Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, March 03, 2009

گر‘ یہ نہیں تو بابا

ایک طویل کوشش کے بعد ' جو کئی صدیوں پر محیط تھی' روس نے وسط ایشیا کو اپنے بنچوں میں جکڑ لیا۔ ترکستان اور ماسکو کے درمیان کئی دریا اور کئی برف زار پڑتے تھے۔ ایسا بھی ہوا کہ روسی فوجیں برف کے طوفانوں میں تباہ و برباد ہو گئیں لیکن سفید ریچھ نے ہمت نہ ہاری۔ اس پر مستزاد یہ کہ نئی ٹیکنالوجی روس کو طاقتور سے مزید طاقتور کرتی رہی اور وسط ایشیائی مسلمان … باقی دنیا کے مسلمانوں کی طرح … لکیر کے فقیر رہے۔ ہر نئی ایجاد سے انہیں خوف آتا تھا۔ رہی سہی کسر مذہبی طبقوں نے پوری کر دی۔ برصغیر کی تاریخ کے طالب علم جانتے ہیں کہ جہانگیر کے دربار میں گوا ۔ سے آنے والا پرتگالی پادری پریس لایا تھا لیکن اُسے نامنظور کر دیا گیا جس کی ایک وجہ یہ تلاش کی گئی کہ ہمارے خطاط بے روزگار ہو جائیں گے۔ استنبول میں بھی ایسا ہی ہوا۔ جرمنی سے آنے والے ایک شخص نے عثمانی خلیقہ کی خدمت میں ماڈرن چھاپہ خانہ پیش کیا لیکن مفتیٔ اعظم نے اس کے عدم جواز کا فتویٰ دے دیا۔ یہی کچھ وسط ایشیا میں ہوا۔ ماسکو ترقی کی منزلیں طے کرتا رہا اور جنیوا' سمر قند' بخارا اور تاشقند میں وقت اپنی جگہ پر ساکت رہا۔ گھڑیاں رکی رہیں۔ ثمرقند اور بخارا کے خواتین کا زیادہ زور تاریک قید خانے ''آباد'' کرنے پر تھا۔ سفید ریچھ جنوب کی طرف بڑھتا رہا اور آخر کار 1860ء میں اُس نے تاشقند کو اپنے بالوں سے بھرے ہوئے ہیبت ناک سینے سے لگا لیا ! زارِ روس ترکستان کا بھی شہنشاہ ٹھہرا۔ حجاز کے بعد … جو سرزمین اسلامی علوم کے حوالے سے مشہور ترین تھی اور مقدس ترین بھی تھی روسی صلیب کے نیچے آ گئی اور امام ترمذی کا ترمذ ۔ حضرت بہاؤالدین نقشبندی کا بخارا اور امام بخاری کی آخری آرام گاہ ثمرقند' سب کچھ عالم اسلام سے چھن گیا۔
پھر یوں ہوا کہ روش میں مارکس کے پیروکاروں نے لینن کی قیادت میں انقلاب کا بیڑہ اٹھایا یہ بالشویک کہلائے۔ انہوں نے ترکستان کے مسلمانوں سے وعدہ کیا کہ اگر تم زار کے مقابلے میں ہمارے انقلاب کا ساتھ دو تو ہم اقتدار میں آ کر تمہیں آزاد کر دیں گے۔ وسط ایشیائی مسلمانوں نے ساتھ دیا لیکن کیسا وعدہ اور کون سی آزادی؟ کمیونسٹوں نے 1917ء میں انقلاب کو کامیابی سے ہم کنار کرنے کے بعد وسط ایشیا پر گرفت اتنی مضبوط کی کہ ہڈیاں چٹخنے لگیں اور پسلیاں ایک دوسرے میں پیوست ہو گئیں۔ انور محمود پاشا لڑتے لڑتے شہید ہو گیا۔ زار نے مذہب اور ثقافت کو نہیں چھیڑا تھا۔ لینن اور سٹالن نے جھاڑو پھیر دیا۔ یہاں تک کہ مغربی لباس لازم قرار دیا گیا۔ رسم الخط عربی فارسی ترکی سے بدل کر لاطینی مسلط کر دیا گیا تاکہ عالم اسلام سے ثقافتی روابط منقطع ہو جائیں۔ پھر جب اتاترک نے ترکی میں لاطینی رسم الخط نافذ کیا تو سوویٹ یونین نے وسط ایشیا میں رسم الخط دوسری بار تبدیل کر دیا اور لاطینی کے بجائے روسی رسم الخط کا حکم دیا۔ یہ اس لئے کہا گیا کہ ترکی سے تعلق نہ قائم ہو۔ آج ترکی زبان (غالباً) دنیا کی واحد زبان ہے جس کے چار رسم الخط ہیں۔ ترکی میں لاطینی' وسط ایشیائی ریاستوں میں روسی' شمالی' افغانستان میں فارسی اور چینی ترکستان میں ایغور' اگر کاشغر' تاشقند' استنبول اور مزارشریف کے ترک ایک جگہ اکٹھے ہوں تو وہ ایک دوسرے سے گفتگو کر سکیں گے لیکن ایک دوسرے کی تحریر نہیں پڑھ سکیں گے۔
