سوال دو روپے کا نہیں، سوال یہ ہے کہ ہمارا کوئی ضابطہ، کوئی قانون، کوئی اصول ہے یا نہیں؟
بِل جمع کرانے ملازم کو بینک بھیجا تو بتایا کہ ایک سو بارہ روپے واپس ملیں گے۔ وہ ایک سو دس روپے لایا۔ پوچھنے پر لاپروائی سے کہا کہ دو روپے اس کے پاس نہیں تھے۔ ملازم کے نزدیک بھی یہ ایک معمول کی کارروائی تھی!
بینک کی برانچ میں فون کیا۔ یہ منیجر صاحب خود تھے جنہوں نے شرفِ گفتگو بخشا۔ ان سے سوال سیدھا سادا پوچھا... اِس رہائشی کالونی میں تقریباً پانچ ہزار گھر آباد ہیں۔ سب پابند ہیں کہ اسی بینک میں کالونی کے بل جمع کرائیں۔ ہر بل سے دو روپے رکھیں تو کل رقم کم از کم دس ہزار ماہانہ بنتی ہے۔ اس سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے‘ کیونکہ دو روپوں کے بجائے پانچ روپے بلکہ دس روپے بھی رکھ لیں تو کسی کو احتجاج کی جرأت نہ ہو گی۔ منیجر صاحب سے پوچھا کہ دس ہزار یا زیادہ کی یہ رقم صرف کیشئر رکھتا ہے یا برانچ کے سارے ملازمین میں تقسیم ہوتی ہے؟
منیجر نے غلطی تسلیم کی۔ معذرت بھی کی‘ مگر ساتھ ہی اس نے ایک اور جملہ لڑھکایا اور وہی مسئلے کی جڑ تھی... ''جناب! ہمارے کلرک دو یا پانچ روپے رکھ لیتے ہیں مگر بل جمع کرانے والے بھی تو نہیں مانگتے! ذمہ داری دو طرفہ ہے۔ اگر سارے کلائنٹ اپنے حق کا مطالبہ کریں تو یہ رجحان ختم ہو سکتا ہے‘‘!
مگر ہم اپنے حقوق کا مطالبہ کیوں کریں؟ ہم پاکستانی دریا دل لوگ ہیں! پٹرول پمپ والا دس روپے رکھ لیتا ہے۔ ہم نہیں مانگتے۔ لوگ کیا کہیں گے! اتنا بُھکا ننگا ہے کہ دس، پانچ یا دو روپے مانگ رہا ہے!
دوسری طرف غور کیجیے، کیا کوئی بینک‘ کوئی پٹرول پمپ‘ کوئی دکاندار، دو یا پانچ یا دس روپے کم لینے پر کبھی راضی ہوا ہے؟ خود ایک ایک پائی پوری وصول کرتے ہیں!
