ایک دن ہزار سے زیادہ عرضیاں آئیں‘ جعفر برمکی نے سب پر اپنے قلم سے
احکام لکھے۔ یوں کہ کسی عرضی پر مکرر الفاظ نہ آئے۔ اس قسم کے مختصر احکام کو توقیعات کہتے ہیں۔ ان توقیعات میں حسن اختصار بھی ہوتا تھا‘ حسن کتابت بھی اور فصاحت و بلاغت بھی! شائقین ادب کا یہ حال تھا کہ بغداد کے بازاروں میں جعفر برمکی کے توقیعات ایک ایک اشرفی میں فروخت ہوتے تھے!
جعفر برمکی اور خالد برمکی کون تھے؟ ابوالفضل‘ فیضی‘ راجہ ٹو ڈرمل اور بیربل کون تھے؟ یہ اس زمانے کی سول سروس کے ارکان تھے۔ اس لیے کہ یہ جاگیردار تھے نہ نواب‘ نہ کمانڈر! ان کی شناخت ان کا علم و فضل تھا۔ کبھی کبھی ان زمانوں میں وزیر اور سیکرٹری کا منصب ٹو ان ون بھی ہوتا تھا۔ نظام الملک طوسی کا یہی سٹیٹس تھا! ابوالفضل نے جو کچھ لکھا‘ آج اکبر کا زمانہ اسی حوالے سے یاد کیا جاتا ہے۔ برٹش انڈیا میں جب سول سروس ایک مستحکم انسٹی ٹیوشن کی شکل اختیار کر گئی تو علم و ادب‘ سول سروس کی پہچان ٹھہرا۔ ضلعی گزٹ اس پر گواہ ہیں! فلپ میسن برٹش انڈیا کی وزارت دفاع میں جوائنٹ سیکرٹری تھا۔ اس وقت سکندر مرزا بھی وہیں جوائنٹ سیکرٹری تھے۔ فلپ میسن نے ایسی کتابیں تصنیف کیں جو آج بھی مشہور اور مقبول ہیں۔ سید امیر علی نے سپرٹ آف اسلام اور ہسٹری آف
History of Saracen
جیسی معرکہ آرا کتابیں لکھیں۔ یہ روایت تقسیم کے بعد بھی قائم رہی۔ آج اردو ادب میں انڈین سول سروس کے شمس الرحمن فاروقی سے بڑا نام شاید ہی کوئی ہو۔ سرحد کے اس طرف شیخ محمد اکرام‘ عزیز احمد‘ رفیق خاور‘ قدرت اللہ شہاب‘ الطاف گوہر‘ سرتاج عزیز‘ محبوب خزاں‘ ابن الحسن سید‘ نجم حسین سید اور عبدالعزیز خالد سول سرول کے وہ ستارے ہیں جو ادب و دانش کے آسمان پر چمک رہے ہیں!
جمیل بھٹی بھی اسی کہکشاں کا حصہ ہے۔ وہ بیک وقت دو روایتوں کا وارث ہے۔ معروف مصنف پروفیسر اسماعیل بھٹی کا فرزند ہونے کے حوالے سے ادبی ذوق وراثت میں ملا۔ اس ذوق کو سول سروس نے صیقل کیا۔ سروس کے دوران اس نے حکومتوں کو اور ابنائے حکومت کو قریب سے دیکھا۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے شعبہ حسابات و مالیات کے سربراہ کی حیثیت سے ان جونکوں‘ بھیڑیوں‘ سانپوں اور بچھوئوں کو قریب سے دیکھا جو عوام کی خون پسینے کی کمائی کے اردگرد کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ اس کی نئی تصنیف ’’وی آئی پی کباڑخانہ‘‘ بظاہر تو طنز و مزاح کے پیرائے میں لکھی گئی ہے مگر اصل میں آہوں‘ ہچکیوں‘ سسکیوں‘ خراشوں اور کراہوں کی کہانی ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا اہم شعبہ ہو جس کی دلخراش سرگزشت جمیل نے اس کتاب میں نہ سموئی ہو۔ سیاست دان‘ بیوروکریٹ‘ جاگیردار‘ صنعت کار‘ تاجر‘ ٹھیکیدار‘ کلرک‘ علماء سب کے کارنامے بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ کچہری‘ تعلیمی ادارے‘ ریلوے‘ پی آئی اے‘ عدلیہ‘ سب کا رونا رویا ہے۔ اسلوب اتنا دلچسپ ہے اور انداز بیان اس قدر دلکش کہ قاری پڑھتا ہی چلا جائے۔ عام طور پر ان موضوعات پر لکھی ہوئی تحریریں ثقیل ہو جاتی ہیں اور عام قاری کے کام کی کی نہیں رہتیں۔ مگر جمیل نے ان ادق موضوعات کو ہلکے پھلکے طنزیہ انداز میں برتا ہے اور مقصد اپنے سامنے یہ رکھا ہے کہ وہ پاکستانی بھی جو ’’دانش ور‘‘ نہیں‘ حقیقت حال کا ادراک کرسکیں۔ اس کے طنز کے تیر میٹھے زہر میں بجھے ہیں۔ مثلاً تاجروں کے بارے میں اس کی یہ سطور پڑھیے:
’’بوڑھے تاجر احساس ذمہ داری کے بوجھ تلے دب کر مساجد اور مولوی صاحبان کو گود لے لیتے ہیں اور ان کی کفالت سے آخرت کا راستہ آسان کرتے ہیں‘ یہ جوانی میں نیویارک اور بڑھاپے میں سعودی عرب جانے کے مشتاق ہیں۔‘‘
سیاست دانوں کی اصلیت دیکھئے:
’’اصلی کوئوں کی طرح جمہوریت کے کوے بھی گروہ بنا کر رہتے ہیں اور اس کوے کو اپنا سردار بناتے ہیں جو سب سے زیادہ کائیں کائیں کر سکتا ہو اور اچھا ہدف تلاش کرنے کا ماہر ہو۔ ان میں خوب بھائی چارہ ہوتا ہے۔ سب مل کر کھاتے ہیں۔‘‘
پی آئی اے کی حالت زار ملاحظہ ہو:
’’پی آئی اے کا سٹاف ہیروئن‘ سمگلنگ اور جعلی امیگریشن میں بھرپور ساتھ دیتا رہا ہے اور ملک کے لیے زرمبادلہ کا خفیہ بندوبست کرتا رہا ہے۔ اپنی کارکردگی کی بنا پر کئی ملکوں کے ایئرپورٹ اپنے لیے بند کروائے ہیں۔ حکومت کو اس نالائق اولاد کے لیے بارہا معافیاں مانگنا پڑیں۔ پی آئی اے دنیائے عرب کی اکثر ایئرلائنوں کی ماں ہے جن کو اس نے اڑنا سکھایا مگر اب یہ بوڑھی مرغابی کی طرح ان کو دور سے اڑتا دیکھتی ہے!
ریلوے کی صورت حال دیکھئے:
’’سکریپ ادھر ادھر کرنا ریلوے کے عملہ کا پسندیدہ نسخہ ہے۔ مصری شاہ میں سینکڑوں لوہے کی بھٹیاں برسوں سے ریلوے کے سکریپ پر چل رہی ہیں۔ خانیوال‘ میاں چنوں کے ٹریکٹر کے ہلوں کے بھالے بہت مشہور ہیں۔ سب کو پتہ ہے کہ یہ ریلوے بریکوں سے بنتے ہیں۔ ریلوے کی بریکیں سکریپ ہو کر خود بخود وہاں حاضر ہو جاتی ہیں۔ سنا ہے ریلوے ورکشاپوں کے اہم عہدہ داروں اور مزدور لیڈروں کے گھروں میں روٹی پکانے کے توے‘ چولہا گرم کرنے کے پھنکنے اور چمٹے ریلوے ورکشاپ کی طرف سے تحفتاً جاتے ہیں۔‘‘
انتظامی معاملات میں سیاسی مداخلت کس طرح کی جاتی ہے‘ ایک جھلک دیکھئے:
پچھلے دنوں آپ نے اخبارات میں ایک واقعہ ضرور پڑھا ہو گا کہ کس طرح ایک ضلعی ایجوکیشن افسر کے تبادلے کے سلسلے میں وزیروں کے درمیان ٹھن گئی اور اس افسر کا ڈیڑھ ماہ میں سات مرتبہ تبادلہ ہوا مگر اس پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔ ایسی صورت میں محکمہ تعلیم کے افسران اور اساتذہ بالکل ان معصوم جانوروں کی طرح دبکے اور سہمے رہتے ہیں جن کے سامنے دو بھیڑیے اس بات پر لڑ رہے ہوں کہ انہیں پہلے کون کھائے گا۔‘‘
الیکٹرانک میڈیا نے صحافت کا جو حال کیا ہے اس کا حال دیکھیے:
’’خبرنامہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر خبروں کے مجموعے کو کہتے ہیں۔ باہر کے
