تلخ نوائی…………
یہ ایک خط تھا ‘جو اخبار میں چھپا‘ مگر یہ خط نہیں تھا؛ آئینہ تھا۔ اس میں ایک نہیں‘ دو تصویریں نظر آ رہی تھیں۔اس خط کو سمجھنے کے لیے اور اس آئینے میں دو تصویریں دیکھنے کے لیے آپ کو کالم نگار کے ساتھ بارہ سال پیچھے جانا پڑے گا۔
یہ لگ بھگ 2007ء کا زمانہ تھا۔ وفاقی حکومت کے ملازموں کو ریٹائرمنٹ پر قطعۂ زمین قیمتاً فروخت کرنے والے ادارے ''ہائوسنگ فائونڈیشن‘‘ نے پلاٹ الاٹ کیے۔ یہ پلاٹ سیکٹر جی چودہ ون‘ جی چودہ ٹو اور جی چودہ تھری میں الاٹ کیے گئے۔ ان ملازموں میں افسر‘ غیر افسر‘ سب شامل تھے۔ ان ملازموں کی اکثریت 2008ء میں ریٹائر ہو گئی۔ پلاٹ دینے کا مقصد یہ تھا کہ ریٹائرمنٹ پر یہ لوگ زمین کے ان ٹکڑوں پر چھتیں ڈال کر سر چھپانے کی پناہ گاہیں بنا لیں گے!
آپ کا کیا خیال ہے کہ یہ پلاٹ ان ملازموں کو مل گئے؟ انہوں نے گھر بنا لیے؟ نہیں! آپ کا خیال غلط ہے! جی چودہ ون اور ٹو میں تو ابھی تک وہ عمارتیں اور مکانات بھی قائم ہیں‘ جو منہدم ہونے تھے۔ رہا سیکٹر جی چودہ تھری‘ تو تا دمِ تحریر‘ ابھی تک وہاں بھی کوئی مکان نہیں بنا۔
2008ء تک ریٹائر ہونے والے ملازمین اب بہتّر بہتّر سال کے ہو گئے ہیں یا اس سے بھی زیادہ! کچھ افراد پلاٹوں کے قبضے کا انتظار کرتے کرتے قبرستانوں میں جا لیٹے‘ جو باقی ہیں‘ ان میں سے بہت سے لاٹھیوں پر چل رہے ہیں۔ کچھ کرائے کے مکانوں میں ہیں۔ کچھ اپنی آبائی بستیوں کو یہ کہہ کر پلٹ گئے؎
ہم انتظار کریں گے ترا قیامت تک
خدا کرے کہ قیامت ہو اور تو آئے
ایسے ہی ایک دل جلے نے تنگ آ کر اخبار میں خط لکھا اور مطالبہ کیا کہ ہائوسنگ فائونڈیشن اور یہ پلاٹوں کو خالی کرا کر دینے یا سرکاری ملازموں کیلئے مکان بنانے کا کام پاکستان آرمی کے سپرد کیا جائے!
پتا نہیں کسی ذمہ دار حکومتی فرد نے یہ خط پڑھا یا نہیں! قارئین کے خطوط اکثر و بیشتر یہ قارئین خودد ہی پڑھتے ہیں‘ مگر مطالبہ کرنے والا ہوا میں بات نہیں کر رہا تھا۔ فوج کے ملازم ہمارے ہی بہن بھائی اور بیٹے بھتیجے ہیں۔ جس زمانے میں سول ملازمین کے لیے ہائوسنگ فائونڈیشن بنی‘ لگ بھگ اسی زمانے میں فوجی ملازموں کے لیے یہ سلسلہ شروع ہوا اور ہائوسنگ ڈائریکٹریٹ بنی۔ فوجی ملازم اپنے اپنے جی پی فنڈ سے کٹوتیاں کرا کر رقم جمع کراتے۔ ریٹائرمنٹ پر انہیں ان کی حیثیت کے مطابق ‘مکان دے دیا جاتا۔ آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ تھوڑی بہت تاخیر کے باوجود‘ یہ حال فوجی ملازموں کا نہیں ہوا‘ جو وفاق کے سول ملازمین کا ہو رہا ہے!
