سخاوت یہ نہیں کہ عید کے موقع پر آپ اپنے بچوں کے لیے نئے کپڑے اور
جوتے خریدیں‘ بھتیجوں اور بھانجوں کو عیدی دیں‘ بیگم صاحبہ کو نیا سوٹ خرید کردیں اور اقربا اور احباب کی ضیافت کریں! سخاوت کا دارومدار اس سلوک پر ہے جو عید کے موقع پر آپ اپنے ملازموں کے ساتھ روا رکھتے ہیں۔ کیا آپ انہیں نئی پوشاک مہیا کرتے ہیں؟ کیا آپ کو احساس ہے کہ دس بارہ ہزار یا پندرہ سولہ ہزار روپے میں ان کا مہینہ کس مشکل سے گزرتا ہے؟ کیا آپ انہیں کچھ رقم تنخواہ کے علاوہ دیتے ہیں تاکہ وہ کم از کم عید کے موقع پر اچھا کھانا کھا سکیں؟ ان کے دستر خوان پر کچھ پھل آ جائیں!
دنیا میں انسان دو قسم کے ہوتے ہیں۔ فیاض اور کنجوس! عربوں کا مقولہ ہے کہ سخاوت تلے کئی عیب چھپ جاتے ہیں‘ یعنی سخی کی بہت سی کمزوریاں پس پشت ڈالنا پڑتی ہیں۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ سخاوت یا کنجوسی کا سب سے زیادہ علم گھر میں کام کرنے والے ملازم‘ خاکروب‘ ڈرائیور اور چوکیدار کو ہوتا ہے۔ وہ مروت کے سبب‘ یا رعب کی وجہ سے‘ یا خوف کے باعث اس موضوع پر بات کبھی نہیں کرے گا مگر وہ ’’صاحب‘‘ کی فطرت اور عادات پر بہت کچھ کہہ سکتا ہے۔ وہ خاندانی پس منظر بھی جان جاتا ہے اورظرف کی تنگی یا وسعت کا بھی گواہ ہوتا ہے۔
فراخ دلوں‘ مہمان نوازوں‘ کنجوسوں‘ بخیلوں اور مفت خوروں پر جتنا کچھ عربی ادب میں لکھا گیا ہے اتنا شاید ہی کسی اور زبان کے لٹریچر میں موجود ہو! عربی سے یہ موضوع فارسی ادب میں در آیا۔ شعرا سخاوت کو بھولتے ہیں نہ خست کو معاف کرتے ہیں! عباسیوں کے عہد نے برامکہ کاعروج و زوال دیکھا۔ عروج کے زمانے میں خالد برمکی تھا یا یحییٰ برمکی یا فضل‘ سب ایک سے ایک بڑھ کر فیاض اور دریا دل تھے مگر ایک رکن ان کے خاندان کا کنجوس تھا۔ ایک شاعر نے اس کی ہجولکھی کہ اگر اس کی ملکیت میں بغداد سے لے کر قاہرہ تک محلات ہی محلات ہوں‘ یہ محلات سوئیوں سے بھرے ہوئے ہوں‘ کوئی شخص اس سے تھوڑی دیر کے لیے قمیض سینے کے لیے ایک سوئی‘ صرف ایک سوئی مانگے‘ تمام پیغمبر گارنٹی دیں کہ یہ شخص سوئی واپس کردے گا اور فرشتے اس شخص کی سفارش کریں‘ پھر بھی وہ سوئی نہیں دے گا!
مَرَو کے باشندوں کی کنجوسی ضرب المثل تھی۔ اکٹھے سفر کرتے تو ہر آدمی اپنے لیے گوشت کا ایک ٹکڑا الگ خریدتا۔ اس کو دھاگے سے باندھتا۔ پھر سب مل کر اسے ہانڈی میں پکاتے اور سب اپنے اپنے دھاگے کا سرا ہاتھ میں رکھتے۔ پک جاتا تو ہر شخص اپنا دھاگہ کھینچ کر اپنا گوشت الگ کرلیتا۔ شوربا آخر میں یوں بانٹتے کہ کسی کو ایک قطرہ بھی دوسرے سے کم یا زیادہ نہ ملتا!
ایک کنجوس بیوی کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا رہا تھا۔ کہنے لگا گوشت بہت اچھا پکا ہے مگر کاش یہاں ہجوم نہ ہوتا۔ بیوی نے پوچھا کون سا ہجوم؟ کہنے لگا‘ تم۔ پھر حسرت کا اظہار کیا کہ کاش صرف میں اکیلا ہی یہ سارا کھانا کھاتا! ایک بار بیوی نے خوشخبری دی کہ بچے کے دانت نکل آئے ہیں۔ غضب ناک ہوا اور کہا‘ تم مجھے روٹی کے دشمن کی خبر دے رہی ہو!
