2007ء میں سعیدہ وارثی برطانوی پارلیمنٹ کی رکن بنی تو پاکستان میں گھی کے چراغ جلائے گئے۔ اُس معاشرے کی تو کسی نے تعریف نہ کی جس نے سعیدہ کو پارلیمنٹ کا ممبر بنایا اور قبول کیا۔ ہاں اس حقیقت کا پاکستان میں زور و شور سے چرچا ہوا کہ اُس کا والد بس ڈرائیور تھا اور فیکٹری میں بطور ورکر کام کرتا رہا۔
2016ء میں ایک اور پاکستانی نژاد لندن کا مئیر منتخب ہو گیا۔ یہ صادق خان تھا۔ اس بار پھر پاکستان میں مسرت کی لہر دوڑ گئی۔ صادق خان کی لائف ہسٹری اخبارات میں نمایاں طریق سے شائع ہوئی۔الیکٹرانک میڈیا پر خوشیاں منائی گئیں۔
2018ء میں اہلِ پاکستان کو ایک اور زبردست ''کامیابی‘‘ نصیب ہوئی۔ اب کے پاکستانی نژاد ساجد جاوید برطانیہ کا وزیر داخلہ بن گیا۔ پاکستانیوں کی اسلامیت کی رگ خوب خوب پھڑکی۔ خوب چرچے ہوئے۔ اس اہم وزارت پر ایک مسلمان کا، وہ بھی پاکستانی نژاد کا انتخاب! اسے پاکستان کی فتح قرار دیا گیا۔
مزے کی بات یہ ہے کہ تینوں افراد‘ سعیدہ وارثی، صادق اور ساجد جاوید پاکستانی نہیں تھے‘ پیدائشی برطانوی تھے۔ سعیدہ وارثی یارک شائر میں پیدا ہوئیں‘ صادق خان لندن میں اور ساجد جاوید شمال مغربی انگلستان میں مگر چونکہ انکے آبائو اجداد کا تعلق پاکستان سے تھا‘ اس لیے یہ کامیابیاں ہم نے اپنے کھاتے میں ڈالیں۔
2015ء میں برطانیہ میں عام انتخابات ہوئے۔ پاکستانی میڈیا میں ایک بار پھر زلزلہ آ گیا۔ تیرہ مسلمان پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ گزشتہ ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ 2010ء کے انتخابات میں کل آٹھ مسلمان منتخب ہوئے تھے۔ اب کے تیرہ مسلمان جیتے۔ یہ تمام فتوحات اسلام اور پاکستان کے سر پر سجائی گئیں! تعجب کی بات یہ ہے کہ سارا کریڈٹ ان منتخب افراد کو دیا گیا۔ بس ڈرائیور کی بیٹی اور دارالامرا کی رکن! بس ڈرائیور کا بیٹا اور لندن کا مئیر! فلیٹ میں رہنے والے معمولی دکاندار کا بیٹا اور برطانیہ کا وزیر داخلہ! سبحان اللہ! سبحان اللہ!!
منافقت کی دیمک سے کھائے ہوئے اس معاشرے میں پھوٹے منہ بھی کسی نے اُس سوسائٹی کی تعریف نہ کی جس نے سارے مذہبی اور نسلی تفاوت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان افراد کو، جو سفید فام تھے نہ عیسائی،اعلیٰ مناصب کیلئے منتخب کیا! شہنائیاں بجاتے وقت، ایک لمحے کیلئے بھی ہم اپنے گریبان میں جھانکنے کو تیار نہ ہوئے! اس بات کو تو چھوڑ دیجیے کہ ایک ہندو یا عیسائی بس ڈرائیور یا معمولی دکاندار کی بیٹی یا بیٹا پاکستانی سینیٹ کا رکن بنے یا کراچی یا لاہور کا مئیر بنے یا وزیر داخلہ! بس ڈرائیور اگر مسلمان ہو، تب بھی اُس کے بچے کا کوئی چانس نہیں!