ایک آنکھوں دیکھا واقعہ بیان کرنا مناسب ہوگا جس سے ''دیانت داری‘‘ کا علم بھی ہو رہا ہے۔ سلیم بہادر خان مرحوم‘ وزارت ِخزانہ کے جوائنٹ سیکرٹری تھے اور اس حیثیت میں پاکستان ائر فورس کے مالی مشیر تھے۔ (ان کے صاحبزادے بھی سول سروس میں ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے وفاقی سیکرٹری داخلہ تعینات ہوئے تھے۔ معلوم نہیں آج کل کہاں ہیں) یہ کالم نگار بھی ان دنوں پشاور میں مزدوری کر رہا تھا۔ چائے کا دور سلیم بہادر خان صاحب ہی کے ہاں چلتا۔ انہوں نے بھی فارم پُر کر کے ہائوسنگ فائونڈیشن کو بھیجا۔ جواب آیا کہ آپ تو پہلے ہی مکان کے مالک ہیں‘ اس لیے آپ پلاٹ کے اہل نہیں! خان صاحب نواب خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ اصلی اور کھرے روہیلے تھے۔ دسترخوان وسیع تھا۔ خوددار اتنے کہ ائر فورس کے کتنے ہی بڑے بڑوں کو برج سکھائی ‘مگر کبھی کوئی جائز سہولت بھی نہ مانگی۔ فائونڈیشن کو جوابی خط لکھا کہ یہ میرا مکان جو آپ کے علم میں آیا ہے‘ اس کا اتہ پتہ بتا دیجیے کہ جا کر قبضہ تو کروں‘ کیونکہ جہاں تک مجھے معلوم ہے‘ پورے ملک میں میرا مکان کوئی نہیں! ہوا یہ تھا کہ ان کی جگہ کسی اور ''پسندیدہ‘‘ سرکاری ملازم کو پلاٹ دیا جا رہا تھا۔
فوج کے ہائوسنگ کے شعبے میں ایسی کوئی بدنظمی ‘ کوئی بددیانتی نہیں ہوئی۔ کسی کو سفارش نہیں ڈھونڈنا پڑی۔ ایک نظام کے تحت کام چلتا رہا اور چل رہا ہے!
یہ ہے وہ آئینہ جو یہ خط دکھا رہا ہے۔ یہ ہیں؛ وہ تصویریں!
یونیورسٹیوں میں سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی شاخوں نے جو قیامت برپا کر رکھی تھی‘ اس کا علاج بھی فوج ہی کو کرنا پڑا۔ فوجی افسروں کو وائس چانسلر تک لگانا پڑا۔ یہ کوئی خوش آئند امر نہیں تھا‘ مگر زمینی حقائق کب خوش آئند تھے؟ ایک یونیورسٹی میں تو ان سرگرمیوں اور سیاسی شاخوںکا مکمل استیصال کر دیا گیا۔ دوسری میں‘ کم از کم‘ اُس زمانے میں کافی افاقہ ہوا۔ حال ہی میں دارالحکومت کی ایک یونیورسٹی میں ایک سیاسی شخصیت ایک تقریب سے خطاب کر رہی تھی کہ گولیاں چلیں۔ ایک طالب علم اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ اُس خاندان کے دُکھ کا اور والدین کے کرب کا اندازہ لگاناآسان نہیں‘ جس کا لخت جگر آیا تو تعلیم کے حصول کے لیے تھا‘ مگر لاش کی صورت واپس گیا۔ آج اس یونیورسٹی کا انتظام کسی فوجی افسر کے سپرد کیجیے۔ گولیاں چلانے والوں کا علاج بھی ہوگا اور سیاسی رہنمائوں کا عمل دخل بھی بند ہو جائے گا!
اس وقت ملک میں دو گروہ ایسے ہیں جو قانون کے دائرے سے مکمل طور پر باہر ہیں۔ ایک گروہ وکیلوں کا ہے‘ جن پر کوئی پابندی‘ کوئی قدغن اثر انداز نہیں ہو سکتی۔ لاقانونیت کی انتہا یہ ہے کہ ہسپتال پر حملہ ہوا‘ تین مریضوں کو قتل کر دیا گیا‘ مگر قتل ِ عمد کا مقدمہ کسی پر نہ چلا۔ خود منصف حضرات نے یہ تجویز پیش کی کہ پھول لے کر جائیے اور صلح صفائی کی کوشش کیجیے‘ تو کیوں نہ یہ سارا قضیہ فوج کے سپرد کر دیا جائے۔ فوجی عدالتوں میں مقدمے چلیں اور انصاف ہو!
