چوبیس نومبر2021ء کو جو کچھ ہوا‘ وہ پہلی بار نہیں ہوا۔ ایک مدت سے ایسا ہو رہا ہے۔ آثار بتاتے ہیں کہ یہ سلسلہ تھم نہیں پائے گا۔ ایسا ہوتا رہے گا۔ ہماری زندگیوں میں! شاید ہمارے بعد بھی! کب تک ہوتا رہے گا ؟ کچھ نہیں کہا جا سکتا!
یہ نومبر کا چوبیسواں دن تھا۔ کشتی فرانس کے ساحل سے چلی۔ اس نے رودبار انگلستان کو‘ جسے انگلش چینل بھی کہا جاتا ہے‘ پار کر کے برطانیہ کے ساحل تک پہنچنا تھا۔ کشتی کمزور تھی۔ڈوب گئی۔ پچاس میں سے سو مسافر ہلاک ہو گئے۔ اصل سوال یہ ہے کہ یہ کون لوگ تھے؟ برطانیہ کیوں جانا چاہتے تھے؟ کھلونا قسم کی کمزور جعلی کشتی ہی میں کیوں بیٹھے؟ یہ ستائیس ڈوبنے والے مہاجر‘ اور اس سے پہلے ہزاروں ڈوبنے والے بے گھر افراد‘ ملت اسلامیہ کے رخسار پر ایک طمانچہ ہیں! ایسا طمانچہ کہ انگلیوں کے نشان واضح ہیں۔ یہ عراقی تھے جو بھوک سے‘ افلاس سے‘ مذہبی اور مسلکی تفریق کی اذیت سے‘ موت سے ‘ بھاگ کر یورپ میں پناہ لینا چاہتے تھے۔ ان میں لڑکے تھے۔ جوان لڑکیاں بھی ‘ معمر افراد بھی۔فرانسیسی اور برطانوی حکومتوں کے متعلقہ محکموں نے ان کی لاشیں سمندر کی گہرائیوں سے نکالیں۔ ان پر کفن لپیٹے اور عراق واپس ان کے پسماندگان کو بھجوائیں! یہ پہلی بار نہیں ہوا۔ شام سے‘ عراق سے‘ لبنان سے‘ صومالیہ سے‘ افغانستان سے مہاجر جب بھی نکلے‘ انہوں نے یورپ کا رخ کیا‘ اوقیانوس کے پار ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی طرف گئے یا آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں جا سر چھپایا۔
راچسٹر امریکی ریاست منی سوٹا کا ایک قصبہ ہے۔ اس کالم نگار کو وہاں چند ماہ رہنے کا اتفاق ہوا۔ چھوٹے سے قصبے میں ہزار ہا گھرانے صومالی مسلمانوں کے تھے۔ ان کی مسجدیں تھیں۔ ملازمتیں ملی ہوئی تھیں۔ گاڑیوں میں گھومتے پھرتے تھے۔ ذاتی مکان تھے۔ کاروبار کے مالک تھے۔ آسٹریلوی شہروں میں صومالی‘ بوسنیائی اور لبنانی ‘ پناہ (Asylum)لے کر آئے۔ آج وہاں آباد اور خوشحال ہیں۔ مسجدیں ہیں۔ کروڑوں کے بزنس ہیں۔بازاروں میں شاپنگ کرتے پھرتے ہیں۔ اور تو اور ‘ ووٹ ڈالنے کے حقدار ہیں۔ انتخابات میں کھڑے ہو سکتے ہیں۔ آسٹریلیا میں لاکھوں ہزارہ آکر ماضی قریب میں آباد ہوئے ہیں جو کوئٹہ سے جان بچا کر آئے۔ ماضی قریب ہی میں جرمن حکمران‘ انگیلا میرکل ‘ نے اپنا سیاسی مستقبل داؤ پر لگا کر شامی مہاجرین کو پناہ دی اور پھر اپنی اس پالیسی کا مسلسل دفاع کیا۔