ممالک میں خبرنامہ اہم ملکی اور غیر ملکی خبروں کا احاطہ کرتا ہے اور عوام کو ان کے مثبت اور مضر اثرات سے آگاہ کرتا ہے۔ ہمارے ہاں خبرنامہ سے مراد اعلیٰ سرکاری سیاسی اور سماجی خیریت نامہ ہے۔ یعنی ملک کے اہم لوگوں نے صبح اٹھ کر کیا کیا؟ دوپہر کو کیا کھایا؟ شام کہاں گزاری؟ کس کے ساتھ پیار سے گفتگو کی؟ البتہ رات کہاں گزاری؟ یہ ان کا ذاتی معاملہ سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں۔‘‘
رشوت خور صرف رشوت خور نہیں‘ بہت کچھ اور بھی ہے۔ سنیے:
’’انسانی تہذیب کی معراج یہ ہے کہ بدتہذیبی کی آدم خور علت‘ مختلف مراحل طے کرتی‘ چغل خور‘ مفت خور‘ حرام خور اور گوشت خور کی خوبیاں سمیٹے‘ رشوت خور کی صورت میں تہذیب کا منہ چڑانے ہم سب کے سامنے آکھڑی ہوئی ہے۔ رشوت خور آدم خور بھی ہے۔ یہ اپنے مقاصد کے لیے انسانوں کو نوچتا اور ہڑپ کرتا ہے۔ یہ چغل خور بھی ہے۔ ادھر کی بات ادھر کر کے اپنے مقاصد حاصل کرتا ہے اور اپنے معاوضے میں اضافہ کرا لیتا ہے۔ یہ مفت خور بھی ہے یعنی دوسروں کی کمائی کو مکاری سے اپنی تجوری میں بھر لیتا ہے۔ یہ حرام خور بھی بلا کا ہے! اپنے سارے کام دوسروں سے کرواتا ہے۔ کام چوری کے سو بہانے تلاش کرتا ہے۔ یہ گوشت خور بھی انتہا کا ہے جن محفلوں کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے ان میں زیادہ تر رشوت خور ہی گلچھرے اڑاتے نظر آتے ہیں۔ اسی لیے رشوت خور کو اکیسویں صدی کا ’’خوروں‘‘ کا بے تاج بادشاہ کہنا اس کے شایان شان ہوگا!‘‘
یہ چند اقتباسات ہیں جو ’’وی آئی پی کباڑخانہ‘‘ سے پیش کئے گئے ہیں‘ اس انتخاب میں مشکل پیش آئی‘ اس لیے کہ ہر عنوان اور ہر باب ہی دامن پکڑ لیتا ہے۔ ابواب کے عنوانات سے موضوعات کے تنوع کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ معاشرتی مافیے‘ لوٹا کہیں جسے‘ پارلیمانی جمہوریت یا فری سٹائل کشتی‘ لیڈر بھبکی‘ قبریں (خاموش ثقافت)‘ گناہِ جاریہ‘ چاچا آئی ایم ایف‘ لالو‘ للو اور ریلوے‘ چھتر‘ پیاز اور کالا باغ ڈیم‘ قومی سوچ کے فاتح خوان‘ کوے پال مہم‘ چند ابواب کے عنوانات ہیں۔ جمیل نے نئے نئے نکتے نکالے ہیں۔ مرثیہ خوانی ہے مگر ہجو بھی ہے۔ ماتم ہے مگر زیر لب مسکراہٹ کے ساتھ! امید ہے جمیل لکھنے کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ خوباں سے یہ چھیڑ جاری رکھنی چاہیے!
سول سروس کے ارکان ایک طرف تو حکومت سے جڑے ہوتے ہیں دوسری طرف کی کھڑکی عوام کی طرف کھلی ہوتی ہے۔ ہر سول سرونٹ کو اپنی یادداشتیں قلم بند کرنی چاہئیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد‘ سرکاری بندھنوں سے آزاد ہونے کو غنیمت جانتے ہوئے‘ اپنے تجربے عوام کے ساتھ شیئر کرنے چاہئیں۔ یہ تجربے سول سروس کے تازہ واردان کے لیے رہنما ثابت ہوں گے اور کبھی کبھی سامان عبرت بھی!! ساحر لدھیانوی نے کہا تھا ؎
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں
No comments:
Post a Comment