جب بھی سولہ دسمبر آیا‘ نوحہ خوانی کی!اس بار ضبط کیا۔ اس لیے کہ ؎
کب تلک پتھر کی دیواروں پر دستک دیجیے
تیرے سینے میں تو شاید کوئی دروازہ نہیں
سولہ دسمبر آیا‘ گزر گیا۔ کیسے کیسے فلسفے پڑھنے کو ملے۔ کیسی کیسی وجوہ اس سانحہ کی سننے میں آئیں۔ الامان والحفیظ! ان دنوں سوشل میڈیا پر ایک عامیانہ‘ بھونڈا سا مزاح گردش کر رہا ہے کہ جسے گھر والے دوسری بار سالن نہیں دیتے ‘وہ بھی فلاں فلاں پر تنقید کر رہا ہے۔ سقوط ڈھاکہ کا بھی یہی حال ہے۔ سقوط ڈھاکہ ایک سانحہ تھا۔ اس سے بڑا سانحہ یہ ہے کہ جن بزرجمہروں کو بنگلہ دیش (یا مشرقی پاکستان) کا حدود اربعہ تک نہیں معلوم‘ وہ بھی سقوط ڈھاکہ کا فلسفہ بگھارنے میں اپنے آپ کو ابن ِخلدون سے کم نہیں گردانتے ؎
ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوئہ اہلِ نظر گئی
احسن اقبال سے کئی اختلافات ہیں‘ مگرایک بات ان کی دل کو لگتی ہے کہ جنرل پرویز مشرف والا فیصلہ پچاس برس پہلے آ جاتا تو پاکستان دو لخت نہ ہوتا۔ چلئے الگ ہو بھی جاتا تو یوں شکست اور رسوائی نہ ہوتی۔ قتل و غارت نہ ہوتی۔ سیاست دان شاید عقل کو بروئے کار لاتے۔ پارلیمنٹ فیصلہ کرتی اور بریگزٹ (Brexit)قسم کا پرامن بٹوارا ہوتا۔
ڈھاکہ یونیورسٹی کی لائبریری چوبیس گھنٹے کھلی رہتی۔ اُس وقت مغربی پاکستان کی کسی یونیورسٹی میں چوبیس گھنٹے کھلی رہنے والی لائبریری کا کوئی تصور نہ تھا۔ آج بھی نہیں ۔ ڈھاکہ یونیورسٹی میں ہنگامے بھی ہوتے‘ ہڑتالیں بھی‘ مگر جو طلبہ پڑھاکُو تھے‘ اُن کی مثال کوئی نہیں تھی۔ صبح تین بجے بھی لائبری بھری ہوتی‘ ایسی ہی ایک شام تھی۔ میں لائبریری میں بیٹھا انٹرنیشنل ٹریڈ کی کسی کتاب سے سر مار رہا تھا۔ باہر لیچی اور املی کے پیڑ جھوم رہے تھے۔ اُن کے پتوں کا عکس لائبریری کی کھڑکیوں کے شیشوں پر پڑ رہا تھا ہلکا سا کھٹکا ہوا۔ سامنے میرا بنگالی کلاس فیلو کھڑا مسکرا رہا تھا۔''اظہار! چائے پینے نہ چلیں‘‘
اُس نے اُسی سٹائل سے کہا‘ جس سے وہ کلاس روم میں پروفیسروں سے مشکل مشکل سوال پوچھا کرتا! مجھے بہانہ چاہیے تھا‘ بریک کے لیے۔
''چلو چلتے ہیں‘‘ میں نے کہا۔
ہم مادھو کی کینٹین میں جا بیٹھے ۔کہاوت یونیورسٹی میں یہ مشہور تھی کہ جس نے مادھو کی کینٹین سے اتنے کپ چائے نہ پی اور اتنے سموسے نہ کھائے‘ اُسے ڈگری نہیں ملے گی۔ مادھو کینٹین کی تاریخ بھی عجیب ہے اور دلچسپ! درد ناک بھی! مادھو اپنے باپ کے ساتھ کہیں سے ہجرت کر کے آیا اور 1921ء میں چائے اور کھانے پینے کا سامان فروخت کرنا شروع کیا۔ ابتدا میں یہ کینٹین اُس عمارت میں تھی جو بعد میں (ہمارے زمانے میں) میڈیکل کالج بنا۔ جب نیل کھیت میں یونیورسٹی کی نئی آرٹس بلڈنگ بنی تو کینٹین وہاں منتقل ہو گئی۔ یہ وہی آرٹس بلڈنگ ہے‘ جس کے حوالے سے ایک مغربی پاکستانی طالب علم نے کہا تھا ؎
آرٹس بلڈنگ کے چھلکتے ہوئے برآمدوں میں
کاش اُس نے بھی کسی دن مجھے ڈھونڈا ہوتا
