محلے کے ایک گھر میں جو چند پھنے خان رہتے تھے، ان کا دماغ درست کرنے کے لیے میں نے کچھ بندوقچی،کچھ دادا گیر اورکچھ باڈی بلڈر ٹائپ تنومند نوجوان اپنے گھر میں ڈال لیے تھے۔ میں بظاہربالکل نارمل، شریفانہ زندگی گزارتا رہا۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی کہ منصوبے کا ہیڈکوارٹر میرا معمولی سا مکان ہے۔ رات کو یا گرمیوں کی دوپہرکو جب سب سوئے ہوئے تھے، ایک دو افراد میرے گھر سے نکلتے، پھنے خانوں کے گھر میںگھستے،کسی کو پھینٹی لگاتے، کسی کے سر پر بندوق کا بٹ مارتے اورکسی کو اٹھا ہی لاتے۔ چند مہینوں کے اندر اندر سارے پھنے خان محلہ چھوڑگئے۔ خس کم جہاں پاک ، اطمینان نصیب ہوا کہ اتنا بڑا کام میرے ذریعے سے ہوا۔ میں اپنے آپ کو محلے کا نجات دہندہ سمجھنے لگا، لیکن اب یہ مسئلہ آن پڑا کہ بندوقچیوں، دادا گیروں اور باڈی بلڈر ٹائپ نوجوانوں نے محلے کو خیرباد کہنے سے انکارکردیا اور میرے گھر میں مستقل قیام پذیر ہوگئے۔ اب گھر کے زیادہ حصے پر ان کا قبضہ ہے۔ بجلی، گیس اور پانی کا بل میں دیتا ہوں ، وہ ٹھاٹ سے رَہ رہے ہیں۔ میں اپنے ہی گھر میں یوں رہ رہا ہوں جیسے دارالامان میں بیوائیں گزارہ کرتی ہیں!
سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو ہم نے سوویت یونین کے خلاف اعلان جنگ نہ کیا، لیکن گھر میں مجاہدین ڈال لیے۔ تیس چالیس لاکھ مہاجر ان کے علاوہ تھے جنہیں کیمپوں میں رکھنے کے بجائے ، جیسا کہ ہمارے ہمسایہ ملک نے کیا تھا،پورے ملک میں گھومنے پھرنے ،کاروبار کرنے اور جائدادیں خریدنے کی اجازت دے دی۔ خیبرپختونخوا کی معیشت خاص کر تباہ ہوکر رہ گئی۔ مزدوری، کاروبار سب دوسروں کے ہاتھ میں چلاگیا۔ افغانستان اور پاکستان کے درمیان ضیاء الحق کے پورے دور میں سرحد نام کی کوئی شے نہیں تھی! آج ہم فصل کاٹ رہے ہیں۔ ملک میں اس قدر اسلحہ ہے کہ کئی ملک مل کر اتنا اسلحہ نہیں اکٹھا کرسکتے۔ شہر اور بستیاں غیر ملکیوںسے اٹی پڑی ہیں۔ قبائلی علاقہ پاکستان کے ساتھ صرف
کاغذ پر جڑا ہوا ہے۔ ملک میں ایک فوج نہیں ، کئی لشکر ہیں!
