شام کے سائے لمبے ہو رہے تھے۔ چرواہے ڈھور ڈنگر ہانکتے واپس آ رہے تھے۔ کچھ کے سر پر ایندھن تھا اور کچھ نے گھاس کے گٹھڑ اٹھا رکھے تھے۔ وہ گھر پہنچا تو اس کی ماں صحن کے کونے میں نصب شدہ تندور پر روٹیاں لگا رہی تھی۔ باپ ابھی ابھی کھیتوں سے واپس آیا تھا اور اسے دیکھ کر خوش تھا۔ کھانا کھانے کے بعد وہ باپ کے ساتھ چوپال چلا گیا۔ اس کے بچپن کے ہم جولی بھی تھے اور بزرگ بھی۔ ملک کی سیاست پر بحث ہو رہی تھی۔ پھر مونگ پھلی اور گندم کی قیمتوں پر بات چیت چل پڑی۔ اچانک ایک بزرگ نے‘ جو رشتے میں اس کے چچا تھے‘ پوچھا۔ ’’تم اب پڑھائی ختم کر کے واپس گائوں کب آ رہے ہو؟‘‘
’’بس چاچا چند مہینے اور ہیں‘ چودہ جماعتیں مکمل ہو جائیں گی۔ پھر واپس آ جائوں گا اور زمین سنبھالوں گا۔ میں نے سوچ رکھا ہے کہ قرضہ لے کر ٹریکٹر خریدوں گا اور اپنی زراعت کو جدید خطوط پر استوار کروں گا‘‘۔
چودہ جماعتیں پاس کیں۔ اچھی ڈویژن آئی۔ دوستوں اور کالج کے اساتذہ نے مشورہ دیا کہ ایم اے کر لو۔ پہلے تو اُس نے مدافعت کی کہ ایم اے کا کیا فائدہ‘ جتنی بھی تعلیم ہوگی‘ سنبھالنی تو زرعی زمین ہی ہے۔ لیکن پھر نیم دلی سے اُس نے یونیورسٹی میں داخلہ لے ہی لیا۔ دو سال اور گزر گئے۔ ایم اے کا امتحان دے کر گائوں واپس چلا گیا اور رزلٹ کا انتظار کرنے لگا۔ پاس ہونے کے بعد اساتذہ اور دوستوں نے مشورہ دیا کہ گائوں تو واپس جانا ہی ہے‘ کچھ عرصہ شہر میں ملازمت کر لو۔ کچھ رقم اکٹھی ہو جائے گی۔ چنانچہ اس نے ایک کمپنی میں ملازمت کر لی۔ کارکردگی اچھی تھی۔ جلد ہی کمپنی نے تربیتی کورس پر بیرون ملک بھیج دیا۔ واپس آیا تو ترقی ہو گئی۔ اب وہ ایک شعبے کا انچارج تھا۔ مصروفیت زیادہ ہو گئی۔ رات دن کا روٹین اس طرح سیٹ ہو گیا کہ اکثر وہ گائوں واپس جانے والی بات بھول بھی جاتا تھا۔
پھر شادی ہو گئی۔ بیوی تھی تو گائوں کی لیکن اس کا موقف تھا کہ بچے گائوں میں اچھی تعلیم نہیں حاصل کر پائیں گے‘ اس لیے واپسی کا پروگرام سرِدست ملتوی کر دینا چاہیے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ تاہم وہ جب بھی گائوں جاتا‘ سب کو یقین دلاتا کہ بس تھوڑے عرصہ کی بات ہے‘ بچوں کو ہوسٹل میں داخل کر کے میں واپس آنے کا پروگرام بنا رہا ہوں۔ ٹریکٹر کی خریداری اور کھیتی باڑی کو جدید طریقے پر لانے کا ارادہ بدستور قوی تھا۔
دوسرے بچے نے گریجوایشن کی تو اس کا باپ انتقال کر گیا۔ اب گھر میں ماں اکیلی تھی۔ زمین سنبھالنے والا کوئی نہ تھا۔ اس نے بیوی سے بات کی۔ اب واپس جانا ہی ہوگا‘ لیکن بیوی نے جلدبازی سے منع کیا اور اچھی طرح غور کرنے کا مشورہ دیا۔ یہ اتنا آسان مسئلہ نہیں ہے۔ اس نے کہا۔ دونوں نے سارے متبادل ایک ایک کر کے جانچے۔ ایک صورت یہ تھی کہ دونوں میاں بیوی واپس گائوں چلے جائیں اور بچوں کو ہوسٹلوں میں داخل کرا دیں۔ اس میں اخراجات کی زیادتی کے علاوہ یہ نقص تھا کہ جوان بچے ماں باپ کی نگرانی سے محروم ہو جاتے تھے اور خراب صحبت میں پڑ کر سیدھے راستے سے بھٹک جانے کا امکان تھا۔ دوسری صورت یہ تھی کہ وہ گائوں واپس چلا جائے اور بیوی اور بچے شہر میں رہیں‘ اس پر بیوی بالکل راضی نہ ہوئی۔ اس کا موقف تھا کہ میں باہر کے معاملات کیسے سنبھالوں گی۔ بالآخر یہ طے ہوا کہ جب تک بچے تعلیم سے فارغ ہو