اس سوال کا جواب کون دے گاکہ یہ مسلمان مہاجر پچپن مسلمان ملکوں کا رُخ کیوں نہیں کرتے ؟اتنے بڑے بڑے اسلامی ممالک! جرمنی اور برطانیہ تو ان ملکوں کے ایک ڈویژن اور ایک ضلع کے برابر ہوں گے۔ آپ کا کیا خیال ہے برطانیہ کا رقبہ کتنا ہے ؟ جرمنی کا کتنا ہے ؟ تو سنیے! برطانیہ کا رقبہ مشکل سے اڑھائی لاکھ مربع کلو میٹر ہے اور جرمنی کا ساڑھے تین لاکھ مربع کلو میٹر! ان کے مقابلے میں مسلمان ممالک دیو لگتے ہیں۔ مصر کا رقبہ دس لاکھ مربع کلو میٹر سے زیادہ ہے۔ ترکی کا پونے آٹھ لاکھ! پاکستان کا نو لاکھ سے ذرا ہی کم! سعودی عرب کا اکیس لاکھ سے بھی زیادہ! ایران کا سولہ لاکھ سے زیادہ! قازقستان کا ستائیس لاکھ! لیبیا کا سترہ لاکھ سے زیادہ! دولت کا یہ حال ہے کہ مراکش کے ساحلوں پر میلوں چلتے جائیے‘ مسلمان حکمرانوں کے محلات ‘ قطار اندر قطار‘ کھڑے ہیں جہاں صرف تعطیل منانے یہ حضرات تشریف لاتے ہیں۔ ایک ہزار مصاحب ہمراہ ہوتے ہیں۔ مرسڈیز کے بیڑے! جہازوں کی ڈاریں! سونے سے بنی ہوئی سیڑھیاں! جزیروں کے مالک یہ ‘ ایک ایک ارب ڈالر کا ان کا ایک ایک بجرا( یاچ)۔ صرف پاکستانی امرا کی دولت دیکھ لیجیے۔ آدھا لندن لگتا ہے ان کا ہے! شریفوں اور زرداریوں کے نام تو سامنے آگئے ‘ کتنے ہی پاکستانی کھرب پتی ہیں جن کے اثاثے اور جائدادیں یورپ اور امریکہ میں ہیں۔ مگر ملت اسلامیہ کے یہ قارون مسلمان مہاجرین کی مدد کرتے وقت دردِ قولنج میں مبتلا ہو جا تے ہیں۔ ان بے گھروں کو اپنے ملکوں میں پناہ دیتے ہیں نہ مالی مدد کرتے ہیں!
دوسری طرف شیخیاں ان کی بس سنتے جائیے ‘ حیران ہوتے جائیے اور شرم سے زمین میں گڑتے جائیے! اپنے آپ کو ساری دنیا سے افضل سمجھتے ہیں! جمہوریت کے خلاف خوب تقریریں کرتے ہیں اور لکھتے ہیں۔ تو پھر ان عراقی‘ شامی‘ لبنانی‘ افغان اور صومالی مہاجرین کو روکتے کیوں نہیں کہ فرانس‘ جرمنی‘ آسٹریلیا ‘ امریکہ اور دوسرے ملکوں کی طرف نہ جاؤ کہ وہاں جمہوریت کا کافرانہ نظام ہے! افغانستان میں تین دن پہلے الیکشن کمیشن ختم کر دیا گیا ہے تا کہ جمہوریت کا قصہ ہی تمام ہو جائے‘ تو پھر مہاجرین کو اب رودبارِ انگلستان میں ڈوبنے کی ضرورت نہیں۔ افغانستان میں آکر پناہ لیں!