منافقت میں ہمیں سو میں سے سو نمبر ملنے چاہئیں۔ تازہ ترین مثال کل کی خبر ہے! تازہ ترین خبر! وزارت داخلہ یا مئیرشپ یا سینیٹ کی رکنیت کا کیا سوال ، ہم تو کرکٹ ٹیم میں کسی غیر مسلم کو کھلے ماتھے نہیں برداشت کر سکتے۔ مشہور کرکٹر شعیب اختر نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستانی ٹیم کا ہندو رکن دانش جب کھانے کی میز پر آتا تو ٹیم کے کئی کھلاڑی اس کے ساتھ کھانا کھانے سے گریز کرتے۔ اس بیان سے دانش کو حوصلہ ہوا اور اس نے خاموشی کا قفل توڑتے ہوئے بتایا کہ شعیب اختر، انضمام الحق، یونس خان اور محمد یوسف کے علاوہ اسے کسی کھلاڑی سے عزت اور سپورٹ نہیں ملی! دانش کہتا ہے کہ اس میں اتنا بھی حوصلہ نہیں تھا کہ اس سلوک کا ذکر کرتا۔ شعیب اختر نے بات چھیڑی تو اسے بھی جرأت ہوئی۔ اس نے کہا کہ وہ جلد ان تمام کھلاڑیوں کے نام بتائے گا جو اُس سے صرف ہندو ہونے کی وجہ سے نفرت کرتے تھے۔ انضمام منع کرتے تھے کہ مذہب کی بنیاد پر کسی کھلاڑی سے نفرت نہیں کرنی چاہیے‘ دانش پاکستان کے لیے کھیلتا ہے، اس سے بڑا اعزاز کوئی نہیں!
یہ ہے ہماری پستی، ہماری منافقت اور ہمارے دوغلے رویے کی مثال! جب کوئی مسلمان، کسی غیر مسلم ملک میں وزیر بنے تو ہم خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔ مگر اپنے ملک میں کرکٹ ٹیم کی رکنیت بھی برداشت نہیں کر سکتے۔ پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگتے ہیں! غیرت جاگ اٹھتی ہے! وہ تو خدا کا شکر ہے کہ شعیب اختر، انضمام الحق، یونس خان اور محمد یوسف جیسی ایک اقلیت اس ملک میں موجود ہے۔
منافقت کی انتہا دیکھیے کہ غیر مسلم ملازموں کے لیے اکثریت کے گھروں میں یہاں برتن تک الگ رکھے جاتے ہیں! یہی پاکستانی جب ولایت جاتے ہیں تووہاں کے ریستورانوں میں کھانا کھاتے وقت سوچتے تک نہیں کہ جن برتنوں میں کھا رہے ہیں ان میں غیر مسلم بھی کھاتے رہے ہیں۔ پکانے والے بھی غیر مسلم! کل ہی سوشل میڈیا پر کسی نے لکھا ہے کہ ایک صاحب قسطوں پر الیکٹرانک اشیا فروخت کرتے ہیں۔ اس قصے کا راوی ان کے پاس بیٹھا تھا۔ دو غیر مسلم آئے کہ ان سے قسطوں پر کوئی شے خریدنا چاہتے تھے۔ دکاندار ان سے مذہبی بحث کرنے لگا۔ تنگ آ کر انہوں نے کہا کہ بھائی! ہم تمہارے گاہک ہیں۔ شے بیچنی ہے تو بیچو! راوی نے دکاندار کو سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ اپنے رویے پر اڑا رہا!
ہم پاکستانیوں کو اُس وقت بھی شرم نہیں آتی جب مشرق وسطیٰ میں ہمارے مسلمان بھائی ہمیں جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں! مسکین کا خطاب دیتے ہیں! یلّا یلّا کہہ کر دھکے دیتے ہیں! بیت الخلا میں بھی پاسپورٹ کے بغیر جانے کی ہمت کوئی نہیں کرتا۔ نسلیں ان ملکوں میں کام کرتے کرتے بوڑھی ہو گئیں۔ کفیل کے بغیر سانس لینے کی اجازت نہیں! یہی وجہ ہے کہ ''کفار‘‘ کے ملکوں میں اس وقت ایک محتاط اندازے کے مطابق پانچ کروڑ سے زیادہ مسلمان آباد ہیں۔ کسی مسلمان ملک میں اتنی مذہبی آزادی خود مسلمانوں کو نہیں جتنی امریکہ، کینیڈا، یورپ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں ہے! مسجدوں کا شمار نہیں! کاروبار ان کے اپنے نام پر ہیں! بڑے بڑے مکانوں کے یہ مالک ہیں! کمپنیوں کے سربراہ ہیں! پارلیمنٹ کے رکن ہیں! سکولوں میں خیال رکھا جاتا ہے کہ ان کے بچوں کو ایسی خوراک نہ دی جائے جسے یہ ناجائز کہتے ہیں!