سفید ریچھ کی مکروہ گرفت میں پھنسے ہوئے بے بس وسط ایشیائی مسلمان اگر بالشویک روس کے وعدے پر یقین نہ کرتے تو اور کر بھی کیا سکتے تھے؟ آج یہی حال پاکستان کے مسلمانوں کا ہے لیکن خارجی استعمار کے حوالے سے نہیں بلکہ داخلی حرکیات Dynamics کے حوالے سے یہ مسلمان جنہیں تحریک پاکستان کے دنوں میں یہ بتایا گیا تھا کہ مسلم لیگ کا ساتھ دو' تم ہندوئوں کی اقتصادی غلامی سے نجات حاصل کر لو گے۔
تحریک پاکستان کیلئے لاکھوں مسلمانوں نے خون کا نذرانہ دیا۔ پاکستان بن گیا لیکن خواب پورا نہ ہوا۔ مسلم لیگ نے تقسیم سے عین پہلے یونینسٹ پارٹی سے اشتراک کر کے نومولود وطن کو جاگیرداروں کے قدموں میں ڈال دیا۔ 1958ء میں زمین نے کروٹ لی۔ بھاری بوٹوں والے آ گئے۔ انہوں نے نئے وعدے کئے پھر تو اللہ دے اور بندہ لے۔ ایک کے بعد دوسرا طالع آزما آتا گیا۔ وعدے ہوتے رہے۔ بے بس مایوس لوگ ساتھ دیتے رہے لیکن غربت اور جہالت کی کالی رات ہے کہ طویل سے طویل تر ہوتی جا رہی ہے۔ آج مختلف سیاسی پارٹیوں کی باہمی کشمکش عروج پر ہے۔ محلاتی سازشیں مغلول اور عثمانیوں کے عہدِ زوال کو پیچھے چھوڑ گئی ہیں۔ پاکستان کے عوام کی وہی حالت ہے جو زار اور 1917ء کے انقلابیوں کے درمیان گھرے ہوئے وسط ایشیائی مسلمانوں کی تھی۔ سیاسی پارٹیاں خاندانوں کی مٹھیوں میں بند ہیں۔ کیا اس حقیقت سے کوئی انکار کر سکتا ہے کہ خاندان Dynasties اقتدار کے ایک افق سے دوسرے افق تک چھائے ہوئے ہیں۔ پشاور سے شروع کر لیں باچا خان' ولی خان' بیگم نسیم ولی خان' اسفندیار' ڈیرہ اسماعیل خان کا رخ کریں۔ مفتی محمود' مولانا فضل الرحمان' مولانا عطاء الرحمان' لاڑکانہ چلیں' ذوالفقار علی بھٹو' بینظیر بھٹو' آصف علی زرداری ' بلاول بھٹو۔ پنجاب کی طرف چلیں۔ چودھری ظہورالٰہی' چودھری شجاعت حسین' پرویز الٰہی' مونس الٰہی' مسلم لیگ (ن) کے مالکان کی اگلی نسل تیار بیٹھی ہے۔ رہا کراچی' تو کس کی مجال ہے کہ مقابلے میں اٹھے۔ کسی ایک پارٹی کے اندر بھی انتخابات نہیں ہوئے۔ پیش منظر پر دور دور تک اس کا امکان بھی نہیں۔
لوگوں کو عمران خان سے امیدیں ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ چار سو کنال والے ''گھر'' میں رہنے والا کس قسم کے ذہنی رجحانات Mind-Set رکھتا ہوگا؟ درست ہے کہ اسے ذاتی ملکیت کے حوالے سے حق ہے کہ اس سے بھی بڑاا گھر بنائے لیکن جب آپ سیاست میں قدم رکھتے ہیں تو آپ عوام کی پراپرٹی بن جاتے ہیں۔ آپکو ہر لحاظ سے جانچا جاتا ہے۔ اگر لوگ آپکو پسند کرتے ہیں اور اگر آپ اُن کی شکستہ امیدوں کی کشتی کا پتوار بننا چاہتے ہیں تو پھر آپکو وہ راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے جو لوگ پسند کریں۔ ساتھ والے گھر میں احمدی نژاد بیٹھا ہوا ہے۔ وہ چند مرلوں کے چھوٹے سے گھر میں رہتا ہے کئی سال پُرانی کار چلاتا ہے۔ کھانا گھر سے ساتھ لاتا ہے۔ اہلِ پاکستان اُسے رشک سے دیکھتے ہی۔ کیا ہمارے نصیب میں کوئی ایسا لیڈر نہیں جو ہمارے ساتھ ہماری گندی گلیوں میں رہے۔ ہمارے ساتھ بسوں اور ویگنوں میں سفر کرے۔ اسکی بیگم من موہن سنگھ کی بیگم کی طرح عام بازار سے گھر کا سودا سلف خریدے اور اسکے بچے عوام کے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر پڑھیں۔
عمران خان ہے یا کوئی اور ' اُسے یہ بھی بتانا ہوگا کہ جاگیرداری کے خاتمے کیلئے اُس کے عزائم کیا ہیں اور پروگرام کیا ہے؟ کیا پاکستان میں وہ اصلاحات کبھی نہیں ہوں گی جو بھارت میں اٹھاون سال پہلے ہو گئی تھیں ! اسے ابھی سے یہ بھی بتاا دینا چاہئے کہ تعلیم کے میدان میں مکروہ طبقاتی تقسیم ختم کرنے کیلئے اُس کے عزم کی خورجین میں کیا ہے …ع
گر یہ نہیں تو بابا پھر سب کہانیاں ہیں

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com