Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Sunday, June 25, 2017

پی ٹی آئی‘ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کی راہ پر

حال ہی میں جس دن پیپلزپارٹی کے ایک معروف سیاست دان نے پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان کیا‘ اسی دن 92 نیوز چینل کے پروگرام ’’نیوز روم‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے اس کالم نگار نے پوچھا کہ کل عمران خان وزیراعظم بنے تو کیا اس سیاست دان کے بھائی کے خلاف کارروائی کر پائیں گے؟
یہ بھی عرض کیا تھا کہ عمران خان ان لاکھوں نوجوانوں کی امیدوں پر پانی پھیر رہے ہیں جنہوں نے ’’برگر فیملی‘‘ اور ’’ممی ڈیڈی‘‘ کے طعنے سنے مگر کھاتے پیتے گھروں کے یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان مہینوں عمران خان کے دھرنے میں فرشِ زمین پر بیٹھے رہے۔
دو قسطوں میں ایک معروف کالم نگار نے کرپشن کی جو دماغ سوز روداد بیان کی ہے اسے پڑھ کر یہی کہا جاسکتا ہے کہ      ع
اب وہ کہانی عام ہوئی ہے‘ سنتا جا شرماتا جا
اس حیرت انگیز داستان امیر حمزہ کے الگ الگ اجزا‘ بہت حد تک میڈیا سے تعلق رکھنے والوں اور باقاعدگی سے اخبارات کا مطالعہ کرنے والوں کو پہلے سے معلوم تھے مگر اب اس رپورٹ میں سے پوری کہانی منظر عام پر آ گئی ہے جو ایف آئی اے کی وساطت سے سپریم کورٹ کے ریکارڈ کا حصہ ہے۔
’’ہم نے ان اٹھارہ ڈیلز میں 71 (اکہتر) کروڑ روپے رشوت اور کمیشن وصول کی۔ میرا حصہ سولہ کروڑ روپے بنا۔ باقی رقم… وہ ان کے ساتھیوں نے آپس میں بانٹ لی۔ یہ رقم بعدازاں ہنڈی کے ذریعہ برطانیہ گئی اور ہم نے اس سے وہاں پراپرٹی خریدی۔‘‘
بیان کا یہ حصہ بھی عبرت ناک ہے:
’’یوں علیم خان کو مجموعی طورپر دو ارب ساٹھ کروڑ روپے ادا کئے گئے۔ یہ دونوں پلاٹ دریا برد تھے۔‘‘
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا عمران خان کو کرپشن کی اس کہانی کا علم نہ تھا؟ اس سوال کے دو ہی ممکنہ جواب ہیں۔ عمران خان اس سے آگاہ تھے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ آگاہ نہیں تھے۔ دونوں جواب شرم ناک ہیں۔ آگاہ ہونے کے باوجود انہوں نے ایسے سیاست دانوں کے لیے پارٹی کا دروازہ کھول دیا جو کرپشن میں گلے گلے تک دھنسے ہوئے ہیں۔ ایسا کر کے عمران خان نے اپنی پارٹی کی پیٹھ میں خود ہی چھرا گھونپ دیا ہے۔ اور اگر آگاہ نہیں تھے تو یہ نااہلی کی آخری انتہا ہے۔ آپ پارٹی میں کسی کو داخل کررہے ہیں اوراس کے ماضی کے حوالے سے چھان بین ہی نہیں کر رہے!
