Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, December 17, 2019

To be or not to be that is the question

آئی سی (اسلامی کانفرنس) ایک مردہ گھوڑا ہے۔ مہاتیر محمد اگر نہ اُٹھتے تو کسی اور نےجلد یا بدیراٹھنا ہی اٹھنا تھا۔ یہی تاریخ کا طریقِ کار ہے۔

او آئی سی کیا ہے؟ ایک مخصوص خطے کے حکمرانوں کی کنیز! عالمِ اسلام پر جب کوئی مصیبت نازل ہوئیاو آئی سی نے چہرے کو دبیز کپڑے سے ڈھانکاکروٹ بدلی اور سو گئی!نظیری نیشاپوری نے کہا تھا ؎

خورشیدِ عمر برسرِ دیوار و خفتہ ایم

فریاد بردرازئی خوابِ گرانِ ما 

سورج سر پر آ پہنچا اور ہم ہیں کہ سو رہے ہیں...! اتنی گہری اور لمبی نیند...! فریاد ہے فریاد...!)

کشمیر جنت نظیر پر ایک کے بعد دوسری ابتلا آ رہی ہے۔ بھارت میں دہشت گرد مودیموذی بن چکا ہے۔ آسام میں لاکھوں مسلمانوں کو بے وطن قرار دے کر کیمپوں میں دھکیلنے کی تیاری زور پکڑ چکی ہے۔ یہ ابتدا ہے۔ اس کالم نگار نے مہینوں پہلے شور مچایا تھا کہ کیرالہ اور شاید مشرقی پنجاب کو چھوڑ کرآسام کا کھیل تمام ریاستوں میں دہرایا جائے گا۔ اس ساری بربریت کے دوران او آئی سی نے کیا کیا؟ اُمت کہاں ہے؟ مسلمان ملکوں میں سے کسی نے چُوں تک نہیں کی! پاکستان کی حمایت کا سوال نہیںاسلامی غیرت کا سوال تھا! کوئی نہ بولا! طرہ یہ کہ بھارت کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھائی گئیں! کشمیری مسلمانوں کے خون سے رنگی ہوئی دھرتی پر پائوں رکھ کر سرمایہ کاری کے وعدے وعید ہوئے! مندر کا افتتاح اس زور و شور سے ہوا کہ آنکھیں شرم سے جھُک گئیں۔ عبادت گاہہر مذہب کے پیروکاروں کا حق ہےمگر تھال اٹھا کر ملازموں کی طرح کھڑے رہنا؟

حلبدمشقرقّہ اور کئی دوسرے شہروں پر قیامتیں گزریں۔ او آئی سی سوئی رہی! روہنگیا کے مسلمان مظلوموں کی چیخیں آسمان تک پہنچیںاو آئی سی کے کانوں میں روئی ٹھُنسی رہی! مسلمان نہیںیہ تاریخ ہےجو مایوس ہوئی! تاریخ کسی کی داشتہ ہےنہ ملازم! تاریخ اپنا راستہ خود بناتی ہے! تاریخ دوراہے پر تھی۔ وہاں اسے مہاتیر اور اردوان نظر آئے۔ اس نے یہ ذمہ داری اُن کے سپرد کر دی! تاریخ کی مجبوری تھی! محسن بھوپالی کی غزل کو شہرۂ آفاق بنانے والی گل بہار بانو نےجو سنا ہے بُرے حال میں ہےمجبوری کا فلسفہ گھر گھر سمجھایا :؎

روک سکو تو پہلی بارش کی بوندوں کو تم روکو

کچی مٹی تو مہکے گیہے مٹی کی مجبوری

پاکستان کے وزیراعظم نے جب اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کا مقدمہ پیش کیا تو خوفناک سناٹا تھا۔ اس سناٹے میں دو... جی ہاں... صرف دو آوازیں بلند ہوئیں۔ یہ کوئی معمولی ہم نوائی نہ تھی! آسان بھی نہ تھی! یہ اردوان اور مہاتیر تھےجنہوں نے کھل کر پاکستان کا ساتھ دیا اور کشمیر کا نام لے کر ظالم کی مذمت کی! چین نے بھی موافقت کی مگر اس وقت بات مسلمان ملکوں کی ہو رہی ہے!

