Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Sunday, June 18, 2017

کیا ہم ’’پاکستان بہار‘‘ کے آثار دیکھ رہے ہیں؟


عرب بہار آئی‘ عربوں کو اجاڑ کر خزاں کا تسلط قائم کر کے واپس چلی گئی۔ لیبیا اجڑ گیا۔ مصر کی تیس سالہ آمریت ختم ہوئی مگر آج وہاں فوجی ڈکٹیٹر بیٹھا ہے۔ بشارالاسد کی حکومت دمشق تک محدود ہے۔
کیا ’’پاکستان بہار‘‘ کے آثار دکھائی دے رہے ہیں؟ کیا اس بہار کے نتیجہ میں ہمیں اصل جمہوریت ہاتھ آئے گی یا وہی جمہوریت جاری رہے گی جس میں دو تین خانوادے اپنی باریاں لیتے ہیں؟
ویسے مسلم دنیا کا بخت عجیب ہے! کہنے کو وسط ایشیائی ریاستوں میں بھی جمہوریت ہے۔ الیکشن ہوتے ہیں۔ صدر کے مقابلے میں کسی ماتحت کو کھڑا بھی کیا جاتا ہے مگر عشروں پر عشرے گزرتے ہیں‘ حکمران وہی رہتا ہے۔ 
پاکستان کی جمہوریت مصر‘ شام‘ ازبکستان اور قازقستان کی جمہوریت سے کتنی مختلف ہے؟ کیا کبھی ایسا وقت آئے گا جب برطانیہ اور امریکہ کی طرح ہماری پارٹیوں کی قیادت مسلسل تبدیل ہو گی؟ پیپلزپارٹی کی تشکیل کو نصف صدی ہورہی ہے۔ ایک ہی خاندان اس پارٹی پر مسلط ہے۔ باپ کے بعد بیٹی‘ بیٹی کے بعد بیٹی کا شوہر‘ شوہر اب اپنے بیٹے کو تیار کررہا ہے! پنجاب میں تین عشروں سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا ہے کہ ایک ہی خاندان تخت پر متمکن ہے۔ مسلم لیگ نون میں نون سے مراد نوازشریف ہے۔ یعنی پارٹی کا نام ہی گواہی دے رہا ہے کہ یہ ایک شخصیت کے گرد گھومتی ہے۔ ازبک جمہوریت! قازق جمہوریت! مصری جمہوریت! شامی جمہوریت اور پاکستانی جمہوریت!
تیس سال کے عرصہ میں‘ سرکار کے ہر شعبے میں نقب لگائی جا چکی ہے۔ وفاق سے لے کر صوبوں تک ہر جگہ وفاداروں کا ایک سلسلہ ہے جو وزارتوں‘ محکموں‘ شعبوں‘ کارپوریشنوں پر چھایا ہوا ہے۔ پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ نجم سیٹھی تھے مگر نوکر شاہی رائے ونڈ میں دست بستہ کھڑی تھی۔ میڈیا نے بتایا تھا کہ وہاں ’’زائرین‘‘ کے لیے قناتیں لگیں تھیں اور تنبو نصب تھے!!
یہ عمران خان کا جنون ہے کہ ’’پاکستان بہار‘‘ کے آثار نمودار ہوئے ہیں۔ کہاں وہ وقت کہ حکومتِ وقت نے عدالتِ عظمیٰ پر دھاوا بول دیا تھا اور کہاں یہ وقت کہ وقت کا وزیراعظم‘ تفتیشی کمیٹی کے سامنے پیش ہورہا ہے! یہ تغیر معمولی تغیر نہیں!
تو کیا ہم ان خانوادوں سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے؟ ڈیرہ اسماعیل خان سے لے کر پشاور تک‘ جو خانوادے سیاسی جماعتوں پر مسلط ہیں‘ وہ شاہی خاندان کی حمایت کر رہے ہیں۔ کیا قوم خاندانوں کے اس اتحاد کو شکست دے پائے گی؟
میڈیا کا ایک بھاری بھرکم گروہ برسرِاقتدار خانوادے کی حمایت میں سرگرم عمل ہے۔ کوئی دختر نیک اختر کا نام جانشین کے طور پر تجویز کرتا ہے‘ کوئی برادر خورد کا!    ؎
رگوں میں دوڑتا پھرتا ہے عجز صدیوں کا
رعیت آج بھی اک بادشاہ مانگتی ہے
ان میں سے کوئی بھولے سے بھی یہ نہیں تجویز کرتا کہ پارٹیوں کی قیادت تبدیل ہونی چاہیے۔
مگر ایک سفر تاریخ کا بھی ہے! پارٹیوں کی طرح خانوادوں کی بھی طبعی عمر ہوتی ہے۔ کیا عجب پارٹی پر حکمران ایک خاندان اپنی قیادت کی طبعی عمر پوری کرنے کو ہو! کیا عجب بخت یاوری کرے اور قوم کو ایک اور قیادت نصیب ہو جائے!
