تنازع کھڑا ہو گیا۔ گائوں کے بزرگ نے جو عالم تھے اور معلم، زمیندار کو
کسی معاملے میں چیلنج کر دیا۔ ’’نہیں! ایسا نہیں ہو سکتا‘‘ بزرگ نے دوٹوک الفاظ میں انکار کر دیا۔ زمیندار ’’نہ‘‘ سننے کا عادی نہ تھا۔ ’’میں کل تمہیں ٹھیک کروں گا‘‘۔ اس نے فیصلہ کن تحکمانہ لہجے میں کہا۔
بزرگ کے منہ سے بے اختیار نکلا…’’کل تم ہو گے تو ٹھیک کرو گے نا!‘‘
کسی کو معلوم نہیں، وہ رات بزرگ نے کیسے بسر کی مصلے پر یا بستر میں! مگر لوگوں نے دیکھا کہ دوسرے دن زمیندار چارپائی پر چت لیٹا ہوا تھا۔ چارپائی کو گائوں والوں نے کندھوں پر اٹھایا ہوا تھا۔ کلمۂ شہادت کی تکرار ہو رہی تھی۔ قبر کھودی جا چکی تھی۔ یہ اس کا جنازہ تھا جس نے اسی دن بزرگ کو ٹھیک کرنا تھا!
نہال ہاشمی!!
نہال ہاشمی؟؟
کون نہال ہاشمی؟؟
اس سے پہلے کہ حساب لینے والے ’’حاضر سروس‘‘ سے ریٹائرڈ ہو جائیں‘ اس سے پہلے کہ نہال ہاشمی ان پر اور ان کے بچوں پر زمین تنگ کر دے، وقت کا جھکڑ، ایک نہال ہاشمی کو نہیں، کئی نہال ہاشمیوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جا چکا ہو گا! وقت نہال ہاشمی سے زیادہ طاقت ور ہے۔
تاریخ نہال ہاشمی کی کنیز ہے نہ زرخرید!تاریخ کا دھارا بڑے بڑوں کو نابود کر گیا، نہال ہاشمی تو محض خدمت گار ہے!
نہال ہاشمی نے دھمکی دی تو اس دھمکی میں اس کی سب سے بڑی دلیل یہ تھی کہ جس کا حساب لے رہے ہو وہ نواز شریف کا بیٹا ہے۔ یہ خوشامد کی انتہا ہے۔ نواز شریف نے تاریخ کا مطالعہ کیا ہوتا تو انہیں معلوم ہوتا کہ خوشامدی کس سلوک کے مستحق ہوتے ہیں۔ امیر المومنین عمر فاروقؓ کی ایک شخص نے خوشامد کی۔ آپ نے جھک کر زمین سے مٹھی بھر مٹی اٹھائی اور اس کے منہ میں ڈال دی!
دو ہی صورتیں ہیں! پہلی یہ کہ نہال ہاشمی کو استعمال کیا گیا اور اس سے یہ الفاظ کہلوائے گئے۔ یعنی اسے آلۂ کار بنایا گیا۔ ایک شخص جو آلۂ کار بن کر دوسروں کے ہاتھ میں کھیلتا ہے، اس کی کیا وقعت ہے؟ خلقِ خدا کے دلوں میں اس کا کیا مقام ہے؟ لوگ اسے کیا سمجھتے ہیں؟ ان سب سوالوں کے جواب واضح اور کھلے ہیں! مشین کا ایک چھوٹا سا پرزہ! جسے کسی بھی وقت نکال کر کوڑے کرکٹ کے ڈھیر میں پھینکا جا سکتا ہے اور اس کی جگہ نیا پرزہ لگا لیا جاتا ہے۔ کوڑے کا ڈھیر! جس میں ایسے درجنوں بیسیوں پرزے پڑے ہوتے ہیں! دوسرے دن وہ ڈھیر غائب ہوتا ہے! کیا کبھی کسی نے ایک لمحہ کے لیے بھی سوچا کہ ڈھیر کہاں گیا؟ ایک لمحہ بھی کوئی نہیں ضائع کرتا۔ کوئی کھوج نہیں لگاتا کہ ڈھیر کو کھیتوں میں بکھیر دیا گیا یا کمیٹی کا ٹرک آ کر لے گیا۔ مگر نہال ہاشمیوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ کمیٹی کے کارکن ناک پر کپڑا رکھ کر اس ڈھیر کو ٹرک پر لادتے ہیں!