اباس حقیقت میں کوئی شک و شبہ نہیں رہا کہ شرقِ اوسطعالمِ اسلام کی رہنمائی کرنے سے قاصر ہے! آمریت کی اپنی مجبوریاں ہیںپھر امریکہ کے ساتھ غیر اعلانیہ اتحاد! کچھ دوسرے مسائل جن کا یہاں ذکر شاید مناسب نہ ہو! ؎

افسوس! بے شمار سخن ہائے گفتنی

خوفِ فسادِ خلق سے ناگفتہ رہ گئے

گزشتہ صدی کے تیسرے عشرے میں برِّصغیر مسلمان لیڈروں سے خالی نہ تھامگر سب دوسری صف کے تھے! اقبالؔ نے پیش گوئی کی؎:

می رسد مردی کہ زنجیرِ غلاماں بشکند

دیدہ ام از روزنِ دیوارِ زندانِ شما

میں تمہارے قید خانے کی دیوار میں بنے روزن سے دیکھ رہا ہوں! تمہیں غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرانے والا بطلِ جلیل آیا ہی چاہتا ہے!)

پھر ایک پہلی صف کافرسٹ ریٹلیڈر آیا۔ یہ قائداعظمؒ تھےآئینے کی طرح شفاف کردار کے مالک! فولادی عزم رکھنے والےجنہوں نے یہ زنجیریں توڑیں!

اباردوان اور مہاتیرافق سے ابھرنے والے سورج کی طرح لگ رہے ہیں۔ تاریخ منتظر ہے کہ پاکستان کے وزیراعظم اس نئی لیڈر شپ میں شامل ہوں۔

23 نومبرکو مہاتیر محمد نے اعلان کیا کہ 19 سے 21 دسمبر تک وہ مسلمانوں ملکوں کے ایک اجلاس کی میزبانی کریں گے۔ ان کے ذہن میں جو مسائل کلبلا رہے ہیںان میں سرِفہرست مسلمان ملکوں کی پسماندگی ہے۔ کچھ مسلمان ممالک تو باقاعدہ ''ناکام‘‘ ریاستوں کی فہرست میں گنے جاتے ہیں۔ مہاتیر کہتے ہیں کہ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ یہ وجہ جاننا ہوگی۔ اور یہ وجہ اُسی وقت معلوم ہوگی جب مسلمان ملکوں کے رہنماسکالر اور تھنکر سر جوڑ کر بیٹھیں گےپھر خوراک کا مسئلہ ہے۔ دولت کی تقسیم نو کا بکھیڑا ہے۔ اسلاموفوبیا کا قضیہ ہے۔مسلمانوں کی بے وطنی ایک اور مسئلہ ہے۔اقتصادی ترقی اور قومی سکیورٹی کے باہمی تعلق کا ایشو ہے۔ یہ وہ مسائل ہیںجن پر غور کرنے کے لیے کوئی ایک بھی تنظیمآرگنائزیشنمجلسادارہ موجود نہیں! مہاتیر کو امید ہے کہ ترکی کے اردوانانڈونیشیا کے جوکو ودودوقطر کے امیر تمیم بن حماد ثانی اور پاکستان کے عمران خان بنفسِ نفیس شرکت کریں گے۔ باون ملکوں سے ساڑھے چار سو کے قریب رہنماسکالر اور علما ان کے علاوہ متوقع ہیں۔

جن ممالک کے سربراہوں کی شمولیت متوقع ہےان کے ناموں سے صاف ظاہر ہے کہ ظاہری اور زیریں دھارے (currents and under currents)کیا ہیں؟ مایوسی کِن سے ہے؟ نئے شہر بسانا اُس وقت ناگزیر ہو جاتا ہےجب پرانے شہر مسائل کا گڑھ بن جائیں اور باشندوں کی مشکلات کا حل تلاش نہ کر سکیں؎

کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد

مری نگاہ نہیں سوئے کوفہ و بغداد

شیکسپیئر نے ہیملٹ کے منہ سے کمال کا فقرہ کہلوایا:

"To be, or not to be, that is the question"