عمران خان کا یہ نکتہ قابلِ توجہ ہے کہ جب تک ایک خاندان اقتدار میں ہے‘ ادارے اُسی کے لیے سرِگرم کار رہیں گے۔ نوکر شاہی کی اولین ترجیح اپنی بقا ہوتی ہے۔ پنجاب میں شاید ہی بیوروکریسی کا کوئی ایسا رکن ہو جو شاہی خاندان کے مفاد کے خلاف کچھ کر سکے یا کچھ کرسکنے کا سوچے۔ ایسے میں اگر عمران خان پارٹی میں ان سیاستدانوں کو لارہا ہے جو انتخابات جیت سکتے ہیں تو اُس کے ذہن میں منصوبہ بندی یہی ہے کہ ایک بار‘ اس خانوادے سے تو نجات حاصل کی جائے جو عشروں سے حکومتوں پر اور اداروں پر قابض ہے۔ بجا کہ جو سیاست دان نیک نام نہیں‘ ان کے ورود سے پارٹی کے جوشیلے اور نوجوان کارکن خوش نہیں‘ مگر عام طور پر‘ حکومت کا سربراہ دیانت دار ہو تو وہ دیانت نیچے ضرور سرایت کرتی ہے۔ کابینہ کے اجلاس مسلسل ہوں اور ایک ایک وزیر کی کارکردگی پر سربراہِ حکومت کی کڑی نظر ہو تو بدعنوانی پنپ نہیں سکتی۔
اس وقت تو صورت حال یہ ہے کہ وزیراعظم کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں کہ ان کے وزیروں کی کارکردگی کیا ہے؟ اور عوام کے ساتھ اور سائلین کے ساتھ کیا سلوک ہورہا ہے؟ اس کالم نگار کو ایک وزارت میں کئی بار جا کربراہ راست مشاہدہ کرنے کا اتفاق ہوا۔ وزیر صاحب ہفتہ میں ایک بار صرف ایک بار۔ دفتر تشریف لاتے ہیں اور اس ایک دن کا دن دہاڑے کھلم کھلا اعلان کیا جاتا ہے۔ پوری وزارت لسانی بنیاد پر کام کر رہی ہے۔ جنہوں نے کام کرانا ہے وہ اس لسانی حوالے ہی سے سفارش ڈھونڈتے ہیں۔ کوئی قاعدہ ہے نہ قانون! کوئی سسٹم ہے نہ ضابطے! یہ صرف ایک وزارت کا احوال ہے۔ وزیراعظم کسی وزارت میں کبھی آئے ہی نہیں! وزرا کی کارکردگی چیک کرنے کا کوئی نظام نہیں! کابینہ کے اجلاس باقاعدگی سے ہونے کا تصور تک ناپید ہے۔ وزیراعظم نے آج تک یہی نہیں سوچا کہ جن ضرورت مندوں کو وفاقی وزارتوں سے شکایات ہیں‘ ان سے آگاہ کیسے رہیں اور ان کی داد رسی کا کیا بندوبست ہو! ایک وزیر اگر کسی ضرورت مند کا کام نہیں کرتا‘ یا کسی کا حق اسے نہیں دیا جاتا تو وزیر کے بعد کوئی دروازہ نہیں جو ضرورت مند کھٹکھٹا سکے۔ اب یہی ہے کہ وہ عدالتوں کے چکر لگائے اور سالہا سال انصاف کی طلب میں گزر جائیں! 
