل چوری ہو جاتی ہے۔ اس کےبعد کا سفر جان جوکھوں کا ہے۔ کئی ماہ کے بعد اس نے کہانی لفظ بہ لفظ سنا دی۔ حافظہ کمال کا ہے۔ جو کہانی رات کو سنتا ہے،دوسرے دن، تمام جزئیات کے ساتھ ماں کو سناتا ہے! ہمارے دوست جناب ہارون الرشید ناموں کے حوالے سے بہت حساس ہیں۔ اس کانام تیمور سنا تو کہا: تیمور نے کون سے اچھے کام کیے تھے! خیر! کچھ اچھے بھی یقینا کیے ہوں گے! کم از کم حافظ شیرازی کو توکوئی سزا نہیں دی! اُس کا شعر جب سنا ؎
اگر آن ترک شیرازی بدستِ آرد دلِ ما را
بخالِ ہندواش بخشم سمرقند و بخارا را
تیمور کو شکوہ تھا اور غصّہ کہ دنیا بھر سے کاری گر، نقاش، معمار، آہن گر اور شیشہ ساز اکٹھے کر کے اس نے سمر قند اور بخاراکو بہترین شہروں کی صورت بخشی اور یہ تہی دست، بے مایہ شاعر ایک تِل کے بدلے اپنے محبوب کو دے رہا ہے! مگر جب حافظؔ نےبتایا کہ اپنی غلط بخشیوں نے تو اسے اس حال تک پہنچایا ہے تو تیمور حاضر جوابی سے محظوظ ہوا!
کم از کم تیمور کا حافظہ میرے تیمور جتنا حیران کُن ضرور ہو گا۔ ہو سکتا ہے اِس سے کچھ کم ہی ہو!! ناموں کے حوالے سے اس کالمنگار کے نزدیک دو صفات ہی ضروری ہیں! صوتی تاثّر خوشگوار ہو اور مشکل نہ ہو۔ سننے والا یہ نہ پوچھے کہ کیا کہا؟
میرے پاس سونے میں اور سونے سے پہلے کہانی سننے میں تعطّل اُس وقت آیا جب لاہور سے اس کی ماہ وش پھپھو آ گئی جسے اسکے بھتیجے بھتیجیاں ماش پھپھو کہتی ہیں۔ ماش پھپھو کا نقصان مجھے یہ ہوتا ہے کہ جان چھڑکنے والی پھپھو بچوں کو عجیب غیرمرئی گرفت میں لے لیتی ہے! جس دن وہ پہنچی ہے، اُس دن، رات کو تیمور سے کہا کہ چلیں کہانی سُن کر سوئیں تو آنکھیں جیسےماتھے پر رکھ لیں۔ جا کر بازو، پھپھو کی گردن میں حمائل کر دیئے اور کہا: میں نے آپ کے پاس سونا ہے!
روانگی سے پہلے، قیام کے آخری ایام میں اس پر بھی میری طرح ایک خاص کیفیت طاری ہوتی ہے۔ کبھی کہتا‘ میں یہیں رہنا چاہتاہوں۔ کبھی کہتا‘ آپ کو بہت مِس کروں گا! ایئر پورٹ کے ریستوران میں بیٹھے تھے کہ آیا اور کہنے لگا‘ مجھے واک کرائیں۔ ہم نے ایئرپورٹ کے برآمدوں، چائے خانوں اور لائونجوں میں واک کی! جاتے وقت گلے ملا اور کہا: آپ نے جلدی آنا ہے! یوں جیسے چھ ساڑھے چھبرس کا نہیں، اپنی عمر سے بہت آگے ہے!!
ایک زمانہ بحری جہاز فراق کا استعارہ تھے۔ عاشق سفر پر نکلتے تو کہتے؎
سمندروں کے سفر پر نکل رہا ہے کوئی
نہ دیکھنا دمِ رخصت پُر آب آنکھوں سے
پھر کفّار نے ریل ایجاد کی۔ مدتوں ریل جدائی کی علامت رہی؎
وہ رینگنے لگی گاڑی وہ ہاتھ ہلنے لگے
وہ رنگ رنگ کے آنکھوں میں پھول کھِلنے لگے
عالمی جنگوں میں برِّصغیر کی مائوں کے بچے ٹرینوں میں بھر بھر کر دساور لڑنے کے لیے بھیجے گئے۔ مگر قیامت تو ہوائی جہاز نےبرپا کی! اب عشاق نہیں، معشوق رخصت ہونے لگے؎
جہازاں تے چڑھ گئے او
مار کے باریاں
اَنّھے ہنیرے کر گئے او
یہ ایک تیمور، ایک حمزہ اور ایک اظہارالحق کی کہانی نہیں! یہ ہر گھر کی کہانی ہے! ہر دادا کا تیمور، ہر نانا کا حمزہ سمندر پارہے! کانپتے رعشہ زدہ ہاتھ، جھکی کمریں، کمزور بصارتیں، بے رحم ایئر پورٹوں پر اپنے اپنے تیمور، اپنے اپنے حمزہ، اپنی اپنی زہرا کورخصت کرتی ہیں! آنسو چھلک چھلک آتے ہیں۔ بوجھل تھکے تھکے قدموں سے بابے گھروں کو پلٹتے ہیں۔
کوئی آنسو رخساروں پر بہاتا ہے اور کوئی اندر دل کے رخساروں پر... کہنے کو کرۂ ارض، دوسرے سیاروں کی نسبت چھوٹا ہے مگر اُنسے پوچھو جن کے پارہ ہائے جگر دُوریوں کی زد میں ہیں؎
بیٹے اِسی زمین پہ رہتے رہے مگر
حائل ہمارے بیچ سمندر بہت رہا
ہم سے وعدہ کیا گیا تھا کہ دوسرے ملکوں سے لوگ ملازمتیں ڈھونڈنے ہمارے ہاں آیا کریں گے! بلا سے دوسرے نہ آئیں، ہمارے اپنےجگر کے ٹکڑے تو واپس آ جائیں، مگر کیسے واپس آئیں۔ میرٹ اب بھی عنقا ہے! سفارش اب بھی راج کر رہی ہے! اقربا پروری اب بھیاہل کو ملک سے باہر جانے پر مجبور کر رہی ہے تا کہ نااہل کی چاندی ہو جائے! کبھی ڈاکٹروں کو پیٹا جاتا ہے کبھی پروفیسروں کو! سائنسدان کی اتنی بھی عزت نہیں جتنی پٹواری کی ہے یا ایس ایچ او کی یا سیکشن افسر کی! ایشین ٹائیگر نہ بنیں ایشین خرگوشیا ایشین بلّی ہی بن جاتے۔ ایسا ماحول ہوتا، ایسے حالات ہوتے کہ باہر گئے ہوئوں (Brain drain) کی واپسی ہو جاتی! تب تکایئرپورٹوں سے آنسو بہاتے، واپس آتے رہیے! اور آ کر اپنے اپنے تیمور کے کھلونے جمع کرکے، سنبھال کر رکھتے رہیے؎
نشاں کہیں بھی نہ تھے اُس کی انگلیوں کے مگر
میں گھر کی دیکھ کے ایک ایک چیز رویا تھا
No comments:
Post a Comment