چنانچہ ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان ملائیشیا کے اس اجلاس میں خود شریک ہوں گے یا اپنی نمائندگی کا فرض کسی اور کو سونپ دیں گے؟

وزیراعظم کا مشرق وسطیٰ کا حالیہ دورہ بہت کچھ بتا رہا ہے! آہ! اقتصادی احتیاج ملکوں کے ہاتھ پائوں باندھ دیتا ہے؎

آنکہ شیران را کند روبہ مزاج

احتیاج و احتیاج و احتیاج 


احتیاج اور دوسروں پر انحصار شیروں کو لومڑیوں میں بدل دیتا ہے!)

قومی آمدنیقومی پیداوار اور فی کس آمدنی کے اعتبار سے پاکستانترکی اور ملائیشیا دونوں سے پیچھے ہے۔ وہ جو کسی نے فرد کے حوالے سے کہا تھاقوموں پر بھی صادق آتا ہے؎

اے زر! تو خدا نہ ای و لیکن بخدا

ستّارِ عیوب و قاضی الحا جاتی!

(پیسہ خدا تو نہیںمگر خدا کی قسم عیب ڈھانکتا ہے اور ضروریات پوری کرتا ہے!)

حالت ہماری یہ ہے کہ سابق وزیراعظم کسی ملک سے جہاز مانگ کر لندن سدھارتے ہیں تو سابق صدر کسی بادشاہ کے دیئے ہوئے عطیے سے رہائش گاہیں خریدتے ہیں۔ وقت کا حکمران کسی دوسرے حکمران کے ذاتی جہاز کا مرہونِ احسان ہے! کشکول لے کر دربدر ہم پھر رہے ہیں۔ کوئی اس میں تیل ڈال کر کہتا ہےادائیگی بعد میں کر دینا! کوئی یوآن ڈالتا ہے کوئی لیرےکوئی درہم اور کوئی دینار! درآمدات ہماری زیادہ ہیں برآمدات کم! اہلِ سیاست لندن اور دبئی میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اُس ملک کی کیا عزت ہوگیجس کے حکمرانوں کی اولادیں سینہ تان کر کہتی ہوں کہ ہم پاکستانی نہیں بدیسی ہیں!

دوسروں سے اجازت لے کرکانفرنسوں میں شریک ہونے کا فیصلہ کرنا!! انا للہ وانا الیہ راجعون! ملک کی جو اندرونی حالت ہےاس کے پیشِ نظر اس میں اچنبھا بھی کیا ہے؟ سرمایہ بھاگ بھاگ کر باہر جا رہا ہےتاجر ٹیکس ادا کرنے کے بجائے ایف بی آر کو ناکوں چنے چبوا رہے ہیں۔ لا اینڈ آرڈر کی حالت یہ ہے کہ سینکڑوں وکیلحساس ترین ہسپتال کی طرف

لشکر بن کر مارچ کرتے ہیں اور پولیس نظر نہیں آتی! کل اِس حملے کے نتیجے میں چوتھا مریض بھی جاں بحق ہو گیا اور ایک معروف وکیل رہنما ٹیلی ویژن پر معصومیت سے پوچھ رہے تھے کہ ہم نے کیا کیا ہے؟ معاشرہ جنگل بن چکا ہےمجرموں کو چھڑوانے کے لیے سرِ عام دبائو ڈالا جاتا ہے۔

دنیا کی قوموں میں عزت اُن ملکوں کی ہے جو اندرونی استحکام سے مالا مال ہوں۔ جن کی معیشت کسی کی دست نگر نہ ہو۔ جو ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے زر خریدنہ ہوں۔ جن میں مجرم وکیل ہوں نہ ڈاکٹر! ایم این اے ہوں نہ بزنس ٹائی کون! صرف اور صرف مجرم ہوں!

کاش ہمارے ہاتھ پائوں بندھے نہ ہوتے اور وزیراعظم ڈٹ کرایک نئے اتحاد کی بنیاد رکھنے میںمہاتیر اور اردوان کے ساتھ دھڑلے سے شامل ہو سکتے! ایک نیا با معنی اور تعمیری اتحاد وجود میں آتا!


No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com