مسلم دنیا میں یہی ہوتا آیا ہے‘ اور شاید یہی ہوتا رہے گا۔ یہ جو آج اچھل اچھل کر دعوے کیے جاتے ہیں کہ فلاں مسلمان سائنسداننے یہ ایجاد کیا اور فلاں کی یہ دریافت تھی، تو ساتھ یہ بھی تو وضاحت کرنی چاہیے کہ ان سائنس دانوں کا انجام کیا ہوا۔ الکندیکو پیٹا گیا اور اس کی لائبریری ضبط کر لی گئی۔ ابن رشد کو قرطبہ سے نکال دیا گیا اور ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہنے پر مجبورکیا گیا۔ اس کی کتابیں نذر آتش کر دی گئیں۔ اس کی تحریروں پر پابندی لگا دی گئی۔ کئی اور ایسی مثالیں ہیں۔ ان روایات کیروشنی میں اگر ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنی زندگی کے آخری سترہ سال نظر بندی میں گزارے تو تعجب کی کیا بات ہے۔
''کرے کوئی اور بھرے کوئی‘‘ کی دردناک مثال ڈاکٹر قدیر خان کی زندگی کے آخری دو عشرے ہیں۔ انہیں مسلسل قربان گاہ میں رکھاگیا۔ کہنے کو وہ محسن پاکستان تھے! مگر اس محسن پر جوابی احسانات کیا کیا تھے؟ انگریزی کا مؤقر ترین معاصر میرے سامنےکھلا ہے۔ تاریخ چوبیس دسمبر 2019ء کی ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان عدالت میں درخواست دائر کرتے ہیں اور اپنے بنیادی حقوق کیبحالی کا مطالبہ کرتے ہیں تاکہ ملک میں آزادانہ گھوم پھر سکیں! ان کے وکیل نے عدالت سے استفسار کیا کہ کیا حکومت کو آئینیتحفظات کے پرخچے اڑانے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ اور کیا حکومت ڈاکٹر صاحب کو اپنے اعزہ و اقربا، اپنے احباب، ملازموں،افراد خانہ، صحافیوں، مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ، اور بیوروکریٹس کو ملنے سے روک سکتی ہے؟ ڈاکٹر صاحب نےعدالت کو بتایا کہ انہوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا اور یوں ملک کو دشمن کی بری نظروں سے محفوظکیا۔ جب سے وہ پاکستان آئے، ان کے شایانِ شان ان کی حفاظت کی گئی مگر اب حالت یہ ہو گئی ہے کہ اہلکار ساتھ والے گھر میںبیٹھ گئے ہیں اور کسی کو ان سے ملنے نہیں دیتے۔ ڈاکٹر صاحب کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ پیشگی منظوری کے بغیر ڈاکٹرصاحب ادھر ادھر آجا نہیں سکتے اور نہ ہی سماجی اور معاشرتی تقاریب میں شرکت کر سکتے ہیں۔ یہ صورتحال، عملاً قید کی سیہے۔ ڈاکٹر صاحب کے بقول ''یہ صورتحال 2004ء میں شروع ہوئی جب حفاظت کے نام پر مجھے گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔ کسیدوست سے تو کیا، میری بیٹی اور اس کے بچے بھی، جو چند گھر چھوڑ کر رہ رہے تھے، مجھ سے نہیں مل سکتے تھے۔ پابندیوں کا یہعالم تھا کہ میں عدالت کا دروازہ بھی نہیں کھٹکھٹا سکتا تھا‘‘۔
یہ تھی وہ حالت اور کیفیت جس میں محسنِ پاکستان کو رکھا گیا۔ ایک یا دو یا تین سالوں تک نہیں بلکہ 2004ء سے لے کر ان کیوفات تک یعنی سترہ برس!
ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنے رب کے حضور جا چکے۔ بائیس کروڑ مسلمانوں کے ملک کو وہ ایک ایسا ہتھیار بنا کر دے گئے کہ دشمن جودھمکیاں دے رہا تھا، جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ یہ ایسا کارنامہ تھا کہ دنیا کے ہر مسلمان کے دل میں چراغ جل اٹھے۔ ڈاکٹر قدیر خانصرف پاکستان کے نہیں، پورے عالم اسلام کے ہیرو ہیں۔ آج اگر انہیں وہاں دفن نہیں ہونے دیا گیا جہاں وہ چاہتے تھے، تو اس سےانہیں کوئی فرق نہیں پڑا ہاں ہم نے ثابت کر دیا کہ ہم محسن کُش تھے اور محسن کُش ہیں! اپنے محسنوں کے ساتھ بدسلوکی کرنےکے حوالے سے مسلمانوں کی جو طویل اور شرمناک تاریخ ہے اس میں ایک اور باب کا اضافہ ہوا ہے‘ مگر قدرت کا عجیب دستور ہے۔بقول افتخار عارف:
میں صابروں کے قبیلے سے ہوں مگر مرا رب
وہ محتسب ہے کہ سارے حساب جانتا ہے
وہ جو دشمن تھا آج خائب و خاسر ہے۔ سرزمینِ وطن کو چھو تک نہیں سکتا۔ امام احمدؒ بن حنبل نے کہا تھا کہ ہمارے جنازے فیصلہکریں گے۔ ہر پاکستانی ڈاکٹر صاحب کی وفات پر سکتے میں آ گیا۔ ہر آنکھ اشکبار ہے۔ ہر دل سوگوار ہے۔ زندہ کسی نے بھی نہیںرہنا۔ ہم سب نے جان دینی ہے۔ کل کوئی اور سفرِ آخرت پر روانہ ہوا تو دنیا دیکھ لے گی کہ چراغ کتنی آنکھوں میں جلتے ہیں اورجنازہ کتنے دلوں میں پڑھا جاتا ہے۔
لوگ سیانے ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ حقیقت کیا تھی اور دکھایا کیا گیا؟ زبانیں خاموش سہی مگر تاریخ کسی کا لحاظ نہیں کرتی۔سوشل میڈیا نے دنیا کو تلپٹ کر کے رکھ دیا ہے۔ ہر آنے والا دن ذرائع ابلاغ میں نئے سے نیا انقلاب لا رہا ہے۔ وہ دن بھی تھے جب لوگدرست خبروں کے لیے بی بی سی سنتے تھے۔ پورے بازار میں کسی ایک دکان میں ریڈیو ہوتا تھا۔ پورا محلہ وہاں جمع ہو کر خبریںسنتا تھا اس لیے کہ اپنے ہاں خبریں نہیں، خبروں کا مثلہ پیش کیا جاتا تھا۔ مگر آج دنیا بدل چکی ہے۔ ہر گھر میں، ہر جیب میں،سوشل میڈیا کا ایک مرکز، ایک نیوکلیئس (nucleus) کام کر رہا ہے۔ پیاز کے سارے چھلکے اتر چکے ہیں۔ چہروں سے سارے ماسکاتر گئے ہیں۔ سورج کی شعاعوں کو کون روک سکا ہے؟ کبھی آنے والی رُت نے راستہ بدلا؟
لیاقت علی خان کے قتل سے لے کر بھٹو کے تختہ دار پر لٹکنے تک اور بے نظیر بھٹو کے قتل سے لے کر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی سترہسالہ بے بس اور بے کس نظر بندی تک، ایک سرخ لکیر ہے جو کھِنچتی چلی جا رہی ہے۔ مادر ملت فاطمہ جناح کے ساتھ کیا ہوا؟ مگریہ طے ہے کہ قائد اعظم کے بعد اس ملک پر سب سے بڑا احسان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا ہے۔ کاش! کچھ عرصہ کے لیے انہیں ملک کیصدارت پر فائز ہونے دیا جاتا۔ سرحد پار، بھارتی سائنسدان ڈاکٹر عبدالکلام کو صدر بنایا گیا۔ ہم اپنے سائنسدان کو صدر تو کیابناتے، الٹا انہیں حبس بے جا میں رکھا۔ قدرت ساتھ ساتھ ہمیں اپنے اعمال کی سزا بھی دیے جا رہی ہے۔ بائیس پچیس کروڑ کیآبادی میں سے سات سو نام پنڈورا لیکس میں نکلتے ہیں۔ سرحد پار ایک ارب سے زیادہ آبادی ہے۔ وہاں سے تین سو نام نکلتے ہیں۔ نہکسی عسکری شخصیت کا! نہ کسی وزیر کا! ہمارے تو امیروں وزیروں سب کے اسمائے گرامی ہیں۔ عوام توقع کر رہے تھے کہ نیا دورہے‘ تبدیلی کا سورج چڑھ چکا ہے۔ ایسے وزیروں کو فارغ کر دیا جائے گا کہ جب تک تفتیش مکمل نہیں ہوتی، گھروں میں بیٹھ کرانتظار کرو مگر کسی نے پلک تک نہیں جھپکی۔ کسی کی کان کی لو تک سرخ نہیں ہوئی۔ کل جو بُرا تھا اور ناقابل قبول آج وہ درستہے!
افسوس! چمن جھاڑ جھنکار سے اَٹ گئے! ایک ایک شاخ زاغ و زغن کے قبضے میں ہے۔ سفید چھڑی ہاتھ میں پکڑ کر جو راستہ ٹٹولرہے تھے وہ منزل کا نشان دکھا رہے ہیں! توتلے قصہ گوئی کر رہے ہیں۔ بہرے شکایتیں سننے پر مامور ہیں۔ پا بریدہ دوڑ میں حصہلینے پر تلے ہیں اور ستم ظریفی یہ کہ اول انعام کے بھی حقدار قرار دیے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا بخت روشن تھا کہ اسخرابے سے چلے گئے اور خلد میں آباد ہو گئے۔ سنیے کیا کہہ رہے ہیں:
فرشتے لے چلے سوئے حرم تابوت میرا
کفِ افسوس ملتے رہ گئے بد خواہ میرے
بشکریہ روزنامہ دنیا
No comments:
Post a Comment