اٹھانوے سالہ ہنری کسنجر نے دوا کھائی۔ پانی پیا۔ بیوی کو کافی کے لیے کہا اور ایک بار پھر گہری سوچ میں غرق ہو گیا۔
ہنری کسنجر ایک چٹان تھا۔ ایک پہاڑ تھا۔ امریکہ کے خارجہ امور کو وہ سالہا سال چلاتا رہا۔ خارجہ پالیسی تعمیر کرتا رہا۔ پوری دنیا کے امور پر اس کی نظر تھی۔ ان امور کو وہ امریکی عینک سے دیکھتا۔ سوچتا۔ ماہرین سے بحث کرتا۔ پھر اپنی رائے بناتا۔ اس کی رائے کو نہ صرف امریکہ میں بلکہ پوری دنیامیں اہمیت دی جاتی۔ اس پر مضامین لکھے جاتے۔ اسے تحقیقاتی مقالوں اور کتابوں کا موضوع بنایا جاتا۔ کئی کتابوں کا مصنف تھا۔ سب سے بڑا کارنامہ اس کا چین کے حوالے سے تھا۔ چین اور امریکہ کے تعلقات صفر کی سطح پر تھے۔ کسنجر نے خفیہ طور پر چین کا دورہ کیا اور چواین لائی سے ملاقات کی۔1972ء میں جو میٹنگ صدر نکسن‘ ماؤزے تنگ اور چو این لائی میں ہوئی اور جس کے بعد امریکہ اور چین کے درمیان معاشی اور ثقافتی تعلقات قائم ہوئے وہ کسنجر ہی کی کوششوں کا نتیجہ تھی۔ مشرق وسطیٰ کے تمام معاملات کسنجر ہی طے کرتا تھا۔ اسرائیل‘ مصر‘ سعودی عرب‘ سب ملکوں کے سربراہوں اور وزرائے خارجہ سے کسنجر ہی مذاکرات کرتا تھا۔
بہت سی کامیابیاں سمیٹنے کے باوجود اٹھانوے سالہ کسنجر مطمئن نہیں تھا۔ اس نے پورے امریکہ کو غور سے دیکھا۔ پھر یورپ پر نظر دوڑائی۔اسے کہیں کوئی جوہرِ قابل نہ دکھائی دیا۔ وہ کسی ایسے شخص کی تلاش میں تھا جو اس کے بعد امریکہ کی دانشورانہ اور عقلی قیادت سنبھالے۔ خارجہ امور کا ماہر ہو۔ تحریر و تقریر پر کمال کی دسترس رکھتا ہو۔ دنیا کے سیاسی حالات پر گہری نظر ہو۔اس کی اپنی زندگی کا چراغ ٹمٹما رہا تھا۔وہ چاہتا تھا کہ اپنے جیتے جی یہ اہم کام کسی کو سونپ دے اور پھر اطمینان سے زندگی کا سفر ختم کر سکے۔
سب سے پہلے اس نے اپنا جانشین یونیورسٹیوں میں ڈھونڈا۔ ضعفِ پیری کے باوجود وہ ہاورڈ یونیورسٹی پہنچا۔ کئی دن وہاں رہ کر پروفیسروں سے تبادلۂ خیالات کیا۔ ہر ایک کا جائزہ لیا۔ مگر کوئی اس کے معیار تک نہ پہنچ سکا۔ پھر جان ہاپکنز یونیورسٹی گیا۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کو چھان مارا۔ پھر اوقیانوس کو پار کیا اور آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹیوں میں گوہرِ مقصود ڈھونڈتا رہا۔ فرانس اور جرمنی گیا مگر ہر جگہ اسے مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ کسی کی بین الاقوامی سیاست پر گہری نظر تھی مگر تقریر کرتے ہوئے متاثر نہیں کر سکتا تھا۔ کوئی گفتار کا غازی تھا لیکن دریائے علم کے بس کناروں کو چھو پایا تھا! کوئی لاطینی امریکہ کے امور کا ماہر تھا مگر چین اور جاپان کے ضمن میں حقائق پر عبور نہ رکھتا تھا۔امریکہ کی دانشورانہ قیادت کا صرف وہ اہل تھا جو پوری دنیا کی سیاست سے واقف ہو۔ ترکی اور یونان کی باہمی مخاصمت کے پس منظر سے آگاہ ہو۔ مشرقِ بعید کے عربوں اور یہودیوں کی رگ رگ سے آگاہ ہو۔یورپ کا ماضی جانتا ہو اور مستقبل کی پیش گوئی کر سکتا ہو۔ خاص طور پر اس امر کا خیال رکھے کہ برطانیہ ایک بار پھر دنیا پر نہ چھا جائے۔ جنوبی ایشیا کے جھگڑے نمٹا سکتا ہو۔ افریقہ اور جنوبی امریکہ کی بیسیوں ریاستوں کے لامتناہی مسائل کا ادراک رکھتا ہو۔
کسنجر دن بدن کمزور ہو رہا تھا۔ ہاتھوں میں رعشہ آگیا تھا۔ یادداشت مدہم پڑتی جا رہی تھی۔اسے صاف معلوم ہو رہا تھا کہ اس کے پاس وقت کم ہے۔ ہر امریکی صدر اس سے اسی موضوع پر بات کرتا اور تشویش کا اظہار کرتا کہ کسنجر کے بعد امریکہ کی رہنمائی کون کرے گا۔کانگرس کے ارکان جب بھی ملتے تو یہی بات پوچھتے۔ وہ کبھی کبھی بڑی حسرت اور فکرمندی سے اپنی بیوی ‘ نینسی‘ سے اس بات کا تذکرہ کرتا۔ وہ بھی پریشان ہو جاتی۔