ڈاکٹروں کا بھی یہی حال ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں جس طرح ڈاکٹر چائے کے لمبے لمبے وقفے کرتے ہیں۔ کسی سی ایم ایچ میں اس طرح نہیں ہوتا۔ دارالحکومت کے ایک بڑے ہسپتال میں ایک معروف ڈاکٹر کی نگاہِ التفات کے لیے یہ کالم نگار چار دن جاتا رہا۔ سارے روابط اور سفارشوں کے باوجود موصوف کی جھلک تک نہ ملی! عسکری ہسپتالوں میں بھی فرشتے تو نہیں بیٹھے‘ مگر اتنا ظلم نہیں ہوتا۔ اگر سول ہسپتالوں کا انتظام فوجی افسروں کے سپرد کر دیا جائے تو سیاست دان اور اینکر حضرات تو ناراض ہوں گے‘ مگر مریض سکھ کا سانس لیں گے۔ ہسپتال ضابطے کے پابند ہو جائیں گے!
دوسرا گروہ جو من مانی اور دھاندلی کرنے میں جواب نہیں رکھتا‘ تاجروں کا ہے۔ شناختی کارڈ سے لے کر ٹیکس تک‘ یہ کسی بات پر آمادہ نہیں ہوتے۔ کئی حکومتوں نے کوشش کی کہ اوقاتِ کار ہی ان کے معقول ہو جائیں ‘مگر وہی ڈھاک کے تین پات! بازار دوپہر کے بعد کھلتے ہیں اور آدھی رات کو بند ہوتے ہیں۔ بازاروں میں ناجائز تجاوزات نے قیامت برپا کر رکھی ہے۔ ملاوٹ‘ ذخیرہ اندوزی‘ ناروا نفع خوری عام ہے! ری فنڈ پالیسی عنقا ہے۔ خریدا ہوا مال واپس ہونے کا سوال ہی نہیں! کوئی حکومت‘ کوئی ڈپٹی کمشنر‘ کوئی ایف بی آر اس طبقے کو قانون کے دائرے کے اندر نہیں لا سکتا! اب‘ فریب دہی اور دھاندلی کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ جس کا شکار زیادہ تر گھریلو خواتین ہو رہی ہیں۔ یہ ''آن لائن‘‘ خریداری کا سلسلہ ہے۔ جو نمونہ بتایا جاتا ہے‘ آن لائن ڈیلیوری (Delivery) اُس نمونے کے مطابق‘ اکثر و بیشتر نہیں ہوتی۔ واپس کریں تو ڈاک کا خرچ خریدار کے ذمے! اس بات کی بھی ضمانت نہیں کہ دوسری بار ترسیل دیانت داری سے ہو گی! تو کیا اس طبقے کے ظلم اور دھاندلی سے نجات کے لیے بھی عوام‘ فوج کی طرف دیکھیں؟
دور دور تک انصاف کی کوئی امید نہیں۔ افق سے افق تک دیکھ لیجیے‘ روشنی کی کوئی کرن نظر نہیں آ رہی! ہائوسنگ فائونڈیشن اُن ملازموں کو جو ابھی تک زندہ ہیں‘ پلاٹوں کے قبضے کب دے گی؟ہسپتال پر حملے کے دوران ‘جن مریضوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا‘ ان کے پس ماندگان کی شنوائی کب ہوگی؟ یونیورسٹیوں میں طلبا کے قتل کب رُکیں گے؟ ہسپتال مذبح خانوں کے بجائے شفاخانے کب بنیں گے؟ تاجر گاہکوں کو انسان سمجھنا کب شروع کریں گے؟ بازار صبح نو بجے کب کھلیں گے؟ ؎
کب تک ابھی رہ دیکھیں اے قامت جانانہ
کب حشر معین ہے تجھ کو تو خبر ہو گی
No comments:
Post a Comment