ایک کنجوس نے اپنے بیٹے کو دیکھا کہ روٹی کا لقمہ توڑتا‘ اسے تھوڑی دیر کے لیے دیوار کے شگاف میں رکھتا‘ پھر اٹھا کر کھا لیتا۔ باپ نے اس حرکت کی وجہ پوچھی‘ کہنے لگا‘ پڑوسیوں نے آج گوشت پکایا ہے‘ ان کے گھر کی طرف سے سالن کی خوشبو بھری ہوا آ رہی ہے‘ میں اس ہوا کے ساتھ روٹی کھا رہا ہوں! باپ ناراض ہوا اور ڈانٹا کہ کم بخت! تم سالن کے بغیر نہیں کھا سکتے!
خراسان کا ایک شخص جب بھی حج یا عمرے کے لیے عرب جاتا‘ واپسی پر عراق میں ایک شخص کے ہاں ضرور قیام کرتا جو اس کا دوست تھا۔ عراقی اس کی خوب خاطر مدارات کرتا اور ہفتوں اسے مہمان رکھتا۔ خراسانی اکثر اسے کہتا کہ کاش کبھی آپ خراسان آئیں تاکہ میں آپ کے ان احسانات اور مہمان نوازی کا کچھ بدلہ اتاروں! گردش زمانہ عراقی کو خراسان لے گئی۔ ڈھونڈتے ڈھونڈتے‘ پتہ پوچھتا اس کے پاس پہنچ گیا۔ خراسانی اس وقت اپنے دوستوں کی محفل میں بیٹھا تھا۔ عراقی کو دیکھ کر اس نے کسی تپاک کا اظہار نہ کیا جیسے پہچانا ہی نہ ہو! عراقی کو گمان ہوا کہ شاید شال کی وجہ سے شناخت نہیں کر پا رہا‘ اس نے شال اتار دی۔ خراسانی پھر بھی انجان بنا رہا۔ اب عراقی کو شک ہوا کہ شاید اس کی پگڑی کے سبب نہیں پہچان رہا‘ اس نے پگڑی بھی اتار دی۔ پھر بھی وہ اجنبی ہی بنا رہا۔ پھراس نے ٹوپی بھی اتار دی۔ اب خراسانی نے سارا تکلف اور بناوٹ بالائے طاق رکھ دی اور کہا کہ اگر تم اپنی کھال اتار دو تب بھی نہیں پہچانوں گا!
ایک کنجوس کے ہاں جب بھی کوئی مہان آتا دل پر پتھر رکھ کر اسے کھانا کھلاتا اور شب بسری کے لیے کمرہ اور بستر مہیا کرتا۔ صبح مہمان اگر اظہار تشکر کے طور پر کہتا کہ رات خوب مزے کی نیند آئی تو آگے سے جواب دیتا کہ جب کھانا اتنا زیادہ کھایا تو نیند مزے کی آنی ہی تھی! اگر مہمان بے خوابی کی شکایت کرتا تو کہتا‘ بسیار خوری کے سبب تمہارے پیٹ نے تمہیں سونے نہ دیا!
ایک کنجوس گوشت کھا رہا تھا اور اس کے تین بیٹے اسے کھاتا دیکھ رہے تھے۔ وہ سب کچھ چٹ کر گیا یہاں تک کہ صرف ایک ہڈی بچی۔ اس نے تینوں کو مخاطب کر کے کہا کہ یہ ہڈی اسے ملے گی جو اسے کھانے کا حق ادا کرے گا۔ بڑے بیٹے نے کہا کہ ہڈی کا حق دار صرف وہ ہے کیونکہ اسے چوس چوس کر بالکل خشک کر دے گا اور یہ لکڑی کی طرح ہو جائے گی۔ باپ متاثر نہ ہوا۔ منجھلے نے دعویٰ کیا کہ وہ اسے اتنا چوسے گا کہ یہ کئی سال پرانی لگے گی۔ باپ نے اسے بھی فیل قرار دیا۔ چھوٹے نے کہا کہ وہ اسے چوسے گا پھر اسے خشک کرے گا۔ پھر پیس کر اس کا سفوف پھانک لے گا! باپ نے اسے آفرین کہا اور ہڈی کا حقدار قرار دیا!