کسنجر پروفیسر بھی رہا تھا۔اس کے شاگرد پوری دنیا میں پھیلے ہوئے تھے۔ کچھ یونیورسٹیوں میں کام کر رہے تھے۔ کچھ مختلف ملکوں کی حکومتوں میں بڑے بڑے اونچے مناصب پر فائز تھے۔ ان سب کو معلوم تھا کہ کسنجر اپنے جانشین کی تلاش میں ہے۔وہ بھی اسی فکر میں تھے کہ ان کے محترم استاد کو اس تلاش میں کامیابی نصیب ہو۔ ایک شاگرد کسنجر کا جاپان کی اوساکا یونیورسٹی میں پروفیسر تھا اور مختلف حکومتوں کی ‘ کنسلٹنٹ کے طور پر ‘ مدد بھی کیا کرتا تھا۔ سری لنکا اور جنوبی ایشیا کے کچھ دوسرے ملکوں میں اس کا بہت آنا جانا تھا۔ پورے خطے کی صورت حال سے ہر وقت باخبر رہتا تھا۔ یہ بہار کی ایک شام تھی۔ ہوا میں مارچ کا اعتدال تھا۔ کسنجر گھر کے صحن میں نینسی کے ساتھ بیٹھا چائے پی رہا تھا۔ اس کا پسندیدہ ‘ پالتو کتا اس کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ فون کی گھنٹی بجی۔ نینسی نے فون اٹھایا۔ پھر کسنجر کی طرف بڑھا دیا۔ ''کون ہے ؟ ‘‘۔ کسنجر نے پوچھا۔ ''وہی تمہارا جاپانی شاگرد! خبطی پروفیسر جو کنسلٹنٹ بھی ہے‘‘۔ کسنجر مسکرایا۔ جاپانی پروفیسر فون پر طویل گفتگو کرتا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ نینسی کو زیادہ پسند نہیں تھا۔ معمول کی ہیلو ہائے کے بعد وہ کسنجر سے کہنے لگا کہ سر ! آپ کا کام ‘ یوں لگتا ہے ‘ ہونے والا ہے! کسنجر نے تفصیلات پوچھیں تو جاپانی شاگرد نے اطلاع دی کہ ایک جینئس کا پتا چلا ہے۔ اس میں وہ تمام خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہیں جن کی آپ کو تلاش ہے۔ صحیح معنوں میں عبقری ہے۔ تمام نقلی اور عقلی علوم کا ماہر! تقریر کرے تو مخاطب کے دل میں جگہ بنا لے۔ لکھنے پر آئے تو قلم اس کا وہ جولانیاں دکھائے کہ بڑے بڑے جغادری ادیب اور ماہرینِ منطق اَش اَش کر اٹھیں۔ کسنجر کے چہرے پر امید کی دلکش رنگت پھیل گئی۔ اس نے اس جینئس سے ملنے کے لیے بیقراری کا اظہار کیا۔ جاپانی پروفیسر نے تجویز پیش کی کہ اس جینئس کو اس کے اپنے ملک میں نہ ہی ملیں تو بہتر ہے۔ اس وقت بہت سی حکومتیں اسے اپنے ہاں آنے اور کام کرنے کی دعوت دے رہی ہیں۔آپ اس کے ملک میں جا کر اس سے ملاقات کریں گے تو دنیا میں شور برپا ہو جائے گا؛ چنانچہ طے ہوا کہ اسے اوساکا بلایا جائے جہاں کسنجر اس سے ملاقات کرے۔
اٹھانوے سال کی عمر میں کسنجر کے لیے جاپان کا سفر آسان نہ تھا۔ نیویارک سے وہ لاس اینجلس آیا۔ ایک دن آرام کیا۔ پھر ہوائی پہنچا۔ سفر کے آخری حصے نے اسے اوساکا پہنچایا۔مطلوبہ صاحبِ کمال شخص بھی پہنچ چکا تھا اور ایک ہوٹل میں ٹھہرایا گیا تھا۔ کسنجر ملاقات کرنے وہیں گیا۔ یہ شخص واقعی جینئس تھا۔ کسنجر جو موضوع چھیڑتا ‘ وہ اس پر حیران کن فصاحت کے ساتھ معلومات کے دریا بہا دیتا۔ کسنجر نے پوچھا کہ امریکہ کی دنیا پر گرفت کمزور پڑ رہی ہے! اسے کیسے پھر سے مضبوط کیا جائے؟ اس نے ایک پورا منصوبہ وہیں بیٹھے بیٹھے بتا دیا‘ کسنجر بہت متاثر ہوا۔ اس نے وہیں سے امریکی صدر کو اور کانگرس کے اُن ارکان کو جو اس کے دوست تھے‘ خوشخبری دی۔ جینئس کو بہت بڑے گھر کی پیشکش ہوئی۔ تنخواہ لاکھوں ڈالروں میں تھی‘ ایک جیٹ جہاز ہر وقت اس کی دستبرد میں رکھا گیا تا کہ ''شٹل ڈپلومیسی‘‘ میں اسے دقت نہ پیش آئے۔ آخر میں بر سبیل تذکرہ کسنجر نے پوچھا کہ جناب اس سے پہلے کس منصب پر فائز تھے۔ اس نے جواب دیا کہ اس کا تعلق جنوبی پنجاب سے تھا اور چند ہفتے پہلے تک ایک بہت بڑے صوبے کا وزیر اعلیٰ تھا۔
No comments:
Post a Comment