کسان کھیت میں ہل چلا رہا تھا۔ ساتھ والی پگڈنڈی سے اس کے ایک جاننے والے کا گزر ہوا۔اس نے کسان کو سلام کیا۔ السلام علیکم ! کسان نے جواب دیا '' تو پھر تم نے اپنے بیٹے کی شادی پر مجھے تو نہیں بلایا تھا‘‘۔ سلام کرنے والے نے حیران ہو کر کہا کہ میں نے تمہیں سلام کیا ہے‘ تم آگے سے کیا بات لے بیٹھے ہو ! کسان نے جوجواب دیا‘ وہ بہترین جوابوں میں سے ہے اور ایسا جواب ہے جو ہر جگہ‘ ہر موقع پر‘ہر صورت حال میں کام آتا ہے۔سلام کرنے والے نے کہا '' تم آگے سے کیا بات لے بیٹھے ہو؟‘‘ کسان نے جواب دیا '' پھر بات سے بات تو نکلتی ہے‘‘ !
تو پھر بات سے بات تو نکلتی ہے ! جب بات سے بات نکلتی ہے تو سوالات پیدا ہوتے ہیں۔سوالات طالب علم کے ذہن میں اٹھتے ہیں! اکثرو بیشتر ان سوالوں کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے کہ مصلحت کا تقاضا یہی ہوتا ہے۔ مگر گلا گھونٹنے کے باوجود سوال مرتے نہیں ! زندہ رہتے ہیں !سوال یہ ہے کہ کوئی تو ان سوالوں کے جواب دے ! مثلاً چند سوالات ملاحظہ فرمائیے :
چین اور بھارت ایک دوسرے کے دشمن ہیں! دشمنی معمولی نہیں‘ شدید ہے۔ آئے دن سرحدوں پر ان کی ٹھَیں پٹاس رہتی ہے۔اس کے باوجود تجارت دونوں ملکوں میں ہو رہی ہے اور زور و شور سے‘ مسلسل ہو رہی ہے۔گزشتہ سال2022ء میں صرف اپریل اور اکتوبر کے دوران‘ دونوں ملکوں کے درمیان 69 ارب ڈالر کی تجارت ہوئی۔ تائیوان اور چین کے درمیان سخت ترین دشمنی ہے۔ چین کی ''ون چائنا پالیسی‘‘ واضح ہے اور وہ تائیوان کو الگ ملک نہیں بلکہ چین کا حصہ سمجھتا ہے۔ چین اپنے دوست ملکوں سے بھی یہی پالیسی چاہتا ہے۔ اس کے باوجود چین اور تائیوان میں تجارت ہو رہی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان ''آزاد تجارتی معاہدہ‘‘ کام کر رہا ہے جسے Economic Cooperation Framework Agreement (ECFA)کہا جاتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ دو طرفہ تجارت پر کم سے کم محصول اور ٹیکس لگائے جائیں۔
2021ء میں دونوں ملکوں کے درمیان166 ارب ڈالر کی تجارت ہوئی۔ سوال جو طالب علم کے ذہن میں اُٹھتا ہے‘ یہ ہے کہ اگر چین اور بھارت ایک دوسرے کے ساتھ تجارت کر سکتے ہیں اور اگر چین اور تائیوان ایک دوسرے کے ساتھ تجارت کر سکتے ہیں تو پاکستان اور بھارت کیوں نہیں کر سکتے۔ چین اور بھارت کے درمیان جو سرحدی تنازعے ہیں‘ وہ جوں کے توں ہیں۔ پھر بھی تجارت ہو رہی ہے۔ چین تائیوان کو الگ ملک کے طور پر تسلیم ہی نہیں کرتا۔ پھر بھی تجارت ہو رہی ہے۔ پاکستان اور بھارت تجارت کریں تو کیا ہو جائے گا؟ باہمی تجارت نہ ہونے سے پاکستان کو کیا فائدہ ہو رہا ہے ؟
اسرائیل کا جھگڑا بنیادی طور پر عربوں کے ساتھ ہے۔ ترکی کے صدر اردوان ہر موقع پر عالم اسلام کے رہنما کے طور پر ابھرے ہیں۔ مگر ترکی اور اسرائیل کے درمیان تجارت ہورہی ہے۔2021ء کے دوران ترکی نے6.36 ارب ڈالر کی اشیا اسرائیل کو برآمد کیں۔ ترکی نے اسرائیل کو تسلیم بھی کیا ہوا ہے۔ استنبول اور تل ابیب کے درمیان ہفتہ وار پروازوں کی تعداد ایک سو باسٹھ ہے۔ انڈونیشیا نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ہوا مگر 2021ء میں انڈونیشیا نے163 ملین ڈالر کی اشیا اسرائیل کو بر آمد کیں۔ اور یہ تو پوری دنیا کو پتا ہے کہ یو اے ای اور بحرین نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے۔ سعودی عرب کے حوالے سے بھی برف پگھل رہی ہے۔ طالب علم اپنی کم علمی کو تسلیم کرتے ہوئے اہلِ دانش سے سوال پوچھتا ہے کہ اسرائیل سے تجارت کرنے سے کیا نقصان ہو گا ؟ ترکی کو کیا نقصان ہوا ہے ؟ امریکہ سے ہماری تجارت ہو رہی ہے۔ یہودی وہاں کے بزنس پر چھائے ہوئے ہیں۔ تو پھر امریکہ سے تجارت کیوں ہو رہی ہے؟ اگر اسرائیل کے ساتھ تجارت کرنے سے پاکستان کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے تو بالکل تجارت نہ کی جائے۔ مگر کوئی یہ تو بتائے کہ کیا نقصان ہو گا؟