مادھو کینٹین‘ ڈھاکہ یونیورسٹی کی ثقافتی تاریخ کا جزو لانیفک رہی۔ سٹوڈنٹ لیڈر یہیں بیٹھتے۔ سنجیدہ کتابی کیڑوں کا ٹھکانا یہی تھی۔ تحریکوں کا گڑھ یہیں تھا۔ بنگالی زبان کی تحریک تھی یا طلبہ کے دیگر مطالبات‘ سرگرمیوں کا مرکز مادھو کی کینٹین ہی ہوتی۔ بنگالی میں اسے مادھور (یعنی مادھو کی) کینٹین کہا جاتا تھا۔ 1971ء میں ملٹری ایکشن ہوا تو مادھو بھی مارا گیا۔ اس دلخراش خونی داستان کی تفصیل کا یہ موقع نہیں! مختصر یہ کہ مادھوکی بیوی‘ بیٹی اور داماد بھی قتل کر دیے گئے۔
بعد میں کینٹین کو دوبارہ آباد کیا گیا۔ سنا ہے اب ‘یہ اُس عمارت میں واقع ہے جہاں 1906ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کی تشکیل ہوئی تھی!
ہم مادھوکی کینٹین میں جا بیٹھے۔ دو چائے کے کپ اور دو سموسے! اور بے شمار باتیں! یہ ناممکن تھا کہ اُس زمانے میں (1967-70ء)دو طالب علم اکٹھے ہوں اور بات مرکزی حکومت‘ مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کی نہ ہو! قصّہ وسائل کی تقسیم کا تھا۔ پاکستان ٹائمز اُس زمانے کا معروف انگریزی روزنامہ تھا۔ اُس نے اپنے اداریے میں اس حقیقت کا اعتراف کیا تھا کہ مشرقی پاکستان کا کمایا ہوا زرِمبادلہ مغربی پاکستان میں خرچ ہو رہا تھا۔ حکومت کرنے مشرقی پاکستانی‘ مغربی پاکستان نہیں آتے تھے ‘بلکہ مغربی پاکستان سے بیورو کریٹ مشرقی پاکستان جایا کرتے۔ اچانک سامنے بیٹھا ہوا میرا کلاس فیلو اپنے کپ پر جھکا اور مجھے کہنے لگا: ''اظہار! مجھے صرف ایک بات بتا دو! دس برس ہو گئے ہیں‘ ایوب خان کو حکومت کرتے! اگر پاکستان پر جرنیلوں ہی نے حکومت کرنی ہے تو ہماری باری کس طرح آئے گی؟ بنگالی تو کوئی جرنیل ہے ہی نہیں!‘‘۔
میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہ تھا۔ کسی کے پاس نہ تھا! آج بھی نہیں -ایوب خان جاتے جاتے ملک پر یحییٰ خان‘ ایک اور جرنیل مسلط کر گیا‘ جس نے مشرقی پاکستان کو‘ الیکشن میں اکثریت حاصل کرنے کے باوجود‘ ان کا حق نہ دیا۔ اسمبلی کا اجلاس ہی نہ ہونے دیا! وہ کس کے ہاتھوں میں کھیل رہا تھا۔ کس کی معیت میں اندرون سندھ کی شکار گاہوں کو ماپ رہا تھا۔ یہ سارے سوالات ضمنی ہیں! برہنہ حقیقت ایک ہی ہے کہ ایک عسکری آمر برسراقتدار تھا۔ اقتدار کُلی اُسی کے ہاتھ میں تھا۔ وہ کوئی بچہ نہیں تھا کہ بھٹو نے یا کسی اور نے اسے ورغلایا یا مجبور کیا یا پھانس لیا۔
ایوب خانی دور میں معیشت بظاہر بہتر تھی۔ اکنامک indicators (اقتصادی اشارے) بھلے لگتے تھے‘ مگر وہ لاوا جو اندر ہی اندر پک رہا تھا؟ عدم اطمینان کی وہ شدید کیفیت جو مشرقی پاکستانیوں کے ذہنوں میں کلبلا رہی تھی؟ ایک غیر معروف وکیل عبدالمنعم خان کو وہاں کا گورنر بنا دیا (یہ اُس زمانے کا بزدار تھا!!) اُس کے بارے میں جو لطیفے مشہور تھے‘ ان سے اس کی اصیلت کا پتہ چلتا تھا‘ مثلاً :اُس نے ڈھاکہ ایئر پورٹ پر صدر ایوب خان کا استقبال کیا۔ گلے ملتے وقت ایوب خان کو کچھ چُبھا۔ معلوم ہوا عبدالمنعم خان نے قمیص کے نیچے کچھ چھپایا ہوا ہے۔ تلاشی لی گئی تو دیکھا گیا کہ اس نے ایوب خان کی تصنیف فرینڈز ناٹ ماسٹرز سینے سے لگائی ہوئی تھی!