قلابے ہم امریکہ، فرانس اور جرمنی کے ملاتے ہیں۔ روش ہماری افریقی قبائلیوں کی ہے! ہر وہ کام ہم کرتے ہیں جس کا ترقی یافتہ ملکوں میں تصوّر تک نہیں! کیا وہاں بھی کسی دکان میں لکھا ہوتا ہے کہ خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل نہ ہو گا؟ کیا وہاں بھی لاش شاہراہ کے درمیان رکھ کر ٹریفک روک دی جاتی ہے؟ کیا وہاں بھی میچ کی وجہ سے میٹرو بس بند کر دی جاتی ہے؟ کیا وہاں بھی دھرنوں کے سبب شہری محصور کر دیئے جاتے ہیں؟ یہاں تک کہ ہسپتالوں اور ہوائی اڈوں تک پہنچنا نا ممکن ہو جاتا ہے! کیا وہاں بھی چیف کمشنر، ڈی سی اور اے سی تک رسائی نا ممکنات میں سے ہے؟ کیا وہاں بھی ڈاکٹر دس بجے تشریف لا کر، گیارہ بجے چائے کے وقفے کے لیے چلے جاتے ہیں؟ کیا وہاں بھی ایئر پورٹوں پر غیر ملکیوں کے لیے مخصوص کائونٹروں کے سامنے بندھی قطاروں میں مقامی مسافر کھڑے ہوتے ہیں؟ کیا وہاں بھی بازار دن کے ایک بجے کھلتے ہیں اور رات بارہ بجے بند ہوتے ہیں؟ کیا وہاں بھی ہر نئی حکومت پچھلی حکومت کے شروع کیے ہوئے ترقیاتی اور فلاحی منصوبے جہاں ہیں وہیں روک دیتی ہے اور کوئی احتجاج نہیں کرتا؟ کیا وہاں بھی صنعت کار وزرا کے اپنے کارخانے بیرون ملک ہوتے ہیں؟
ہم اپنے آپ کو جو سٹیٹس چاہیں دے دیں، دنیا ہمیں وہی مقام دے رہی ہے، جس کے ہم مستحق ہیں! کل جس امریکی بیان میں ہمارے ایک معروف و مشہور پولیس افسر پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے پابندیاں عائد کی گئی ہیں اُس بیان میں ہمارے علاوہ بھی کچھ ممالک شامل ہیں۔ یہ ممالک سنگا پور، فرانس، جرمنی اور کینیڈا نہیں بلکہ کانگو، میانمار، لیبیا، جنوبی سوڈان اور سلواکیہ ہیں!
سُن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا
یہ کسر باقی تھی سو پوری ہو گئی! آج تک تو ہم دہشت گردی کے حوالے سے مشہور تھے! اسامہ بن لادن پکڑا گیا تو ہمارے ہاں! مُلا منصور مارا گیا تو پاکستان میں! اور تو اور پاکستانی تارکینِ وطن کے اپنے بچّے پاکستان نہیں آتے کہ خطرہ ہی خطرہ ہے! اب دنیا بھر میں ہماری شہرت نے نیا موڑ مڑا ہے کہ ہمارے ہاں پولیس مقابلوں میں ایک ایک پولیس افسر چار چار سو افراد مار دینے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے!ع
ایں کار از تو آید و مرداں چنیں کنند!
یہ ہے مردانگی اور بہادری! جس کا شہرہ اب چار دانگِ عالم میں پھیل رہا ہے!
بُرے ہم ہیں! بدنامی ملک کی ہو رہی ہے! ناکامی حکومتوں کی ہے! نام پاکستان کا بدنام ہو رہا ہے! جب پولیس ''مقابلوں‘‘ میں سینکڑوں انسان موت کے گھاٹ اتارے جا رہے تھے، وفاقی اور صوبائی حکومتیں دیکھ رہی تھیں! سیاسی جماعتوں کی ناک کے عین نیچے یہ سب کچھ ہو رہا تھا! سب کے اپنے اپنے مفادات تھے! سب منقار زیر پر تھے! کوئی سرپرست تھا تو کوئی منہ دوسری طرف کیے ہوئے تھا! آج پاکستان کا نام میانمار، کانگو اور جنوبی سوڈان کے ساتھ شامل ہو رہا ہے! ہم سب کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے! کیا مادرِ وطن کو اس کی ہوا‘ چاندنی، دھوپ‘ گندم اور پانی کے بدلے ہم یہ صلہ دے رہے ہیں؟ ؎
اے ماں! تجھے تو کوئی نہ خورسند رکھ سکا
فرزند گرچہ تو نے دیے تھے جنم بہت
تو پھر کیا ہم نا امید ہو جائیں؟ نہیں! حالیؔ نے مسدس میں خوب مرثیہ خوانی کی۔ بین کیا اور ایسا کہ سر سیّد سمیت پوری قوم روئی۔ مگر آخر میں ضمیمہ لکھا اور امید دلائی۔ ؎
بس اے نا امیدی نہ یوں دل بجھا تو
جھلک اے امید! اپنی آخر دکھا تو
حالی نے ایک نکتہ اس ضمیمے میں کمال کا بیان کیا۔ فرمایا کہ مرض بظاہر سارے مُزمِن (پرانے) ہیں مگر ان میں مہلک کوئی نہیں!