دوسری صورت یہ کہ یہ اس کی اپنی ہمت تھی ایک روایت میں ہے کہ اس دھمکی سے پہلے اس نے کہا تھا کہ آج کی تقریر سے قیادت خوش ہو جائے گی۔ اگر ایسا ہے تو اس کی حیثیت ایک ملازم ایک درباری ایک خوشامدی سے زیادہ کیا ہے۔
افسوس! صد افسوس! خوشامد کا معیار بھی کس قدر گر گیا ہے۔ ابوالفضل اور فیضی شہنشاہ اکبر کی پرستش کرتے تھے تو زبان و ادب کا ایسا اعلیٰ معیار قائم کرتے تھے کہ وہ زبان و ادب آج بھی ادب کی تاریخ میں زندہ ہے۔ مگر نہال ہاشمیوں اور پرویز رشیدوں نے تو خوشامد کے لیے زبان بھی استعمال کی تو عامیانہ! غور کیجیے، اپنے آقا و مربی شہنشاہ اکبر کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ابوالفضل اکبر کے باپ ہمایوں کا تذکرہ کس طرح کرتا ہے:
مظہرِ کراماتِ عالی، مصدر الہاماتِ متعالی، رافعِ صریرِ خلافتِ عظمیٰ، ناصبِ لوائے ریاستِ کبریٰ، ملک بخشِ ممالکستان، مسند نشینِ سعادت نشان، منبعِ عیونِ رافت و احسان، موردِ انہارِ علم و فرمان، حق گزینِ حقیقت شناس، کثرتِ آئینِ وحدت اساس، بادشاہِ درویش نصاب، درویش پادشاہ خطاب، چمن پیرائی نظامِ دین و دنیا، نخل بندِ بہارِصورت و معنیٰ، کرسیٔ کرۂ اسرارِ ابدی و ازلی، عضادۂ اصطرلابِ حکمتِ عملی و علمی، گوہرِ ہفت دریا و فروغِ چہار گوہر، مطلعِ انوارِ اعظم و مشرقِ سعدِ اکبر، ہمائی آسمان بالِ اوجِ بلند پروازی، نصیر الدین محمد ہمایوں پادشاہ غازی!
خدا کے بندو! چاکری کرنا تھی تو یوں کرتے کہ کچھ دن تاریخ میں زندہ ہی رہ جاتے، مگر پہلے زمانے کے بادشاہوں اور آج کل کے جمہوری آمروں میں یہی تو فرق ہے کہ بادشاہ حساب برابر کرنے کے لیے علما و فضلا اپنے اردگرد رکھتے تھے۔ اس لیے کہ وژن تھا اور ذوق کے مالک تھے! یہاں! خزانہ اور عوام کی کمائی بھی لوٹتے تھے۔ اب تو صرف لوٹ مار ہے اور علماء و فضلا سے نہ صرف دُوری بلکہ نفرت! صحیح معنوں میں پڑھے لکھوں کی آج کی سیاسی جماعتوں میں کیا تعداد ہے، کچھ بتانے کی حاجت نہیں۔
علم؟ اور آج کے خوشامدیوں میں؟ ع
ایں خیال است و محال است و جنوں
اس پروردگار کی قسم جس نے الفاظ کو معانی عطا کیے، جس نے حرف کو حرمت بخشی اور جس نے قلم کو توقیر عطا کی، اس کالم نگار کے دل میں پرویز رشید صاحب کے لیے بے وقعتی تب پیدا ہوئی جب انہوں نے لندن کی آبادی مڈل سیکس کے لیے اپنے ’’علم و عرفان‘‘ کا مظاہرہ کیا۔ خوشامد اور خوشنودی کی دنیا میں یہ ایک ایسا ’’شہکار‘‘ہے جس کی مثال آئندہ وقتوں میں شاید ہی ملے۔ فرمایا
’’صرف اُس ایریا کا نام لے لیں جہاں خان صاحب کے بچے پل رہے ہیں۔ میں اس ایریا کا نام نہیں لوں گا کیوں کہ مسلمان کی زبان پر وہ نام آ جائے تو وضو کرنا پڑتا ہے۔ صرف اتنا بتاتا ہوں آپ کو! لیکن خان صاحب سے پوچھیے گا کہ اس ایریا کا نام کیا ہے۔ خان
صاحب اگر وہ نام بتا دیں تو انہیں بھی وضو کرنا پڑ جائے اگر وہ وضو کرنے
پر یقین رکھتے ہیں‘‘
غور کیجیے، آقا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اس ایریا پر کیا کمال ’’تحقیق‘‘ کی ہے! اور عمران خان سے کون سا جائداد کا جھگڑا تھا؟ صرف اور صرف آقا کو خوش کرنے کے لیے! اس بات کو تو چھوڑیے کہ مفتی پرویز رشید صاحب نے وضو کے حوالے سے جو فتویٰ دیا اس پر امام ابو حنیفہؒ اور امام مالکؒ کی ارواح پر کیا گزری ہو گی، فی الحال اِس حقیقت سے لطف اٹھائیے کہ ’’مڈل سیکس‘‘ میں سیکس سے مراد وہ نہیں جو پرویز رشید صاحب نے کہا۔ مڈل سیکس میں سیکس کا لفظ اینگلو سیکسن سے آیا۔ اینگلو سکسین اصل میں قبیلے کا نام تھا!
