یہ ایک داستان ہے۔ محض دلچسپی کے لیے! کسی قسم کا اخلاقی ‘یا سبق آموز ‘ نتیجہ نکالنا بے سود ہو گا!
دو ملک تھے۔ قربانستان اور تنازستان ! دونوں پڑوسی تھے۔ یہ پڑوس قسمت کا کھیل تھا بلکہ بدقسمتی کا! اس پڑوس میں کوئی خوشی نہ تھی۔جس طرح دو بھائیوں کو کوئی اختیار نہیں ہوتا کہ وہ ایک ہی گھر میں پیدا ہوں یا انکار کر دیں‘ بالکل اسی طرح ان دو ملکوں سے بھی کاتبِ تقدیر نے نہیں پوچھا تھا کہ ساتھ ساتھ رہنا چاہو گے یا دور دور !بقول مجید امجد
جو تم ہو برقِ نشیمن تو میں نشیمنِ برق
الجھ گئے ہیں ہمارے نصیب! کیا کہنا
قربانستان کے لوگ محنتی تھے اور امن پسند! کڑکتی دھوپ تھی یا رگوں میں خون منجمد کرنے والا جاڑا ‘ کام کرتے تھے۔مئی کی آگ اگلتی گرمیوں میں گندم کی فصل کاٹتے۔کارخانوں میں مزدوری کرتے۔ کپڑا بناتے۔سیمنٹ تیار کرتے۔ چینی پیدا کرتے۔ فرنیچر ایسا بناتے کہ پوری دنیا میں اس کی مانگ تھی۔ کھیلوں کا سامان‘ سرجری کے آلات‘ چمڑے کی مصنوعات‘ سب کچھ اس ملک میں تیار ہوتا۔ بچیاں اور بچے صبح سات بجے سکولوں کو روانہ ہوتے۔ سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں رات دن تعلیم دی جاتی۔ میڈیکل ‘ انجینئر نگ‘ فنون لطیفہ‘ ٹیکسٹائل ڈیزائننگ‘ بزنس ایڈمنسٹریشن‘ معاشیات‘ غرض تمام علوم پڑھائے جاتے۔تعلیم ِنسواں کا گراف کافی اطمینان بخش تھا۔ خواتین ہر شعبۂ زندگی میں خدمات انجام دے رہی تھیں۔ پروفیسر تھیں۔ ڈاکٹر تھیں۔ نرسنگ کے شعبے میں تھیں۔ بزنس کر رہی تھیں۔ بیورو کریسی میں اعلیٰ مناصب پر تعینات تھیں۔دوسرے ملکوں میں سفارت کاری پر مامور تھیں۔ کتابیں تصنیف کرتیں۔ اخبارات و جرائد نکالتیں۔ عدلیہ کا حصہ ہو کر فیصلے صادر کرتیں۔ سائنس کے متعدد شعبوں کی ریسرچ میں سائنسدان خواتین کا بہت بڑا حصہ تھا۔ ہسپتالوں کا پورے ملک میں جال بچھا تھا۔ رات دن مریضوں کا علاج ہوتا۔ ریلوے‘ بسیں‘ گاڑیاں‘ جہاز سب مسافروں کی آمد و رفت کے لیے مصروف رہتے۔سمندری جہاز دنیا بھر سے سامان لاتے اور لے جاتے۔تعمیراتی سرگرمیاں سارا سال جاری رہتیں۔ یہ لوگ خوبصورت مکان بنانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ سڑکیں‘ پُل‘ اوور ہیڈ برج‘ انڈر پاس ‘ سب بنے ہوئے تھے اور مسلسل مزید بن رہے تھے۔ الیکشن کمیشن تھا‘ پارلیمنٹ تھی۔ تربیت یافتہ بیوروکریسی تھی۔ غرض قربانستان ہر ممکن کوشش کر رہا تھا کہ محنت اور شدید محنت کی بدولت دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں شمار ہونے لگے۔
تنازستان میں حالات اس کے بالکل بر عکس تھے۔ اس ملک میں کوئی صنعت تھی نہ زراعت نہ تجارت۔ کھانے کو کچھ تھا نہ پہننے کو۔ کالج تھے نہ یونیورسٹیاں۔ ہسپتال تھے نہ ادویات۔ یہ لوگ صدیوں سے صرف اور صرف میدانِ جنگ کے سپیشلسٹ تھے۔ پہلے تو ارد گرد کے ملکوں پر چڑھائی کرتے اور کھانے پینے اور پہننے اوڑھنے کا سامان لُوٹ کر لے آتے۔ پھر جب نیا زمانہ آیا اور دوسرے ملکوں پر حملے کرنا اور انہیں فتح کرنا مشکل ہو گیا تو یہ آپس میں لڑنے لگے۔لڑتے رہے‘ لڑتے رہے یہاں تک کہ لڑتے لڑتے نصف صدی ہو گئی۔ کئی نسلیں اسی جنگ و جدل میں پیدا ہوئیں اور جوان ہو کر ضعفِ پیری کو پہنچ گئیں۔ ان کی لڑائیاں تو بندوق سے ہوتی ہی تھیں ‘ یہ لوگ گورننس بھی بندوق ہی سے کرنے کے عادی تھے۔