تمام بڑے بڑے مسلمان ملکوں میں مساجد ریاست کی تحویل میں ہیں۔ مصر‘ سعودی عرب‘ یو اے ای‘ قطر‘ ترکی‘ ملائیشیا اور انڈونیشیا میں مسجدیں نجی شعبے میں نہیں ہیں۔ ان تمام ممالک میں ائمّہ اور خطبا ریاست کی طرف سے تعینات ہوتے ہیں۔ خطبات کے موضوع بھی ریاست ہی طے کرتی ہے تا کہ فرقہ واریت کو کنٹرول کیا جا سکے۔ پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا ؟ اس وقت ہماری مساجد کی اکثریت‘ الا ماشاء اللہ‘ مسلکی بنیادوں پر مصروفِ کار ہے۔ تکفیر بھی کم نہیں! اگر مساجد ریاست کی تحویل میں آجائیں تو خطبات کے موضوعات کے ذریعے معاشرے کی اصلاح کی جا سکتی ہے۔ اس لکھنے والے نے ایک بار نمازِ جمعہ ڈیفنس لاہور کی ایک مسجد میں ادا کی۔ مولانا صاحب کی تقریر ایک خوشگوار جھونکے کی طرح محسوس ہوئی۔ انہوں نے شادی بیاہ کی فضول رسموں اور ناروا اخراجات سے اپنے سننے والوں کو روکا۔ معلوم ہوا کہ انتظامیہ نے یہی موضوع طے کیا تھا اور سمت متعین کی تھی کہ شادی بیاہ کے حوالے سے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کی جائے۔ اس وقت ڈیفنس اور بحریہ کی آبادیوں میں مساجد کو انتظامیہ کی تحویل میں رکھنے کا کامیاب تجربہ کیا جا رہا ہے۔ امام اور موذن کسی محلے یا مسجد کمیٹی کے کنٹرول میں نہیں نہ ہی انہیں اپنی تنخواہ کے لیے کسی چندے کا دست ِنگر ہونا پڑتا ہے۔ ہر تھوڑے یا مناسب عرصے کے بعد ان کا کسی دوسری مسجد میں تبادلہ کر دیا جاتا ہے۔ یوں گروپ بازی کا استیصال ہو جاتا ہے۔ جب مساجد کو ریاست کی تحویل میں لانے کی بات کی جائے تو اس کے خلاف ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ شرقِ اوسط کے ملکوں میں اگر مساجد ریاست کی تحویل میں ہیں تو وہاں تو نظام بھی موروثی بادشاہت کاہے‘ پھر وہ نظام بھی لائیے! مگر ترکی‘ ملا ئیشیا اور انڈو نیشیا میں تو موروثی بادشاہت نہیں ہے ! وہاں بھی تو مساجد ریاست کی تحویل میں ہیں !
تقسیم کے بعد بھارت میں کئی نئے صوبے وجود میں آئے۔ ( صوبہ وہاں ریاست کہلاتا ہے) آسام کو چار ریاستوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ پنجاب میں سے ہریانہ اور ہماچل پردیش کی ریاستیں نکالی گئیں۔ بہار کو تقسیم کر کے جھاڑ کھنڈ ریاست بنائی گئی۔ یو پی نے اترکھنڈ کو اور مدھیہ پردیش نے چھتیس گڑھ کو جنم دیا۔2014ء میں آندھرا پردیش کو دو نئی ریاستوں میں بانٹ دیا گیا اور تلنگانہ ریاست وجود میں آئی۔ ہمارے ہاں کراچی‘ پشاور‘ لاہور اور کوئٹہ خزانے کے اوپر سانپ بن کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ڈی آئی خان اور بنوں والوں کو اپنے کاموں کے لیے پشاور جانا پڑتا ہے۔ کوہستان اور مانسہرہ والوں کو بھی۔ بہاولپور والے لاہور کے محتاج ہیں۔ (تحریک انصاف نے جنوبی پنجاب کا وعدہ پورا نہیں کیا ) جیکب آباد سے بس میں کراچی جانا ہو تو آٹھ دس گھنٹے لگتے ہیں۔ انتظامی بنیادوں پر شمالی سندھ اور مشرقی سندھ کے نئے صوبے بنانے میں کیا نقصان ہے ؟ ہزارہ کو پشاور کے ساتھ باندھ کر کیوں رکھا جا رہا ہے؟ چترال‘ دیر اور سوات پر مشتمل نیا صوبہ کیوں نہیں بنایا جا سکتا؟ اٹک‘ میانوالی‘راولپنڈی مری‘ چکوال اور جہلم کو اپنے نیچے رکھنے میں تخت لاہور کا کیا مفاد ہے ؟ ان اضلاع پر مشتمل الگ صوبہ کیوں نہیں بن سکتا؟
ایک طالب علم کے ذہن میں جو سوالات اٹھتے ہیں‘ انہیں دبایا تو جا سکتا ہے‘ ختم نہیں کیا جا سکتا۔ہاں ! ایک صورت ہے کہ سوچنے پر پابندی لگا دی جائے ! اور کوئی سوچتا ہوا پکڑا جائے تو اسے سخت سزا دی جائے !
No comments:
Post a Comment