بہت سمجھایا تھا مگر ڈاکٹر لطیف نہ مانا۔
بعض لوگوں پر جب ایک جنون سوار ہو جاتا ہے اور سوئی ان کی ایک جگہ اٹک جاتی ہے تو کوئی دلیل بھی، خواہ وہ کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہو، انہیں قائل نہیں کر سکتی۔ یہی حال ڈاکٹر لطیف کا تھا۔ ادھر 2018 کے انتخابات کا نتیجہ نکلا، ادھر اس نے واپسی کی ٹھانی۔ خدا کا بندہ اچھا بھلا وینکوور میں رہ رہا تھا۔ دنیا کے چند بہترین شہروں میں سے ایک شہر۔ جب بھی، رہنے کے لحاظ سے، دنیا کے بہترین شہروں کی درجہ بندی ہوتی ہے تو ویانا، وینکوور اور میلبورن ٹاپ پر آتے ہیں۔ وینکوور کا کیا کہنا! جگہ جگہ سمندر شہر کے اندر آیا ہوا ہے۔ ریاست کا نام ہی بی بی سی ہے یعنی بیوٹی فُل برٹش کولمبیا۔ کشمیر کے بارے میں کہتے تھے:
اگر فردوس بر روئ زمین است
ہمین است و ہمین است و ہمین است
کشمیر میں تو سارا حسن فطرت کا تھا مگر برٹش کولمبیا کے اس بے مثال شہر میں انسان نے بھی فطرت کے حسن کو چار چاند لگائے ہیں۔ یہیں ڈاکٹر لطیف ایک عرصہ سے پریکٹس کر رہا تھا۔ چوٹی کا میڈیکل سپیشلسٹ تھا۔ عزت بھی تھی۔ پیسہ بھی تھا۔ حقوق بھی تھے۔ سکیورٹی بھی تھی۔ بہت سمجھایا کہ ابھی اتنا بڑا فیصلہ نہ کرو۔ ابھی تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو۔ اقتدار میں آکر بہت سوں کی جون بدل جاتی ہے‘ مگر لطیف کو میں بچپن سے جانتا ہوں۔ ٹھان لے تو پھر ہٹتا نہیں۔ اس کی ایک ہی دلیل تھی کہ ستر سال میں کسی نے یہ باتیں نہیں کیں جو خان صاحب کررہے ہیں۔ اسے اندھیری سرنگ کے آخر میں روشنی نظر آرہی تھی۔ کلینک کو سمیٹا۔ گھر اور فرنیچر فروخت کیا۔ بچوں کو سکولوں کالجوں سے اٹھایا۔ ٹنڈ پھوہڑی ترڈا اٹھایا اور واپس پاکستان پہنچ گیا۔ میں نے اسے ائیرپورٹ سے لیا اور دو تین اپنے گھر میں رکھا۔ ان دو تین دنوں میں اس نے مجھے یقین دلایا کہ نوشیرواں عادل اور عمر بن عبدالعزیزؒ کے دور کو باہم ملایا جائے تو جو آمیزہ تیار ہوگا اس کی نمود پاکستان میں ہونے والی ہے۔ اس کا ایمان تھا کہ پاکستان بہت جلد سنگاپور، جنوبی کوریا اور یو اے ای سے آگے نکل جائے گا۔ وہ خان صاحب کے وعدوں کی بات کرتا تھا اور کہتا تھا: خان، خان ہے، اپنی کہی ہوئی بات سے سرِ مُو انحراف نہیں کر ے گا۔ میں نے بھی ووٹ خان صاحب کو دیا تھا۔ پینتیس برسوں میں پہلی بار ووٹ ڈالنے گھر سے نکلا تھا۔ خان صاحب کا شیدائی میں بھی تھا مگر کبھی کبھی لگتا کہ ڈاکٹر لطیف محض شیدائی نہیں، مرید کے مانند ہے۔ مرید کی وابستگی اس دنیائے دُوں کی حدود سے بہت آگے کی ہوتی ہے۔
خان صاحب نے حلف اٹھایا۔ ایک زرّیں، نقرئی، دور کا آغاز ہوا۔ ایک صبح میں اپنی پوتی کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ ہم پودوں سے پتے توڑ کر پلیٹوں میں سجا کر پکوان تیار کر رہے تھے۔ شام کو ٹِکلو نے آنا تھا۔ ٹِکلو ہمارا ایک تصوراتی دوست تھا۔ اتنے میں فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف ڈاکٹر لطیف تھا۔ کہنے لگا: یہ عثمان بزدار کون ہیں؟ بتایا کہ میں نہیں جانتا۔ اس نے پوچھا: آج کے اخبارات نہیں دیکھے؟ جواب دیا کہ نہیں۔ کہنے لگا: میں تمہاری طرف آرہا ہوں۔ آیا تو کچھ پریشان تھا۔ کہنے لگا: ان صاحب کو وزیر اعلیٰ لگا دیا ہے‘ سمجھ میں نہیں آرہا کیوں؟ خان صاحب تو اسے جانتے ہی نہیں تھے۔ سوال اس کے ذہن میں یہ تھا کہ یہ صاحب کس کی دریافت ہیں؟ یہ پہلا جھٹکا تھا جو لطیف کو لگا۔ دوسرا شدید جھٹکا اسے اس وقت لگا جب شیخ رشید، فہمیدہ مرزا، زبیدہ جلال، عمر ایوب خان، خسرو بختیار، فروغ نسیم، محمد میاں سومرو، اعظم سواتی، عشرت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی اقتدار میں حصہ دار بنے‘ مگر پھر بھی لطیف نے اپنے آپ کو سنبھال لیا۔ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ تھی کہ بندہ خود ایماندار ہے!
