Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Wednesday, March 19, 2014

برمودا تکون


برمودا تکون کو شیطانی تکون بھی کہتے ہیں۔ اس سے مراد شمالی بحرِ اوقیانوس کا مغربی حصہ  ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی ریاست فلوریڈا کے مشرق میں واقع یہ علاقہ بہت پُراسرار ہے۔ یہاں کئی ہوائی جہاز اور کئی بحری جہاز غائب ہوئے ہیں۔ اور ایسے غائب ہوئے کہ تلاشِ بسیار کے باوجود ان کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ 
پُراسرار اور خوفناک برمودا تکون کے بارے میں سب سے پہلے لوگوں کو تب معلوم ہوا جب 17ستمبر 1950ء کے روزنامہ میامی ہیرالڈ میں ایڈورڈ جونز کا اس موضوع پر مضمون شائع ہوا۔ دو سال بعد ایک معروف رسالے میں ایک صاحب جارج سنیڈ کا مضمون چھپا جس میں کئی ہوائی اور بحری جہازوں کی پُراسرار گمشدگی کا تفصیلی حال لکھا گیا۔ سب سے زیادہ ڈرانے والی رپورٹ امریکی تربیتی جہاز ’’فلائٹ 19‘‘ کے بارے میں تھی۔ جہاز کے پائلٹ کو یہ کہتے سنا گیا کہ ’’ہم سفید پانیوں میں داخل ہو رہے ہیں۔ کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے‘ کچھ معلوم نہیں ہو رہا کہ ہم کہاں ہیں؟ اب پانی سبز ہو چکا ہے۔ سفید نہیں رہا‘‘۔ اس کے بعد پائلٹ کا پتہ چلا‘ نہ جہاز کا۔ جب تفتیشی ٹیم نے سراغ لگانے کی کوشش کی تو اس قسم کی بات سنی گئی کہ جہاز مریخ کی طرف پرواز کر گیا۔ اس کے بعد کئی اور ہوائی جہاز اور بحری جہاز اسی علاقے میں گم ہوئے۔ ان گم شدہ مسافروں کی تلاش میں جو ٹیمیں بھیجی گئیں‘ وہ بھی واپس نہ آئیں۔ کچھ لوگوں نے یہ نظریہ پیش کیا کہ ایک براعظم ایسا بھی تھا جو دنیا کے صفحہ سے مٹ گیا۔ اس براعظم کا نام اٹلانٹس تھا۔ اس براعظم پر جو ٹیکنالوجی‘ نادیدہ قوتوں نے‘ ایجاد کی تھی‘ وہ اب بھی موجود ہے اور جہازوں کو وہی تباہ کرتی ہے۔ کچھ نے ایک پُراسرار شاہراہ کا‘ جو چٹانوں سے بنی تھی‘ وجود ثابت کیا جس پر چل کر جہاز غائب ہو جاتے تھے۔ کچھ نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ وہاں ایک فلک بوس دیوار ہے جس سے جہاز ٹکرا کر پاش پاش ہو جاتے ہیں۔ ایک نظریہ‘ جو بہت مشہور ہوا اور بہت سے لوگوں نے اسے قبول کیا‘ یہ تھا کہ دوسرے سیاروں سے اڑن طشتریاں یا اسی قبیل کی پُراسرار مشینیں آتی ہیں‘ خاص کر ’’فلائٹ 19‘‘ کو ان پُراسرار اڑن کھٹولوں میں سفر کرنے والی مخلوق نے اغوا کیا۔ 28 دسمبر 1948ء کو ایک ہوائی جہاز ’’ڈگلس ڈی سی 3‘‘ برمودا تکون سے غائب ہو گیا۔ اس میں 32 مسافر سوار تھے۔ 28 اگست 1963ء کو امریکی ائیرفورس کے دو جہاز اس علاقے میں آپس میں ٹکرائے‘ گرے اور ملبہ تک نہ ملا۔ 26 ستمبر 1955ء کو ایک اور پُراسرار واقعہ رونما ہوا۔ ایک یاچ (سیرو تفریح کے لیے بنایا گیا بحری جہاز) کے مسافر غائب ہو گئے جب کہ تین سمندری طوفانوں کے باوجود یاچ غائب نہ ہوئی۔ 