کر برسرِروزگار نہیں ہو جاتے‘ گائوں واپس جانے کا پروگرام ملتوی کر دیتے ہیں۔ پہلے بچے کو ملازمت ملی تو کچھ عرصہ بعد اس کی شادی کا اہتمام کرنا پڑا۔ شادی کے ایک ماہ بعد گائوں سے ٹیلی فون آیا کہ صبح پو پھٹے والدہ کو دل کا دورہ پڑا اور چل بسی۔ میاں بیوی گائوں آئے۔ ایک ماہ رہے۔ تعزیت کرنے والوں کا سلسلہ تھما تو حویلی کو تالہ لگایا اور شہر واپس ہو گئے۔ دونوں طرف کے پڑوسی رو رہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے تالہ بے رونقی کا نشان ہے۔ واپس نہ جائو۔ اب یہیں رہو۔ اس نے انہیں یقین دلایا کہ بچوں کے معاملات طے کرنے کے بعد وہ جلد ہی گائوں منتقل ہو جائے گا۔
وقت کچھ زیادہ ہی تیزی سے گزرا۔ تینوں بچے برسرِروزگار ہو گئے۔ شادیاں ہو گئیں۔ پھر وہ دن بھی آیا کہ وہ ملازمت سے ریٹائر ہو گیا۔ اس نے بچوں کو بٹھا کر آگاہ کیا کہ اب وہ اور ان کی ماں گائوں شفٹ ہونے کا پروگرام بنا رہے ہیں۔ بچوں نے شدید مخالفت کی۔ ان کی سب سے بڑی دلیل یہ تھی کہ اس کا بلڈ پریشر ہائی رہتا ہے اور ان کی ماں ذیابیطس کی مریضہ ہے۔ کسی بھی وقت ڈاکٹر کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ گائوں میں طبی امداد نہ ہونے کے
برابر ہے۔ شہر میں سہولیات ہیں۔ کمپنی کی طرف سے ریٹائرڈ ملازمین کے لیے اچھے اچھے ڈاکٹر پینل پر ہیں۔ ساری زندگی محنت کر کر کے اب اس عمر میں انہیں آرام دہ زندگی کی ضرورت ہے اور وہ گائوں میں میسر نہیں ہو سکتی۔
حویلی کو بدستور تالہ لگا ہے۔ پڑوسی بدستور راستہ دیکھ رہے ہیں۔ موت یا شادی پر وہ باقاعدگی سے جاتا ہے۔ زمین ٹھیکے پر دے دی ہے۔ زیادہ بارشیں ہو جائیں تو کبھی کبھار جا کر مکان کی مرمت لپائی وغیرہ کرا آتا ہے۔ ایک دن اُس نے نوٹ کیا تو تعجب ہوا‘ گائوں میں مقفل مکانوں کی تعداد کچھ عرصہ سے زیادہ ہو رہی تھی۔ جس جگہ یہ کہانی سنائی جا رہی تھی‘ وہاں ایک صاحب نے رونا شروع کردیا۔ پوچھا تو کہنے لگے‘ یہ کہانی ہوبہو میری ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ میں شہر میں نہیں‘ بیرونِ ملک ہوں۔ چالیس سال پہلے گیا تھا تو ارادہ یہی تھا کہ کچھ عرصہ بعد وطن واپس آ جائوں گا۔ آج تک نہیں آ سکا۔
کہانی وہی ایک ہے۔ لینڈ سکیپ مختلف ہیں۔ کہیں کوئی یورپ یا امریکہ بیٹھ کر وطن کو یاد کر رہا ہے اور آہیں بھر رہا ہے‘ سوتا ہے تو چھوڑی ہوئی گلیوں میں رات بھر پھرتا ہے۔ جاگتا ہے تو پھر رہٹ میں جُت جاتا ہے۔ کہیں کوئی لاہور یا کراچی بیٹھ کر گائوں کو یاد کر رہا ہے۔ ہوکے بھر رہا ہے۔ سوتا ہے تو رات بھر کھیتوں میں گھومتا ہے۔ صبح اٹھتا ہے تو پھر ٹانگے میں جُت جاتا ہے۔
No comments:
Post a Comment