اسی کرۂ ارض پر ایسے ایسے ملک ہیں جہاں وزیر کے دفتر میں موصول ہونے والی شکایات‘ وزیر سے پہلے میڈیا کو پڑھائی جاتی ہیں۔ میڈیا ان شکایات کی تشہیر کرتا ہے۔ وزیر میڈیا کو بھی جواب دیتا ہے اور حکومت کے سربراہ کو بھی!! مگر جہاں یہ خبر عام ہو کہ حکومت کا سربراہ خود فائل پڑھتا ہے نہ اس پر کچھ لکھتا ہے‘ سارا نظامِ حکومت کارندوں کی وساطت سے چل رہا ہے‘ وہاں وزرا کی کارکردگی کو کون پوچھے گا!
سیاست اور شے ہے۔ کاروبار حکومت اور شے! ہمارے ہاں سیاست دان جب حکومت کا سربراہ بنتا ہے‘ تو سارا وقت سیاست پر صرف کرتا ہے۔ سیاست کا مفہوم ہمارے ہاں جوڑ توڑ ہے۔ یہی وہ سیاست ہے جس کا دعویٰ آصف زرداری صاحب فخر سے کیا کرتے ہیں! جوڑ توڑ! مک مکا! مخالفین کو رام کرنا! ہنس کر‘ دولت سے یا رعب ڈال کر! پہلا اور آخری مقصد اقتدار کی طوالت ہے اور حکمرانی کی بقا! اس کے لیے خزانے کا منہ کھول دیا جاتا ہے۔ مناصب بانٹے جاتے ہیں! عہدے تقسیم ہوتے ہیں! اہلیت کا گلا گھونٹا جاتا ہے۔ ہر جگہ ’’اپنے بندے‘‘ براجمان کیے جاتے ہیں۔ برادری معیار بنتی ہے۔ علاقہ کسوٹی بن جاتا ہے۔ جن کا حق ہوتا ہے وہ گلیوں میں گرد اڑاتے جوتے چٹخاتے ہیں‘ جو اہل نہیں ہوتے وہ خانوادے کی قربت کے سبب مسندوں پر بیٹھ جاتے ہیں! تھانیداروں کی تعیناتیوں کے فیصلے صاحبزادہ کرتا ہے۔ میڈیا سیل دختر نیک اختر چلاتی ہے! فنڈز کے حصول کے لیے عوامی نمائندے پسرِ نسبتی کو سلام کرتے ہیں! وزرا ہفتوں اپنے دفاتر میں نہیں جاتے‘ عدالتِ عظمیٰ کے باہر یا جے آئی ٹی کے دروازے پر میلہ لگاتے ہیں! یہ ہے پاکستانی جمہوریت!
’’پنجاب سپیڈ‘‘ اور پنجاب ماڈل کا بہت شہرہ ہے۔ تازہ ترین خبر یہ ہے کہ سو بچے جو لاہور میں اغوا ہوئے‘ ان کی تلاش کیا ہوتی‘ فائلیں ہی ٹھپ ہو گئی ہیں! حکومت وہ ہوتی ہے جو توازن برقرار رکھے اور ترقیاتی منصوبوں کے ساتھ نظم و نسق اور امن و امان کی ضمانت دے۔ اگر صوبے کے دارالحکومت سے بچے سینکڑوں کی تعداد میں اغوا ہورہے ہوں اور پولیس خون کے آنسو روتے ماں باپ کی داد رسی نہیں کرتی تو خادم اعلیٰ کہلانے والے حکمران کے پاس اس کا کیا جواب ہے؟ مگر جواب کا تقاضا کون کرے گا؟ وہ تو اسمبلی ہی کو خاطر میں نہیں لاتے۔ وزارت داخلہ کا قلم دان اپنی تحویل میں ہے۔ کئی اقسام کی پولیس قومی خزانے سے تنخواہیں لے رہی ہے۔ ہزاروں گاڑیاں اس پولیس کے تصرف میں ہیں۔ مگر اغوا شدہ بچے نہیں برآمد ہورہے! جہاں پولیس خاندانوں کی حفاظت پر مامور ہوگی‘ وہاں پولیس کی کارکردگی کا معیار کیا ہوگا!
کیا ایسی مطلق العنان بادشاہی ہمیشہ رہے گی؟ کیا عشروں پر عشرے اسی طور گزرتے رہیں گے    ؎
تو کیا ان اندھیرے مکانوں میں ہم
یونہی دن گزارے چلے جائیں گے؟
پھر فیض یاد آتے ہیں    ؎
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
کیا  ہم ’’پاکستان بہار‘‘ کے آثار دیکھ رہے ہیں؟

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com