لیکن جو کچھ اس کے بعد ہوا‘ اس کے ذکر ہی سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ حیران کن واقعہ سالِ رواں کے دوسرے مہینے میں پیش آیا۔ برمودا تکون کا پورا علاقہ‘ پورا رقبہ‘ بحرِ اوقیانوس سے الگ ہو گیا۔ یوں لگتا تھا جیسے کسی نے تکون کے تینوں اضلاع چاقو سے کاٹے اور تکون کو اوپر اٹھا لیا۔ اس کے بعد دنیا نے دیکھا کہ یہ شیطانی تکون مشرق کو روانہ ہوئی۔ اس نے پورا بحرِ اوقیانوس پار کیا۔ برطانیہ کے جنوب میں یہ یورپ کے اوپر ہوا میں تیرتی‘ بدستور مشرق کی طرف بڑھتی گئی۔ آسٹریا سے یہ جنوب کو مُڑی۔ لوگوں نے سمجھا اٹلی پر گرے گی لیکن اٹلی کے اوپر سے گزرتی یہ یونان میں داخل ہو گئی۔ پھر بحرِ روم سے ہوتے ہوئے اس نے ترکی کی فضائوں کو عبور کیا۔ شام اور عراق کو جنوب کی طرف چھوڑتی ہوئی یہ تکون ایران میں داخل ہوئی۔ پھر تہران اور بحیرۂ کیسپین کے درمیان سے گزرتی افغانستان میں ہرات کی طرف بڑھی۔ قندھار اور غزنی کے اوپر سے گزرتی‘ جلال آباد سے ہوتی ہوئی پاکستان میں داخل ہوئی اور اسلام آباد کی طرف بڑھنے لگی۔ 
اس کے بعد دنیا نے عجیب و غریب منظر دیکھا۔ ایسا جو دنیا کی آفرینش سے لے کر اب تک کسی نے نہیں دیکھا تھا۔ برمودا تکون‘ اپنے مہیب پانیوں کو لیے ہوئے اسلام آباد کے ریڈ زون میں داخل ہوئی۔ ہر طرف گہری دھند تھی، دھواں تھا۔ لوگوں کی آنکھوں سے عجیب پراسرارپانی بہہ رہاتھا۔ فضا صاف ہوئی تو پارلیمنٹ کی پوری عمارت غائب تھی۔ اس سے بھی زیادہ پراسرار واقعہ یہ تھا کہ سینیٹ کے پورے ایک سوچار ارکان اورقومی اسمبلی کے پورے 342ارکان بھی غائب ہوگئے۔ کسی کو معلوم نہ ہوسکا کہ انہیں زمین کھا گئی یا آسمان کی طرف اڑ گئے۔ برمودا تکون کا سفر پھر شروع ہوگیا۔ اب یہ لاہور میں داخل ہوئی۔ وہاں بھی ہر طرف دھند چھاگئی۔ چھٹی تو پنجاب حکومت کا نام و نشان نہ تھا۔ اس کے بعد تکون پھیلی اور ملک بھر کے اوپر چھاگئی۔ کئی دنوں بعد فضا صاف ہوئی تو پتا چلا کہ علماء کرام اور مذہبی رہنما بھی غائب ہیں۔