ESSEX
کی کائونٹی کا نام بھی اسی سے نکلا ہے۔
نہال ہاشمی کو سوچنا چاہیے تھا کہ جن پرویز رشید صاحب کی تصویر اور بیان ہر روز بیسیوں اخبارات کے پہلے صفحوں پر چھپتا تھا۔ اب ان کا ذکر ہی خال خال رہ گیا ہے۔ سنا ہے کہ اشک شوئی کے لیے پارٹی کے سیکرٹری مالیات کا عہدہ دیا گیا ہے۔ واہ رے اقتدار! اقتدار اپنے کل پرزوں کو کس طرح استعمال کرتا ہے۔ ایک جگہ سے اٹھایا، بے جان پرزے کو دوسری جگہ لگایا! بے جان پرزہ تو پھر بھی کبھی کبھی فٹ ہونے سے انکار کر دیتا ہے۔ چھوٹا نکل آتا ہے یا بڑا۔ مگر خوشامدی چاکر تو اتنا بھی نہیں کر سکتا!
وقت اس ملک کو بہت آگے لے آیا ہے۔ ہم ارتقا کا سفر طے کر رہے ہیں۔ اب سپریم کورٹ پر حملہ آسانی اور عجلت سے نہیں کیا جا سکتا۔ اب بھرے ہوئے بریف کیس لے کر کوئٹہ جانے والے جہاز پر نہیں بیٹھا جا سکتا۔ ملک آگے بڑھ رہا ہے۔ شہزادہ، اپنے سارے کروفر اور درباریوں کے ہجوم کو باہر رکھ کر، تن تنہا جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو رہا ہے! کیا یہ کم ارتقا ہے؟ کیا یہ کوئی معمولی مرحلہ سر ہوا ہے؟ یہی تو وہ تبدیلی ہے جو درباریوں کے لیے ناقابل برداشت ہو رہی ہے!
یار لوگوں کو شکایت ہے کہ نافرمان لوگ!
خاندانوں سے الجھنے آ گئے شیطان لوگ؟
زاغ کی اولاد شاخوں پر غزل خوانی کرے؟
نیل گائے شیر کے بچوں کی نگرانی کرے؟
کوئی مانے نہ مانے، اتنی بڑی تبدیلی کا کریڈٹ عمران خان کو جاتا ہے۔ اگر آج عمران خان سیاست چھوڑ کر دھند دھندلکے رخ کر لے تب بھی تاریخ میں اس کا ذکر اس حوالے سے ضرور آئے گا کہ اس کی مستقل اور انتھک جدوجہد سے شاہی خاندان کے افراد تفتیش کرنے والوں کے سامنے پیش ہوئے۔ ؎
افشائے رازِ عشق میں گو ذلتیں ہوئیں
لیکن اُسے جتا تو دیا، جان تو گیا
ویسے یہ بھی خوب ہے کہ تین عشروں سے اقتدار میں رہنے والوں سے حساب مانگا جائے تو وہ جواب میں یہ مطالبہ کریں کہ حساب مانگنے والے بھی حساب دیں۔ یہ فارمولا امیر المومنینؓ کو معلوم ہوتا تو وہ بھی کُرتے کا حساب لینے والے شخص سے کہتے کہ پہلے تم اپنا حساب دو!
افسوس! خوشامد کا فن کن کے ہتھے چڑھ گیا
2 comments:
very good article
ap ki tehriren lajawab hoti hn.
Post a Comment