پھر خان صاحب نے توسیع دے دی تو لطیف کو ان کا وہ بیان یاد آیا جب وہ اپوزیشن میں تھے۔ اُس وقت انہوں نے توسیع کی مخالفت کی تھی اور کہا تھا اس طرح ادارے کمزور پڑ جاتے ہیں۔ پھر، یو ٹرن کے بعد یو ٹرن ہونے لگا حتیٰ کہ یو ٹرنوں کے ڈھیر لگ گئے۔ ڈاکٹر لطیف کی دوڑ مجھ تک تھی۔ وہ اپنے آپ کو تسلی دینے کے لیے ہر یوٹرن کا جواز ڈھونڈتا مگر میں نے محسوس کیا کہ اب اس کی پہلے والی تازگی اور شگفتگی رُو بہ زوال تھی۔ اب وہ بات کرتے کرتے اچانک چُپ ہو جاتا اور کچھ سوچنے لگتا۔ ایک دن کہنے لگا: یہ جو ہم پی ٹی وی کو ہر ماہ ایک سو روپے دیتے ہیں جو اربوں تک جا پہنچتا ہے، اس کی خان صاحب نے شدید مذمت کی تھی۔ اسے ابھی تک نہیں ختم کیا۔ پھر وزیر صحت پر سنگین الزامات لگے۔ اسے ایک طرف ہٹایا تو دوسری طرف پارٹی کا سیکرٹری جنرل بنا دیا۔ لطیف اس پر بھی ناخوش تھا کہ تاریخ میں پہلی بار آئی ایم ایف کا ایک ملازم سٹیٹ بینک کا سربراہ بنا دیا گیا۔ چلیے، آئی ایم ایف سے بچ نہیں سکے تو کیا بائیس کروڑ میں سے کوئی ایک بھی سٹیٹ بینک کا سربراہ بننے کا اہل نہ تھا۔ لطیف کو تاحال یہ اطمینان تھا کہ بیوروکریسی میں تعیناتیاں میرٹ پر ہوں گی۔ پھر ایک دن اس کا یہ خواب بھی بکھر گیا۔ پنجاب میں ایک پُرکشش پوسٹ خالی ہوئی۔ اگر کسی ریٹائرڈ بیوروکریٹ ہی کو لگانا تھا تو کئی تھے جو حال ہی میں ریٹائر ہوئے تھے‘ مگر جسے نوازنا تھا وہ تو حاضر سروس تھا اور وفاق میں سیکرٹری تھا؛ چنانچہ اس کی ریٹائرمنٹ وزیر اعظم نے، بطور خاص، وقت سے ایک سال پہلے منظور کی اور اسے چار سال کے لیے نئی بادشاہت عطا کر دی۔ ایک دن پھر لطیف اخبار لے کر میرے پاس منہ لٹکائے بیٹھا تھا۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی کے سربراہ کے لیے اشتہار دیا گیا۔ چھ سو افراد نے درخواستیں دیں۔ شارٹ لسٹنگ کے بعد اٹھارہ کے انٹرویو ہوئے۔ یہ سب اہل تھے مگر تعینات کون ہوا؟ سندھ کے گورنر کا سیکرٹری! جو امیدوار ہی نہیں تھا۔ پھر ایک اور صاحب کو ایک سال پہلے ریٹائر کر کے چار سال کے لیے ٹیکس محتسب لگایا گیا۔ ان کے ریٹائرمنٹ آرڈر کو بطور خاص تبدیل کیا گیا۔ لطیف کا سوال تھا کہ جو ریٹائر ہو چکے تھے کیا وہ سب نااہل تھے۔
ایک چمکیلی صبح کو لطیف اچانک وارد ہوا۔ اس کے ہاتھ میں ہوائی سفر کے ٹکٹ تھے۔ کہنے لگا: یار میں واپس جا رہا ہوں۔ تعجب سے پوچھا کہ تم تو بہت صابر اور پُر امید تھے۔ روہانسا ہو کر کہنے لگا: دو چیزوں نے میری امید کی لرزتی دیوار کو منہدم کر کے رکھ دیا۔
ایک غیر ملکی تحائف کا حساب دینے سے صاف انکار۔ اس میں کسی گھڑی کا بکھیڑا بھی ہے۔ دوسرے، پنڈورا لیکس میں ان کی کابینہ کے ارکان کے نام آئے۔ برطرف نہ بھی کرتے تو کم از کم انہیں چھٹی پر بھیج دیتے کہ تفتیش کے بعد بے قصور نکلے تو واپس آ جانا‘ مگر بالکل وہی ہوا جو گزشتہ حکومتوں کے ادوار میں ہوتا رہا۔ کہنے لگا: اب میں قائل ہو گیا ہوں کہ وعدے صرف وعدے تھے۔ میں مایوسی کے مزید جھٹکے برداشت نہیں کر سکتا۔ میں نے غلطی کی جو واپس آ گیا۔
ڈاکٹر لطیف کو رخصت کرنے ایئر پورٹ پر میں موجود تھا۔
بشکریہ روزنامہ دنیا
No comments:
Post a Comment