ایسا تو ہوتا ہی ہے۔ کوئی ملک امیر ہوتا ہے کوئی مفلس‘ کوئی قوم محنت کش ہوتی ہے کوئی آرام طلب۔ مگر قربانستان اور تنازستان میں ایسا نہیں تھا۔ تنازستان کی غربت و افلاس کی قیمت قربانستان کو ادا کرنا پڑتی۔ قربانستان کے لوگ رات دن محنت کر کے جو کچھ کماتے‘ بناتے یا پیدا کرتے ‘ وہ تنازستان پہنچ جاتا۔ کپڑا ‘گارمنٹس‘ ‘ چینی‘ گھی‘ اناج‘ آٹا‘ دالیں‘ گرم مسالے‘ سبزیاں‘ گائے بکریاں‘ بھینسیں‘ ادویات‘ سیمنٹ‘ سٹیل‘ اینٹیں‘ فرنیچر‘ گاڑیاں‘ موٹر سائیکل‘ یہاں تک کہ سٹیشنری کا سامان بھی قربانستان سے جاتا۔مکانوں کی کھڑکیاں‘ دروازے‘ تیار چھتیں‘ ٹائلیں‘ بجلی کا سامان‘ شیشے کا سامان‘ غسل خانوں کے آئٹم‘ پائپ‘ چولہے‘ ٹونٹیاں یہاں تک کہ تالے اور جانوروں کو باندھنے والی زنجیریں بھی یہیں سے جاتیں۔
اسی پر بس نہ تھا۔ ہزاروں لاکھوں مریض تنازستان سے قربانستان لائے جاتے جن سے ہسپتال بھر جاتے۔دلچسپ حقیقت یہ تھی کہ تنازستان کی حکومتیں لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کی حوصلہ شکنی کرتی تھیں۔دوسری طرف یہ لوگ اپنی بیمار خواتین کا علاج بھی خواتین ڈاکٹروں ہی سے کرانا پسند کرتے تھے۔ ہزاروں لاکھوں طلبہ ‘ قربانستان کے تعلیمی اداروں میں آ کر تعلیم حاصل کرتے۔ تیس چالیس لاکھ تنازستانی پہلے ہی قربانستان میں موجود تھے جو تجارت‘ ٹرانسپورٹ اور دوسرے شعبوں میں دخیل تھے اور جن کے واپس تنازستان جانے کے کوئی آثار نہیں تھے۔ لاکھوں تنازستانیوں کے پاس قربانستان کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ تھے۔انہی پاسپورٹوں کی بنیاد پر وہ ساری دنیا میں گھومتے پھرتے تھے۔
لیکن بات صرف یہیں تک نہ تھی۔ المیے کا دردناک پہلو یہ تھا کہ قربانستان کی حکومت تنازستان کے غم میں گھلی جا رہی تھی۔ اسے اپنے شہریوں کی کوئی فکر نہ تھی۔ دنیا بھر میں تنازستان کی وکالت کر تی پھر رہی تھی۔اسی کی سفارت کاری کر رہی تھی۔ اپنے ملک کے لیے قربانستان میں صرف ایک وزیر خارجہ تھا مگر تنازستان کے لیے یہاں کا ہر وزیر ‘ وزیر خارجہ بنا ہوا تھا۔ کروڑوں اربوں کے زر مبادلہ سے گندم‘ چینی‘ ادویات اور دیگر اشیا درآمد کرتے تھے اور سب کچھ بارڈر پار کر کے تنازستان پہنچ جاتا تھا۔ مقروض قربانستان کے عوام ہو رہے تھے۔ فائدہ تنازستان اٹھا رہا تھا۔ گویا قربانستان کا ہر باشندہ قربانی کا بکرا تھا۔
لیکن بات صرف یہیں تک نہ تھی۔ مسئلہ یہ بھی تھا کہ اس سب کچھ کے بدلے میں قربانستان کو اُس ملک سے کیامل ِرہا تھا جسے تقدیر کے جبر نے اس کا پڑوسی بنا یا تھا۔ایک تو وہاں سے اسلحہ آیا اور اتنا کہ ایک زمانے میں راکٹ تک بکنے لگے۔ پھر منشیات کا سیلاب آیا۔ گھروں میں ڈاکے ڈالنے والے پکڑے جاتے تو اکثر وہیں کے نکلتے۔ مگر افسوسناک ترین بات یہ تھی کہ قربانستان کے باغی عناصر تنازستان ہی میں پناہ لیتے۔ وہیں سے آکر کبھی دہشت گردی کرتے اور کبھی قربانستان کی سکیورٹی فورسز پر حملے کرتے۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ قربانستان ایک لحاظ سے تنازستان کے لیے لائف لائن تھا۔ مگر اس کے باوجود تنازستان کے لوگ کبھی احسان مند نہ ہوئے بلکہ جب بھی ‘ جہاں بھی ‘ موقع ملا ‘ قربانستان کی شکایت ہی کی‘ شکوے ہی کیے۔ کبھی اس کے سفارت خانے پر حملے کیے کبھی کسی اور طریقے سے نفرت کا اظہار کیا۔
یہ مقدر کا کھیل تھااور مقدر کا کھیل رہے گا۔قربانستان ‘ قربانی دیتا رہے گا۔ جو کچھ کمائے گا ‘ بنائے گا‘درآمد کرے گا ‘ تنازستان پہنچتا رہے گا۔ تنازستان سے مریض ‘ طلبہ‘ اور بیروزگار‘ کارواں در کارواں ‘ جوق در جوق‘ آتے رہیں گے۔ صبح شام‘ رات دن‘ سرما گرما‘ بہار خزاں‘ آتے رہیں گے۔ صدیوں سے چلتا ہوا یہ تماشا صدیوں تک چلتا رہے گا۔قربانستان کے پالیسی ساز‘ اہلِ تنازستان کے غم میں گھلتے رہیں گے۔ اپنے باشندوں کو نظر انداز کرتے رہیں گے۔ اپنوں سے نوالے چھین کر تنازستان کا پیٹ بھرتے رہیں گے۔ افسوس !جغرافیہ بدل نہیں سکتا اور تاریخ کو بدلنے نہیں دیتا۔
بشکریہ روزنامہ دنیا
No comments:
Post a Comment