آج جو حلقے شام میں جنگجو بھیج رہے ہیں انہیں پاکستان کے حل سے عبرت پکڑنی چاہیے۔ جو ملک آج جنگجوئوں کی پُشت پر ہے ،یہ جنگجو جلد یا بدیر ضرور اس ملک کو آنکھیں دکھائیں گے۔ معاشرے کا تاروپود بکھرکر رہ جائے گا۔
وہ ویڈیو پوری دنیا نے دیکھی ہے جس میں جنگجوئوں کا سردار ایک ایسے شخص کے بارے میں تقریرکرتا ہے جس نے سینکڑوں، ہزاروں نوجوانوں کوجنگجو بنایا تھا ، پھر اس شخص پر کئی گولیاں چلتی ہیں اور وہ زمین پرگرپڑتا ہے۔ ایک اور معروف کردار بھی انہی علاقوں میں گیا اور زندہ واپس نہ آیا ، جس عمارت کو انہوں نے تعمیر کیا تھا اسی کے ملبے تلے آگئے۔
اس خطے میں کچھ ملکوں نے انقلاب کو برآمد کرنے کی کوششیں کیں۔ انقلاب تو اڑوس پڑوس میں برپا نہ ہوا ، گروہوں کے گروہ اس ’’ برآمد‘‘ کو آگ اور خون میں ڈوب کربھگت رہے ہیں! لبنان سے لے کر عراق اور یمن تک انقلاب برآمد کرنے کی کوشش کی گئیں ، ہر جگہ دو گروہ بن گئے اور ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرا ہوگئے۔ کیا ردعمل نہیں ہوگا ؟ تاریخ کی گواہی کیا کہتی ہے ؟ سولہویں صدی جب صفوی ، ایران میں سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ کررہے تھے، ایرانی معاشرہ ان کے منصوبوں سے زیر و زبر ہورہا تھا۔ مغرب سے سلطنت عثمانیہ نے آذر بائیجان اور تبریز میں لشکر بھیج دیا۔صفویوں نے یورپ سے مدد مانگی۔ پوپ کا زمانہ اقتدار تھا ، اس وقت کے پوپ نے کہا کہ ایرانی صفویوں اور عثمانی ترکوں کی باہمی جنگ نصرانی دنیا کے لیے خداوندکا تحفہ ہے ! ہرمز پر پُرتگال کا قبضہ تھا ۔ پرتگالیوں نے ہرمز سے ایران کو آتشیں ہتھیار فراہم کیے لیکن کچھ کام نہ آیا۔ ترکوں نے تبریز پر قبضہ کرلیا ، چالیس دن بعد خالی کیا لیکن اپنے لشکریوں کے لیے وہاں مضبوط چھائونی بنانے کے بعد !
یہ تو مغربی سرحد کا حال تھا ، مشرق میں عبداللہ خان ازبکوں کا سلطان بن چکا تھا۔ اس نے بکھرے ہوئے ازبکوں کو اکٹھا کیا اور ایرانی صوبے خراسان کو روندتا ہوا ہرات کا محاصرہ کرلیا جو ایران کا اہم شہر تھا۔
تاریخ ایک بار جو پگڈنڈیاں تراش لے ،ان پر کبھی گھاس نہیں اگتی۔ وہ نئے قافلوں کے لیے ہمیشہ چشم براہ رہتی ہیں۔ شام میں جنگجو بھیجنا غلط ہے ، بالکل اسی طرح انقلاب کی برآمد بھی فساد کا باعث بنی ہے۔ اب برآمدات کا یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیے ۔یو اے ای ہویا بحرین یاکوئی اور ملک، اہل پاکستان کو اپنے اپنے مفاد کے لیے آپس میں دست و گریباں نہ کیجیے، خدا کے لیے نہ کیجیے۔ پاکستانیوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیجیے۔ پراگندہ خاطر ہونے کے لیے ان کے پاس پہلے ہی کئی اسباب ہیں!
اور کیا پورے عالم اسلام میں ایسا کوئی بطل جلیل نہیں، ایسا کوئی گروہ نہیں جو مسلمان حکومتوں کو سمجھائے کہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے تدبیریں بُننا بند کردیں ! امریکہ اسرائیل اور بھارت مسلمانوں کے دشمن ہیں۔ اس میں رمق بھر اشتباہ نہیں، لیکن دانشوروں کو چاہیے کہ امریکہ اسرائیل اور بھارت کی توپوں میں کیڑے ڈالنے کی کوشش کرنے کی بجائے مغربی ایشیا کی مسلمان طاقتوں کو ایک دوسرے کاگلا کاٹنے سے روکیں۔ کوئی ایسا گروہ ہو جو شام ، یو اے ای اور بحرین کے حکمرانوں کو ایک میز پر بٹھادے ، ان کے آگے ہاتھ جوڑے کہ ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت نہ کریں اور ایک دوسرے کو پٹخنی دینے کے لیے زور نہ لگائیں۔کیا پوری مسلم دنیا میں ایسا کوئی گروہ ، ایسی کوئی شخصیت نہیں ؟ کیا مہاتیر محمد یہ کام نہیں کرسکتے ؟
No comments:
Post a Comment