نہیں! ایسا نہیں کہ عمران خان کو حال ہی میں پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے سیاست دانوں کی شہرت کا علم نہیں! انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ کیسے لوگ ہیں۔ مگر عمران خان کے بخت میں کاتبِ تقدیر نے لکھ دیا ہے کہ وہ استقامت سے عاری ہیں۔ انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ اب وہ ہر حال میں اقتدار کے قلعے پر قبضہ کریں گے۔ چنانچہ اب وہ فصیل پر چڑھنا چاہتے ہیں خواہ اس کے لیے کرپٹ سیاست دانوں کے کاندھوں پر کیوں نہ سوار ہونا پڑے۔ وہ اس فصیل سے اندر کود کر‘ حکومت کے قلعے کا دروازہ کھولنا چاہتے ہیں تاکہ پی ٹی آئی دروازے سے اندر داخل ہو جائے اور قلعے پر قبضہ کرلے۔
مڈل کلاس کے ساتھ اس ملک میں پہلا کھیل ایم کیو ایم نے کھیلا۔ لوگوں سے بندوق کے زور پرکھالیں چھینیں‘ سیکٹر کمانڈروں کا مافیا قائم کیا‘ الطاف حسین کو لندن کی پرتعیش زندگی فراہم کی‘ بوری بند لاشوں‘ ڈرل کیے گئے جسموں اور کیل ٹھونکے گئے سروں کا کلچر متعارف کرایا۔ مڈل کلاس کے نام پر پورٹ جہاز رانی کی اور ہائوسنگ اور تعمیرات کی وزارتوں کو سالہا سال تک نچوڑا گیا۔ ہیوسٹن سے لے کر لاس اینجلز تک سپر سٹوروں اور پٹرول پمپوں کے جال بچھ گئے۔ اکثر کے اہل خانہ امریکہ اور کینیڈا کے چمکدار شہروں کے گراں ترین حصوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ جبکہ ’’صاحب‘‘ یا ’’صاحبان‘‘ جنوبی پاکستان میں سیاست سے شغل فرما رہے ہیں!
مگر اس سے بھی شدید تر صدمہ مڈل کلاس کو… اس سیاہ بخت‘ لولی لنگڑی مڈل کلاس کو… عمران خان اور عمران خان کی پی ٹی آئی نے پہنچایا ہے! مومن کے بقول‘ مڈل کلاس کو اب یہی کہا جاسکتا ہے کہ      ع
مرچُک کہیں کہ تو غمِ ہجراں سے چھوٹ جائے!
کس منہ سے عمران خان‘ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون کی کرپشن کی اب مذمت کریں گے ’ کس منہ سے… جے آئی ٹی اور عدالت عظمیٰ کی خدمت میں کرپشن کے انسداد کے لیے عرض گزاری کریں گے؟ پیپلزپارٹی مسلم لیگ (قاف اور نون)‘ جے یو آئی اور پی ٹی آئی میں کیا فرق رہ گیا ہے؟
پی ٹی آئی کو کچرے کے ایک ڈھیر میں تبدیل کر کے اگر عمران خان اوران کے رفقاء کو کچھ بھی محسوس نہیں ہورہا تو کم از کم ان نوجوانوں کو ضرور شرم آ رہی ہے جو کرپشن فری پاکستان اور میرٹ والے پاکستان کی آروز میں اس کے شریکِ سفر ہوئے تھے۔ ان تارکینِ وطن کے چہرے حیا سے ضرور سرخ ہورہے ہوں گے جنہوں نے عمران خان سے امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں۔ پرتھ‘ میلبورن اور سڈنی کے وہ بے غرض نوجوان جو شدید مصروف زندگی سے وقت نکال کر پی ٹی آئی کے لیے کام کر رہے تھے کیا پیپلزپارٹی اور دوسری جماعتوں کے کرپٹ عناصر کو خوش آمدید کہیں گے؟ کینیڈا سے لے کر امریکہ تک اور لندن سے لے کر بارسلونا اور اوسلو تک پاکستانی تارکین وطن جس غم و اندوہ کی حالت میں ہوں گے‘ اس کا فقط تصور ہی کیا جاسکتا ہے!