لوگوں نے مختلف نظریات پیش کیے ہیں۔ مقبول ترین تھیوری یہ ہے کہ برمودا تکون ایک بہت بڑا ہوائی جہاز اڑا کر لائی تھی۔ یہ ایسا لگژری جہاز تھا کہ متحدہ عرب امارات کے شیوخ نے بھی نہ دیکھا ہوگا۔ آرام دہ خواب گاہیں ، حوروں جیسی  ائیر ہوسٹسیں، مخملیں صوفے ، جہاز کے اندر سوئمنگ پول بھی تھا اور سیرگاہ بھی۔ برمودا تکون ملک کے ان وی آئی پی ارکان پارلیمنٹ ، حکومت پنجاب کے عمائدین اور واجب الاحترام علماء کرام کو اس آرام دہ جہاز میں بٹھا کر اپنے ساتھ لے گئی۔ یہ حیرت انگیز واقعہ 26فروری کو رونما ہوا۔
اب میدان صاف تھا۔ پارلیمنٹ تھی‘ نہ صوبے کی حکومت‘ نہ علمبردارانِ مذہب۔ کسی کو ڈر رہا نہ جھجک۔ اگلے ہی دن یعنی 27فروری کو چنیوٹ کے نواحی علاقہ ماور بھٹیاں کے رہائشی ثناء اللہ نے بیس سالہ بلقیس کے ساتھ پسند کی شادی کرلی۔ بلقیس کے باپ کا نام ملا تھا۔ اس نے گھر میں پنچایت بلالی۔ پنچایت نے فیصلہ کیا کہ بلقیس کا بدلہ لینے کے لیے ’’ ملزم ‘‘ ثناء اللہ کی بہن صاحب بی بی کو بلقیس کے بھائی زاہد کے ساتھ ونی کردیاجائے۔ صاحب بی بی 
کے گھر والوں نے مدافعت کی تو چھ مسلح افراد یکم مارچ کو صاحب بی بی کو گھر سے پکڑ لائے۔ پنچایت نے اس کا نکاح زاہد سے پڑھوا دیا۔ زاہد نے اسے بیوی بناکر پانچ دن گھر میں رکھا۔ پھر طلاق دیدی۔ پنچایت پھر بیٹھی۔ اب کے فیصلہ یہ ہوا کہ صاحب بی بی کا نیا نکاح زاہد کے ماموں نور احمد سے کرایاجائے ۔ نور احمد نے صاحب بی بی کو دس دن پاس رکھا‘ اس کے بعد پندرہ مارچ کی رات نور احمد اسے ایک حویلی میں اٹھالایا۔ یہاں چار افراد اور بھی تھے یہ سارے افراد رات بھر صاحب بی بی کو بھنبھوڑتے رہے۔ اجتماعی زیادتی کے ساتھ ساتھ اس کے جسم پر شراب پھینکتے رہے اور ایک دوسرے کی طرف اچھالتے رہے۔ ساتھ ساتھ ہوائی فائرنگ بھی کرتے رہے۔ پھر انہوں نے اسے برہنہ کرکے حویلی کے باہر درخت کے ساتھ باندھا اور اس کے گھر والوں کو پیغام بھیجا کہ ہماری لڑکی واپس کرو‘ ورنہ بہت کچھ مزید بھی کیاجاسکتا ہے۔
اگرملک میں پارلیمنٹ ہوتی تو قانون پاس کرتی کہ اس کے بعد پنچایت میں شریک ہونے والے کو سزائے موت دی جائے گی۔ اگر صوبے میں حکومت ہوتی تو اس قسم کا واقعہ رونما ہی نہ ہوتا اور ہوتا تو پنچایت کرنے والوں کو نشان عبرت بنادیا جاتا۔ اگر ملک میں علماء کرام ہوتے تو اس ظلم پر سراپا احتجاج ہوجاتے۔ مسجدوں سے جلوس نکلتے ۔ حکومت کو ڈیڈ لائن دی جاتی کہ پنچایت سازی کے خلاف اتنے دن کے اندر اندر قانون سازی کی جائے۔ لیکن افسوس ۔ ہمارے ملک میں پارلیمنٹ ہے‘ نہ پارلیمنٹ کے ارکان۔ صوبائی حکومت ہے‘ نہ علماء کرام ۔ ان سب کوتو برمودا تکون اٹھا کر لے گئی ہے۔پراسرار برمودا تکون!

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com