یہ سب کچھ خود ہمارے ہاں ناقابلِ تصور ہے! کوئی غیر مسلم، مسلمان ہو جائے تو اسے رشتہ کوئی نہیں دیتا۔ وہ وہی رہتا ہے جو مسلمان بننے سے پہلے تھا! ایک معروف عالم دین اپنے ساتھ ہونے والا واقعہ بیان کرتے ہیں۔ ایک عمر رسیدہ صاحب، پچاس پچپن سال پہلے غیر مسلم سے مسلمان ہوئے۔ انہوں نے قرآن پاک کے مختلف تراجم کو سامنے رکھ کر قرآن پاک کا منظوم ترجمہ کیا۔ ان مولانا صاحب سے انہوں نے اس کی تقریظ لکھنے کی فرمائش کی! مولانا کو ان کا غیر مسلم پس منظر معلوم تھا۔ انہوں نے پوری تحقیق کر کے، مقامی علما سے رہنمائی لے کر، تقریظ لکھی۔ اس کے بعد جو ہوا، وہ مولانا ہی کے الفاظ میں سنیے ...''اس پر بعض دوستوں کی جانب سے اعتراض ہوا کہ میں نے ایک غیر مسلم کی تفسیر پر تقریظ لکھ دی ہے۔ صرف اعتراض نہیں ہوا۔ ملک بھر میں اس کی خوب تشہیر کی گئی۔ مختلف شہروں سے مجھے فون آنے لگے بلکہ عام حلقوں میں تقسیم کیے جانے والے ایک پمفلٹ میں اس کا ذکر کیا گیا‘‘۔ آگے چل کر مولانا لکھتے ہیں کہ مہم زور پکڑتی گئی۔ حکومت پنجاب کے قائم کردہ ''متحدہ علما بورڈ‘‘ کو درخواست دی گئی۔ پھر پاکستان شریعت کونسل تک بات پہنچائی گئی اور مولانا کو اپنے مؤقف پر نظر ثانی کے لیے کہا گیا۔ یہ اور بات کہ مولانا اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے‘ اس لیے کہ منظوم ترجمہ کرنے والا شخص پچاس سال سے مسلمان تھا اور پورے شہر کو معلوم تھا کہ وہ مسلمان ہے!
اس مائنڈ سیٹ کے ساتھ ہم بی جے پی پر کیسے اعتراض کر سکتے ہیں؟ فرق صرف یہ ہے کہ وہ کھلم کھلا قتل و غارت پر اتر آتے ہیں جب کہ ہم نفرت کا آتش فشاں اپنے اندر پالتے رہتے ہیں۔ یو پی کے متعصب چیف منسٹر ادتیا ناتھ پر ہمیں اعتراض ہے کہ وہ شہروں کے مسلمان نام بدل رہا ہے۔ خود ہم نے کیا کیا؟ کیا ہم نے انگریزی نام رہنے دیئے؟ فیصل آباد کا نام لائل پور تھا۔ پنجاب کے گورنر سرجیمز براڈ وُڈ لائل نے اسے بسایا تھا۔ ہم نے یہ نام ہٹا کر، نام کو مسلمان کر دیا۔ کیمبل پور شہر کی بنیاد 1908ء میں اُس وقت کے کمانڈر انچیف سر کولن کیمبل نے رکھی۔ ہم نے یہ نام بھی مسلمان کر لیا۔ اعتراض ہم ادتیا ناتھ پر کرتے ہیں!!؎
تمہاری زلف میں پہنچی تو حُسن کہلائی
وہ تیرگی جو مرے نامۂ سیاہ میں تھی!
شعیب اختر کا بھلا ہو، اس کی وجہ سے دانش کو بات کرنے کا حوصلہ ہوا۔ یہاں کتنے ہی دانش امتیازی سلوک برداشت کر رہے ہیں مگر خاموش ہیں۔
No comments:
Post a Comment