جن افراد کو جیل میں ہونا چاہیے تھا‘ ان کے گلوں میں پی ٹی آئی کی رنگین چادریں‘ پھولوں کے ہاروں کی طرح ڈال کر عمران خان شریف برادران کے بارے میں کس منہ سے کہیں گے کہ ان کی جگہ اڈیالہ جیل میں ہے؟ ہم جیسے کالم نگاروں نے پی ٹی آئی کا ساتھ دیا‘ اس کے حق میں درجنوں نہیں‘ بیسیوں کالم لکھے‘ ٹیلی ویژن چینلوں پر عمران خان کا دفاع کیا‘ مگر بقول ناصر کاظمی     ؎
میں نے تیرا ساتھ دیا
میرے منہ پر کالک مل
تو پھر ڈاکٹر عاصم اور شرجیل میمن کو پی ٹی آئی میں کیوں نہ لے لیا جائے؟ بلکہ بہتر طریقہ تو یہ ہے کہ عمران خان پیپلزپارٹی میں پی ٹی آئی کو مدغم کر کے کرپٹ سیاستدانوں کی سرپرستی کا کام آصف زرداری کی قیادت میں کریں اور ان کے تجربے سے فائدہ اٹھائیں! جو راستہ عمران خان نے اختیار کیا ہے اس میں انہیں رہنمائی کی لازماً ضرورت پڑے گی۔ اس رہنمائی کے لیے زرداری صاحب سے بہتر کون ہو سکتا ہے؟
کرپشن کی اس دلسوز کہانی کا ایک سرا علیم خان سے تو مل ہی رہا ہے‘ مگر کیا پی ٹی آئی میں شامل دیگر سیاست دانوں کے گلے رُندھ گئے ہیں کہ وہ احتجاج کا ایک لفظ زبان تک نہیں لا رہے؟ ٹیلی ویژن چینلوں پر بیٹھ کر پی ٹی آئی کا دفاع کرنے والے خیبر پختونخواہ کے جوشیلے نوجوان کیوں چپ ہیں؟ کیا مراد سعید اور علی محمد خان نہیں دیکھ رہے کہ پنجاب میں کیا چاند چڑھائے جا رہے ہیںٖ؟ کیا محمودالرشید کے کرپشن کے خلاف دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں؟ اور کیا عارف علوی راضی برضا ہو گئے ہیں؟
عمران خان‘ پارٹی کو پستی کی ان گہرائیوں میں لے آئے ہیں جس کے بعد اب اسفل السافلین ہی کا درجہ باقی رہ گیا ہے! کوئی دن کی بات ہے کہ دانیال عزیز‘ طلال خان‘ ماروی میمن اور رانا ثناء اللہ کیلئے بھی دروازے کھل جائینگے کیونکہ اگر مقصد حکومت حاصل کرنا ہے توپھر ان حضرات نے کون سا گناہ کیا ہے؟ جو حضرات اب پی ٹی آئی میں جوق در جوق آ رہے ہیں اور خبروں کے مطابق آنیوالے ہیں‘ ان سے موازنہ کریں تو دانیال عزیز اور طلال خان بہتر ثابت ہونگے!
مگر عمران خان یاد رکھیں کہ ہم جیسے کالم نگار‘ جنہوں نے پی پی پی اور مسلم لیگ کی قانون شکنی‘ اقربا پروری اور بے ضابطگیوں کے خلاف کھل کر لکھا اور خم ٹھونک کر کھڑے ہوئے‘ پی ٹی آئی کی کرپشن نوازی کے خلاف بھی لکھیں گے اور جم کر‘ ٹِکا کر لکھیں گے! قلم امانت ہے۔ سیاہ کو سیاہ اور سفید کو سفید ہی کہا جائے گا۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون سے دشمنی ہے نہ جائیداد کا جھگڑا‘ نہ ہی پی ٹی آئی سے رشتہ داری ہے۔ پی ٹی آئی نے نئے پاکستان کا نعرہ لگایا‘ کرپشن کے خلاف سٹینڈ لیا‘ ہم نے دل و جان سے حمایت کی۔ مگر اب اگر پی ٹی آئی اسی خوراک کو حلال قرار دے رہی ہے جسے حرام کہتی تھی تو ہم پی ٹی آئی کو آئینہ دکھائیں گے! اور ضرور دکھائیں گے!!
مسدس حالی کے آغاز میں حالی نے ایک رباعی لکھی ہے۔ لگتا ہے حالی عمران خان سے مخاطب ہیں     ؎
بلبل کی چمن میں ہم زبانی چھوڑی
بزمِ شعرا میں شعر خوانی چھوڑی
جب سے دلِ زندہ! تو نے ہم کو چھوڑا
ہم نے بھی تری رام کہانی چھوڑی

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com