Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, August 02, 2022

نظر نہ آنے والی کمزوری جو نقصان پہنچا رہی ہے


قصبے کے تحصیل آفس میں کام آن پڑا۔ ایک برخوردار‘ جو وہیں رہتا تھا‘ اس کے ذمے کام لگایا۔ فرض کیجیے کہ بر خوردار کا نام حمید تھا۔ ہفتہ گزر گیا۔ دو ہفتے گزر گئے۔ فون کیا تو اس کا فون بند ملا۔ مہینہ گزر گیا تو مجبوراً اے سی صاحب کو کہنا پڑا جو میں نہیں چاہتا تھا۔ اے سی کے سٹاف نے بتایا کہ فلاں صاحب آپ کے کام کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔ ہر روز چکر لگاتے ہیں۔ مگر پہلے متعلقہ پٹواری چھٹی پر تھا۔ پٹواری واپس آیا تو تحصیلدار صاحب چھٹی پر چلے گئے۔ خیر‘ اے سی صاحب نے حکم دیا تو سارا کام دو دن میں ہو گیا۔ تین چار دن کے بعد حمید کا فون آیا۔ وہ سخت ناراض تھا اور شکوہ یہ کر رہا تھا کہ وہ اتنی شدید کوشش کر رہا تھا میرے کام کے لیے اور میں نے اسے بتائے بغیر اُوپر سے کام کرا لیا۔ میں نے اسے بتایا کہ میں بالکل اندھیرے میں تھا۔ مہینہ گزر گیا تھا مگر اس نے کوئی رابطہ نہیں کیا تھا۔ فون بھی اس کا بند تھا۔ میں کیا کرتا! مجھے کس طرح معلوم ہوتا کہ حمید کوشش کر رہا ہے؟ تاہم حمید کے خیال میں اس کی کوئی غلطی نہیں تھی۔ اس کا ایک ہی جواب تھا ''کام ہو ہی نہیں رہا تھا تو رابطہ کیا کرتا اور کیا کہتا؟‘‘۔
یہ صرف ایک واقعہ ہے! ہمارے کلچر میں ہر روز یہی ہوتا ہے۔ ہم ایک دوسرے سے رابطہ نہیں کرتے۔ Communicateنہیں کرتے۔ ہمیں اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ کوئی انتظار کر رہا ہے۔ اسے صورتحال سے آگاہ کرنا چاہیے۔ اگر حمید فون کر کے آگاہ کرتا رہتا تو میں بھی اطمینان سے انتظار کرتا رہتا۔ آپ کسی کا انتظار کر رہے ہیں۔ وہ گھر سے نکلا مگر ٹریفک جام میں پھنس گیا۔ یا روٹ لگا ہوا تھا۔ یا کوئی اور رکاوٹ پیش آگئی اور وہ نہیں پہنچ پا رہا۔ مگر اس میں اتنی عقل نہیں کہ آپ کو فون کر کے اطلاع دے دے۔ شاید ہمارے ہاں تربیت کی کمی ہے یاCommunicate نہ کرنا ہماری ثقافت کا حصہ ہے۔ گھر والے نہیں بتائیں گے کہ کوئی ضروری فون آیا تھا یا فلاں شخص ملنے آیا تھا۔ پھر جب وہ شخص آپ سے شکوہ کرتا ہے اور آپ گھر والوں سے پوچھتے ہیں تو گھر والے بڑے آرام سے کہہ دیں گے کہ ہاں! فون آیا تھا یا فلاں شخص آیا تھا مگر بتانا یاد نہیں رہا۔ دفتر میں بھی یہی ہوتا ہے۔ آپ کا ماتحت یا رفیقِ کار نہیں بتائے گا کہ کوئی پیغام تھا یا کوئی ملاقاتی تھا! ہمارے معاشرے میں ایک غیراعلانیہ قانون یہ بھی ہے کہ جس کا کام ہے وہی پتا کرے۔ دوسرے کو پروا نہیں۔ ڈاکٹر کے پاس وقت طے ہے۔ اگر وہ کلینک میں نہیں ہے تو مریض کو کبھی مطلع نہیں کرے گا۔ مریض مقررہ وقت پر آئے اور معلوم کر لے کہ ڈاکٹر موجود نہیں! ہماری ایئر لائنیں مسافروں کو فون یا ای میل کرکے کبھی نہیں اطلاع دیتیں کہ پرواز میں تاخیر ہے۔ اس قسم کے فضول کام غیرملکی ایئر لائنیں ہی کرتی ہیں! باہم رابطہ کرنے کا رواج فرد میں ہے نہ اداروں میں! حکومتی شعبوں میں بھی کم ہی ہے!