پھر ایوب خان نے 'عشرئہ ترقی‘‘ منانے کا ڈول ڈالا۔ الطاف گوہر اس تصور کے بانیوں میں تھے! گنگا اور میگنا کے دریاؤں میں چلتی ہوئی کشتیوں پر بڑے بڑے بینر لگوائے گئے‘ جن پر ''عشرئہ ترقی‘‘ لکھا ہوتا‘ مگر سینے تو داغ داغ تھے۔ عشرئہ ترقی کے جشن کیا کرتے ؎
زمیں پہ زائچے کہتے رہے کچھ اور مجھے
وہ آسماں پہ ستارے مرے بدلتا رہا
طرفہ تماشا یہ ہے کہ بنگالیوں کو آج بھی غداری کے طعنے دیے جاتے ہیں! افسوس! اپنے گریبان میں جھانکنے کے لیے ہم آج بھی آمادہ نہیں! خدا کے بندو! وہ تو اکثریت میں تھے۔ اکثریت کیسے الگ ہو سکتی تھی! ہم تعداد میں کم تھے! الگ ہونے کا فیصلہ تو ہم نے کیا۔ اُس دن کیا جب یحییٰ خان نے قومی اسمبلی کا ہونے والا اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا‘ تاکہ شیخ مجیب الرحمن وزیراعظم نہ بن سکے‘ جو اس کا قانونی‘ آئینی اور اخلاقی حق تھا! آج اسے غدار کہا جاتا ہے! ہاں! یہ وہی غدار ہے‘ جس نے فاطمہ جناح کے لیے صدارتی انتخابات میں شہر شہر گاؤں گاؤں گھر گھر جدوجہد کی! اور ہم جن کے ہاں فاطمہ جناح کو غدار کہا گیا‘ ہم محب وطن ٹھہرے! واہ! کیا معیار ہے! حب الوطنی اور غداری کے تمغے باٹنے کی کیا عمدہ مشین ہے‘ جو ہمارے ذہنوں میں آج بھی نصب ہے اور دھڑا دھڑ پیداوار دے رہی ہے!
ایک الزام یہ لگایا جاتا ہے کہ وہاں ہندو بہت تھے۔ انہوں نے پاکستان کے خلاف کام کیا! جھوٹ اور مکر و فریب کی کوئی حد ہوتی ہے! یہ ہندو اُس وقت کامیاب کیوں نہ ہوئے جب تحریک پاکستان میں بنگالی سب سے آگے تھے‘ ہمارے ہاں تو خاکسار بھی تھے۔ احرار بھی۔ جو تحریک پاکستان کے مخالف تھے۔ جمعیت علماء ہند تھی‘ جماعت اسلامی تھی جو کم از کم مسلم لیگ کے خلاف ضرور تھی! وہاں تو کوئی جماعت‘ کوئی گروہ‘ کوئی جتھاپاکستان کے خلاف نہ تھا! اُس وقت ہندو کیوں نہ کامیاب ہوئے؟
سولہ دسمبر آتا رہے گا! زخم ہرے ہوتے رہیں گے! کیا کوئی دسمبر ایسا بھی آئے گا‘ جب ہم اپنا محاسبہ کریں گے؟ اپنے گریبان میں جھانکیں گے؟ کیا ہر دسمبر میں ہم اپنے آپ کو پوتر اور دوسروں کو بھرشٹ ثابت کرتے رہیں گے؟ کیا ہماری معصومیت کا کوئی انت ہے؟
No comments:
Post a Comment