اصل افتاد جو اس قوم پر پڑی ہے‘ اور ہے!
معیشت کا گراف نیچے جا رہا ہے۔ حالات بہتر ہوئے تو پھر اوپر چلا جائے گا۔ خارجہ امور اطمینان بخش نہیں۔کوئی جاندار لیڈر شپ آئی تو اس کے حالات بھی بدل جائیں گے۔عساکر کو جدید اسلحہ درکار ہے۔ اس کا بھی بند و بست ہو جائے گا۔ خواندگی کی شرح کم ہے۔ منصوبہ بندی صحیح ہوئی تو یہ بھی زیادہ ہو جائے گی۔ بیروزگاری زیادہ ہے۔ اقتصادی سرگرمیوں نے زور پکڑا تو نوکریوں کی تعداد بھی بڑھے گی۔ روپیہ نیچے جا رہا ہے۔ مارکیٹ کا رجحان صحت مند ہوا تو زرمبادلہ کی شرح بھی تندرست ہوجائے گی !سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا مگر جو ابتذال‘ جو ناشائستگی‘جو اوچھاپن اور جو گنوار پن ذہنوں میں بھر دیا گیا ہے اور جو ذہنوں سے زبانوں پر آرہا ہے‘ وہ نسلوں تک ختم نہیں ہو گا۔
طرفہ تماشا یہ ہوا کہ گنوارپن کا الزام اہلِ دیہہ پر لگایا جاتا تھا۔ گاؤں کے لوگوں کو ایسے ناموں سے پکارا جاتا تھا جو با عزت نہیں تھے۔ نکٹائی اور سگار والے گردن بلند‘ ان پڑھوں کو کندھے اچک اچک کرRiffraffکہتے تھے۔ مگر اب پڑھے لکھوں اور ان کے بیٹوں اور بیٹیوں نے جو طرزِ گفتگو اپنا لی ہے الحمد للہ گاؤں کے لوگ اس سے کوسوں دور ہیں۔ اب تو برگر فیملیوں کے بچوں کا تکیہ کلام چور اور ڈاکو ہے۔ تہمد پوش نہیں‘ جینز پہننے والے بد زبانی اور بد دہانی میں طاق ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر سفلہ پن سکھانے والے سکول کھولے گئے۔ بد ترین بد اخلاقی دوسروں کو برے ناموں سے پکارنا ہے۔
اس کی باقاعدہ تربیت دی گئی۔جس معاشرے میں نام نہاد لیڈر دوسروں کو'' گول مول گونگلو‘‘ جیسے ناموں سے پکارے اور یہ کہے کہ ڈاکو دانت نکال رہے ہیں‘ اس معاشرے میں شرافت کا کیا کام !جہاں رائے سے اختلاف کرنے والے ہر مرد اور عورت کو غدار کہا جائے اور حب الوطنی کی سند کا تقسیم کنندہ صرف ایک شخص ہو وہاں دشمن کی کیا ضرورت ! اب تو چلن یہ عام کیا گیا ہے کہ جو آپ کے لیڈر سے اختلاف کرے اسے گالی دیجیے۔ جس سے بحث کر رہے ہوں اسے چور یا ڈاکو کہہ دیجیے۔ کسی کو چور یا ڈاکو کہنے کے لیے کسی عدالت کسی جج کسی قاضی کسی منصف کی ضرورت نہیں۔ یہ فیصلہ آپ کے پسندیدہ لیڈر نے کرنا ہے کہ کون چور ہے اور کون ڈاکو ہے! اور آپ نے اسے کسی چون و چرا کے بغیر ماننا ہے۔ تکفیر کا شغل تو تھا ہی‘ کہ جو آپ کے عقیدے کی پیروی نہ کرے اسے گھسیٹ کر دائرہ اسلام سے باہر نکال دیجیے۔اب بات بات پر غداری کا لیبل بھی لگایا جا رہا ہے۔
سوشل میڈیا کو توپوں اور بمبار جہازوں کے طور پر استعمال کیا گیا اور کیا جا رہا ہے۔ ہیلی کاپٹر کے دردناک حادثے پر جب پوری قوم غم میں ڈوبی ہوئی تھی تو دوسروں کو غدار کہنے والے‘ شہیدوں کی میتوں پر بھنگڑے ڈال رہے تھے۔ جس شر انگیزی کا مظاہرہ کیا گیا اس کی مثال دشمن کے کیمپ میں بھی مشکل سے ملے گی۔ موت پر تو دشمن بھی حیا کرتے ہیں اور افسوس کا پیغام بھیجتے ہیں۔ یہ فوج کے شہید ہیں جن کے مقدس لہو نے ملک کو دشمن کی یلغار سے بچایا ہوا ہے۔ جس آرام سے یہ سنگدل لوگ‘ شرمناک ٹوئٹ تیروں کی طرح برسا رہے تھے‘ وہ آرام انہی شہیدوں کے خون کا ثمر ہے۔ سیاچین کی مہلک چوٹیوں سے لے کر ناقابلِ اعتماد افغان بارڈر تک یہ پاک فوج کے جوان اور افسر ہی ہیں جو رات دن پہرہ دے کر اہلِ وطن کی حفاظت کر رہے ہیں۔