بنیادی آداب اور اخلاق کی‘ شاید‘ بطورِ قوم‘ ہم میں کمی ہے۔ ہم اپنے آپ میں گْم ہیں۔ فائدہ دیکھنا ہے تو اپنا! نفع ہو تو صرف ہمیں ہو! نقصان سے صرف ہم بچیں! یہ طرزِ فکر دروغ گوئی کا باعث بنتا ہے! یوں پورا معاشرہ خود غرضی کی تصویر بنا ہوا ہے۔ کسی کا کسی پر اعتماد نہیں! سپلائر وعدہ کرتا ہے کہ مال کل پہنچا دے گا۔ وعدہ کرتے وقت اسے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایسا نہیں کرے گا۔ جس سے وعدہ کر رہا ہے وہ بھی جانتا ہے کہ مال کل نہیں پہنچے گا۔ یہی منافقت ہے جو ہمارے معاشرے کو گھن کی طرح کھا رہی ہے۔ اس کا بدترین نقصان یہ ہوا ہے کہ ہم نے جھوٹ کو جھوٹ سمجھنا چھوڑ دیا ہے۔ معاشرے نے یہ بات قبول کر لی ہے کہ جھوٹ بولنے میں کوئی حرج نہیں! وعدہ خلافی کو کوئی برا نہیں سمجھتا۔ جو کام ایک دن میں ہو سکتا ہے‘ ایک ہفتے میں ہوتا ہے۔ مال دوسرے دن نہیں پہنچتا۔ چار دن بعد یا سات دن بعد پہنچتا ہے۔ اس کے ساتھ وابستہ ساری سرگرمیاں رُک جاتی ہیں۔ یہ وعدہ خلافی‘ یہ جھوٹ‘ یہ رویّہ معیشت کو بھی نقصان پہنچاتا ہے اور معاشرت کو بھی!
اس ماحول میں جو شخص جھوٹ یا وعدہ خلافی کی نشاندہی کرتا ہے‘ اس کا شکوہ کرتا ہے اور اس کی مذمت کرتا ہے‘ معاشرہ اسے عجیب نظروں سے دیکھتا ہے۔ لوگ تعجب کرتے ہیں کہ یہ کیسا شخص ہے جو وعدہ پورا کرنے کی بات کرتا ہے اور کہتا ہے کہ سچ بولو! ایسا شخص نکّو سمجھا جاتا ہے! عملی طور پر ہمارا معاشرہ مان چکا ہے کہ سچ اور وعدہ وفائی کتابی باتیں ہیں! ان کا اصل زندگی سے کوئی تعلق نہیں! کسی سے کہیں کہ تم نے تو وعدہ کیا تھا! وہ جواز پیش کرے گا کہ نہیں! میں نے وعدہ نہیں کیا تھا‘ میں نے تو بس بات کی تھی! اب اس جواز کے سامنے آپ کیا کریں گے! ہر روز پڑھتے اور سنتے ہیں کہ جو وعدہ پورا نہیں کرتا اس کا ایمان نہیں‘ اور ہر روز وعدہ توڑتے ہیں! ہمارے گھر میں بڑھئی (کارپینٹر) کام کر رہا تھا۔ بہت اچھا آدمی! نماز روزے کا پابند! با ریش! میں پاس کھڑا تھا اور وہ کسی کو فون پر بتا رہا تھا کہ میں راستے میں ہوں‘ موٹر سائیکل خراب ہو گیا ہے۔ ٹھیک کرا رہا ہوں‘ بس پہنچتا ہوں۔ اسے کہا کہ جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت تھی۔ اتنا ہی کہہ دیتے کہ کہیں کام میں پھنسا ہوں! فارغ ہو کر آرہا ہوں! یہ سن کر اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا! اس کے چہرے پر حیرت تھی جو زبانِ حال سے کہہ رہی تھی کہ یہ تو میں نے کبھی سوچا ہی نہیں اور یہ کہ یہ تو روزمرہ کا معمول ہے!
بات ارتباط نہ ہونے کی ہو رہی تھی۔ یعنی ہم لوگ Communicative نہیں ہیں! اس سے کتنے نقصان ہوتے ہیں‘ اس کا ہم اندازہ ہی نہیں کر سکتے! جسے جو بات بتانی ہے‘ وہ اس کے لیے ازحد قیمتی بھی ہو سکتی ہے! بتانے سے کسی کی جان بھی بچ سکتی ہے! کسی کا مالی یا سماجی نقصان بھی رُک سکتا ہے! رابطہ نہ کرنے سے غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں! آپ میرا کام کرانے کے لیے کوشش کر رہے ہیں مگر مجھے اپنی کوشش کی تفصیل سے آگاہ نہیں کرتے۔ میں تو یہی سمجھوں گا کہ آپ کچھ نہیں کر رہے! بات کرنے سے سو مسئلے حل ہوتے ہیں اور نہ کرنے سے سو مسئلے جنم لیتے ہیں۔ بقول منیر نیازی :
ضروری بات کہنی ہو‘ کوئی وعدہ نبھانا ہو
اسے آواز دینی ہو‘ اسے واپس بلانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
مدد کرنی ہو اس کی‘ یار کی ڈھارس بندھانا ہو
بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو
بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو
کسی کو یاد رکھنا ہو‘ کسی کو بھول جانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو
حقیقت اور تھی کچھ اس کو جا کے یہ بتانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں

بشکریہ روزنامہ دنیا

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com