اس ذلت اور نکبت کے باوجود ‘ احساسِ زیاں مکمل طور پر مفقود ہے۔ پسماندگی اور غربت کا ذمہ دار بھی انہی ملکوں کو ٹھہرایا جاتا ہے جن ملکوں میں لاکھوں کروڑوں مہاجرین آباد ہوئے ہیں۔ دلیل یہ ہے کہ ان استعماری ملکوں نے لوٹ کھسوٹ مچائی اور قلاش کر کے چھوڑ گئے۔ تو آپ ان کا مقابلہ کرتے اور لوٹ کھسوٹ نہ کرنے دیتے۔ آپ کو کس نے منع کیا تھا ؟ اُس مائنڈ سیٹ کو کبھی الزام نہیں دیں گے جس کی وجہ سے مقابلے میں شکست کھائی۔ سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں جب فرانسیسیوں نے پانڈی چری پر قبضہ کیا تو ان کے پاس جدید ترین بندوقیں اور توپیں تھیں جن کا ہندوستان میں تصور بھی نہ تھا۔ حالت یہ تھی کہ فرانسیسی لشکریوں کو مقامی نواب کرائے پر منگواتے تھے تا کہ مقامی حریفوں کو شکست دی جائے!اس لیے نہیں کہ فرانسیسی فوجی سولہ سولہ فٹ کے تھے۔ اس لیے کہ ان کے پاس وہ ہتھیار تھے جو مقامی حکمرانوں کے پاس نہیں تھے۔ بابر کو پانی پت کے میدان میں اس لیے فتح نہیں حاصل ہوئی تھی کہ وہ نیک تھا اور اس کے مقابلے میں ابراہیم لودھی گنہگار تھا۔ یہ فتح اس لیے ہوئی کہ مغلوں کے پاس توپخانہ تھا جو ہندوستانی فوج کے پاس نہیں تھا۔ہم نے پریس سے لے کر لاؤڈ سپیکر تک ہر نئی ٹیکنیک کو رد کیا اور جب قبول کیا تو تاخیر ہو چکی تھی۔ آج صورت حال یہ ہے کہ جن ملکوں کا رقبہ اڑھائی لاکھ اور تین لاکھ مربع کلومیٹر ہے وہ تو مسلمان مہاجرین کو پناہ دے رہے ہیں مگر ان سے کئی گنا بڑے مسلمان ممالک میں جانے کا یہ مہاجرین سوچ بھی نہیں سکتے۔
شام سے تعلق رکھنے والے بے مثل خطاط‘ عثمان طہٰ کو سعودی عرب میں رہتے ہوئے33سال ہو گئے ہیں۔ بارہ بار وہ مکمل قرآن پاک ہاتھ سے لکھ چکا ہے۔ اس کی خطاطی انوکھی ہے۔ اس وقت دنیا میں شاید وہ اس میدان میں ٹاپ پر ہے۔ اب جا کر اسے ایک بڑے عرب‘ مقدس‘ ملک نے شہریت عطا کی ہے اور یہ اتنا بڑا واقعہ ہے کہ تہلکہ برپا ہو گیا ہے اور ہیڈ لائن بنی ہے۔ اس کے مقابلے میں کافر ‘ جمہوری ممالک‘ کروڑوں مسلمانوں کو شہریت دے چکے ہیں اور مسلسل دیے جا رہے ہیں۔ لاکھوں تو خیراتی مکانوں میں رہ رہے ہیں اور نان و نفقہ کے لیے ہر ماہ یہ کافر ریاستیں ان فرزندانِ اسلام کو قومی خزانوں سے ڈالر‘ پاؤنڈ اور یورو بھی دے رہی ہیں!
مگر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں! آئیے آنکھیں بند کر کے اُن آنے والے زمانوں کا سو چیں جب یورپ ‘ امریکہ ‘ جاپان اور مشرقِ بعید کے لوگ مسلمان ملکوں میں بسنے اور شہریت حاصل کرنے کے لیے کمزور ‘ جعلی‘ کشتیوں میں سفر کریں گے۔خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں!
بشکریہ روزنامہ دنیا
No comments:
Post a Comment