یہ بھی عجیب کام ہوا کہ بڑے صاحب ایک شہید کے گھر تعزیت کے لیے پہنچے۔ یہ تاریخ میں غالباً پہلی بار ہوا۔ کیونکہ جنازے میں شامل ہونا‘ یا تعزیت کے لیے کسی کے ہاں جانا بڑے صاحب کے شایانِ شان کبھی بھی نہیں رہا۔ وفاقی دارالحکومت میں جب ایک بے گناہ نوجوان‘ اسامہ ستی‘ کو پولیس کے سپاہیوں نے گولیوں سے بھون دیا تھا تو بڑے صاحب نے اس کے غم زدہ والد کو اپنے محل میں طلب کیا تھا تا کہ تعزیت کریں۔ یہ بھی تاریخ میں شاید پہلی ہی بار ہوا کہ مقتول کے باپ کے پاس جا کر دعا کرنے کے بجائے اسے خود حاضر ہونے کا حکم دیا گیا۔واہ! کیا ا نداز ہے تعزیت کا ! اسامہ ستی کے قاتلوں کو کیا سزا ملی؟ کوئی نہیں جانتا! اور ہاں! مانسہرہ کے وہ چار نوجوان جنہیں ایک بڑی شخصیت کی گاڑی نے کچل دیا تھا‘ ان کے قاتل کا کیا بنا؟ بات بات پر امریکہ اور یورپ کی مثالیں دینے والوں کو جب حکومت ملی تو ساری مثالیں بھلا دی گئیں اور جو نظام دہائیوں سے چلتا آرہا تھا وہی جاری رہا! وعدے وعدے ہی رہے۔ عمل میں نہ ڈھل سکے! یہی کچھ زرداری اور شریفوں کے دور میں ہوتا رہا۔ یہی کچھ عمرانی عہد میں ہوتا رہا۔ سب ایک جیسے نکلے!
گھروں میں اور خاندانوں میں کیا ہو رہا ہے ؟ کل کے بچے بزرگوں کے منہ کو آرہے ہیں۔ سیاسی بحث کے پردے میں بڑوں سے بد تمیزی عام ہونے لگی ہے۔ تعلقات ٹوٹ رہے ہیں۔ کنبے تقسیم ہو رہے ہیں۔ قطع کلامی عام ہے۔ لیڈر کو اوتار کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ ہمارے لیڈر کو سات خون معاف ہیں۔ کوئی دعویٰ کر رہا ہے کہ حکم ہوا تو بچے کی گردن کاٹ دوں گا۔ یہ عقیدہ شد و مد سے پھیلایا جا رہا ہے کہ خدا ہمارے لیڈر کی طرف ہے! یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ ( نعوذ باللہ) قبر میں بھی پوچھا جائے گا کہ اس کا ساتھ دیا تھا یا نہیں ! اس صورت حال میں اوتار سے کسی دعوے کا ثبوت کون مانگے گا ؟ آپ کو سننے میں‘ سمجھنے میں‘ غلطی ہو سکتی ہے‘ لیڈر غلط بات نہیں کہہ سکتا! آپ کی فلاح اسی میں ہے کہ آنکھیں بند کر کے اور کانوں میں روئی ٹھونس کر آمنّا و صدّقنا کہتے جائیے! ایسا نہیں کریں گے تو اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ آپ چور اور ڈاکو ہیں اور غدار بھی ہیں !
خدا کے لیے اس طرزِ فکر اور اس طرزِ عمل کو ترک کیجیے۔ اپنے اقتدار کے لیے نئی نسل کو نا شائستگی اور کھردرے پن کے گڑھے میں نہ پھینکئے۔ آج ثبوت کے بغیر الزام تراشی سے آپ کو فائدہ ہو رہا ہے تو کل یہی خطرناک ہتھیار آپ کے خلاف بھی آزمایا جائے گا۔ دوسروں کے جسموں میں زہر پہنچانے کے لیے آج آپ سانپ پال رہے ہیں۔ مت بھولیے کہ کل یہی سانپ آپ کو ڈسیں گے۔ کیا عجب یہی سوشل میڈیا جس کے ذریعے آپ کے اندھے پیروکار‘ آج‘ وطن کے شہیدوں کی آبرو کے درپے ہو رہے ہیں‘ کل آپ کو تگنی کا ناچ نچوا دے ! ایک گھر تو ڈائن بھی چھوڑ دیتی ہے۔ آپ کسی کو نہیں چھوڑ رہے۔یہ دنیا انہونیوں کا گھر ہے۔ یہاں سب کچھ ہو سکتا ہے اور کچھ بھی ہو سکتا ہے ! یہاں چرچل جیسے عظیم لیڈر الیکشن ہار جاتے ہیں۔ ڈیگال کو حکومت چھوڑنا پڑتی ہے۔ حسنی مبارک کو پنجرے میں بند کر کے عدالت میں پیش کیا جاتا ہے۔ قذافی کو سڑکوں پر گھسیٹا
جاتا ہے۔صدام جیسے متکبر کو چوہے کی طرح بِل میں رہنا پڑتا ہے۔ شاہ ایران کے جہاز کو کہیں بھی اترنے کی اجازت نہیں ملتی۔ ہمارے اپنے پرویز مشرف صاحب کو‘ جو کبھی امریکہ کی آنکھ کا تارا تھے‘ امریکہ علاج کے لیے بھی ویزا نہیں دیتا۔ یہ عجز ہے جو انسان کے کام آتا ہے! رعونت اور تکبر کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوتا
بشکریہ روزنامہ دنیا !
No comments:
Post a Comment