یہ جو کچھ پاکستان کے ساتھ ہو رہا ہے اس کی ذمہ دار پاکستانیوں کی اکثریت نہیں، ایک حقیر اقلیت ہے جو غلبہ پا چکی ہے! اسی ملک میں دیانت دار پولیس افسر اور اہلکار بھی موجود ہیں! اسی ملک میں فلاحی کام کرنے والے ادارے اور افراد کثیر تعداد میں دیکھے جا سکتے ہیں! ملک کی اکثریت مخلص اور دیانت دار لوگوں پر مشتمل ہے! افسوس صرف یہ ہے کہ جو کارکردگی دکھا سکتے ہیں وہ کونوں کھدروں میں چھپ کر عزت بچاتے پھرتے ہیں ؎
گُھٹ گُھٹ کے جہاں میں رہے جب میرؔ سے مرتے
تب جا کے یہاں واقفِ اسرار ہوئے ہم
اس ملک کے ساتھ سانحہ ہی یہ ہوا کہ جو حکومت بھی آئی، مخصوص ٹولوں میں گھِر گئی۔ مخلص جو بھی تھا، محرومِ توجہ رہا! سیاست دان تھا یا ٹیکنو کریٹ، سول سرونٹ تھا یا پولیس افسر، صنعت کار تھا یا ماہرِ زراعت، آئی ٹی کا ماہر تھا یا ماہرِ تعلیم، اگر خوشامد کے فن میں یدِ طولیٰ نہیں رکھتا تھا تو اُس سے فائدہ نہیں اٹھایا گیا! اور سوء اتفاق یہ ہے کہ بلا امتیاز ہر حکومت نے یہی رویہ رکھا۔ ناصر کاظمی نے کہا تھا ؎
کتنی مردم شناس ہے دنیا
منحرف بے حیا ہمی سے ہوئی
جو افراد، جو نجی ادارے اخلاص مند ہیں وہ اپنا اپنا کام کیے جا رہے ہیں۔ سرکاری سکول زوال پذیر ہوئے تو نجی شعبہ آگے بڑھا اور خلا پُر کیا۔ سرکاری ہسپتال مذبح خانوں میں تبدیل ہوئے تو پرائیویٹ ہسپتال کھل گئے۔ یہ سچ ہے کہ نجی شعبے نے ناروا سلوک بھی روا رکھا مگر اکثریت ایسی نہیں! ذمہ داری حکومتوں کی تھی کہ ان منتشر کوششوں کی تنسیق (Coordination) کرتی۔ نجی شعبوں کی ایک طرف حوصلہ افزائی کرتی، دوسری طرف قواعد و ضوابط کا اطلاق کر کے انہیں زیادتی سے روکتی مگر ایسا نہ ہوا۔ حکومتیں اپنے فرائض سے عہدہ برآ نہ ہو سکیں۔ وہ جو انور مسعود نے کہا تھا کہ ع
حکومتاں دی گل تو حکومتاں تے رہن دے
تو حکومتوں کا قصّہ حکومتوں پر کیا چھوڑیں! حکومتوں کو تو مسلسل نگرانی اور تنقید کی ضرورت ہوتی ہے۔ تبھی وہ سیدھی رہتی ہیں -اسی لیے تاریخِ اسلام کے اوائل میں ایک شہری نے حکمران کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ : آپ ٹیڑھے ہوئے تو ہم آپ کو تیر کی طرح سیدھا کر دیں گے اور حکمران نے اس بلند سیاسی شعور پر اللہ کا شکر ادا کیا تھا!
No comments:
Post a Comment