سخاوت کے بھی بڑے بڑے حیران کن واقعات ہیں۔ حاتم طائی سے کسی نے پوچھا کہ کیا تم سے بھی بڑھ کر کوئی سخی ہے؟ حاتم نے جواب دیا کہ ہاں! ایک یتیم بچہ! دوران سفر اس کے ہاں ایک شب قیام کیا! اس کے پاس دس بکریاں تھیں۔ اس نے میرے لیے ایک ذبح کردی۔ کھانا آیا‘ تو بکری کا بھنا ہوا مغز بھی تھا۔ مجھے بہت پسند
آیا اور میں نے اس کی تعریف کی۔ یہ سن کرلڑکا باہر نکل گیا۔ اس نے باقی نو
بکریاں بھی ذبح کر ڈالیں اور سب کا مغز بھون کر پیش کردیا۔ صبح مجھے یہ سب معلوم ہوا تو میں نے کہا کہ تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا! لڑکے نے جواب دیا کہ مہمان کو کوئی شے اچھی لگے اور میں اس میں بخل کروں‘ یہ عربوں کے لیے گالی سے کم نہیں!
اُزبک مہمان نوازی اور سخاوت میں عربوں سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں! بابر کی بہن گلبدن بیگم کا بیان ہے کہ ہمایوں نے قریبی رشتہ دار خواتین کی دعوت کی تو پچپن بکریاں ذبح کرائیں! اس کالم نگار کو ازبکوں کی سخاوت اور مہمان نوازی کا بارہا تجربہ ہوا۔ تاشقند میں ایک دوست کے ہاں ملاقات کے لیے گیا تو وہ عصر کی نماز کے لیے نکل رہے تھے۔ میں بھی ان کے ساتھ مسجد گیا اور جماعت کے ساتھ نماز ادا کی۔ واپس گھر پہنچے تو مغرب تک کئی افراد نے آ کر دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا کہ مہمان کی دعوت وہ کرنا چاہتے ہیں! قیام معروف ازبک ادیب دادا خان نوری کے گھر تھا! وہ بھی ہمراہ تھے۔ ازبک مہمان کی تکریم کے لیے چپان (روئی بھرا چغہ) پیش کرتے ہیں۔ مجھے تو اس دوست نے چپان پہنانا ہی تھا‘ دادا خان نوری کو بھی نئی قمیض تحفے میں دی اور معذرت کی کہ اور کوئی شے گھر میں اس وقت نہیں تھی! خالی ہاتھ کسی کو بھی گھر سے واپس نہیں جانے دیا جاتا! مہمان جتنی دیر بیٹھے‘ مسلسل ماکولات و مشروبات آتے رہتے ہیں۔ انواع و اقسام کے خشک پھل‘ پھر تازہ پھل‘ جن میں اکثر گھر خود کفیل ہوتے ہیں! انڈے‘ مختلف پکوان‘ ہر قسم کے شربت اور کولڈ ڈرنک‘ چاکلیٹیں اور ٹافیاں‘ قسم قسم کے سالن اور کبھی تل تو کبھی خشخاش لگے نان! آخر میں پلائو پیش کیا جاتا ہے جو مہمان کی تکریم کے لیے عام طور پر گھر کے مرد پکاتے ہیں! پلائو کے اوپر بریاں گوشت کا ایک بڑا ٹکڑا رکھا ہوتا ہے جسے گھر کا معمر ترین فرد کاٹ کر مہمان سمیت سب کو پیش کرتا ہے!
بہت سال ہوئے‘ یہ کالم نگار سخت بیمار پڑ گیا۔ دارالحکومت کے شفا ہسپتال میں داخل تھا۔ تاشقند دادا خان نوری کو معلوم ہوا تو پلائو کا سارا سامان لے کر جہاز میں بیٹھے اور پہنچ گئے۔ پلائو پکانے کا بڑا برتن بھی‘ جسے ازبک کازان کہتے ہیں ساتھ لائے۔ چاول سے لے کر پیاز تک‘ گاجروں سے لے کر ہر قسم کے مصالحے تک‘ ہر شے جو پلائو میں پڑنا تھی‘ تاشقند سے ہمراہ لائے۔ ازبکوں کا خیال ہے کہ پلائو سے شفا ہوتی ہے۔ اصرار کیا کہ ہسپتال میرے کمرے میں پلائو پکائیں گے۔ بہت مشکل سے انہیں سمجھایا گیا کہ اس کی اجازت نہیں ملے گی۔ ازبکستان کے سفیر کو ساتھ لیا اور دنبے کا گوشت‘ جہاں سے سفیر صاحب خریدتے تھے‘ وہیں سے خریدا۔ پھر پلائو خود پکایا۔ واپس گئے تو فون پر کہا کہ اب پلائو کھانے سے تم جلد صحت یاب ہو جائو گے! جانے پلائو کا وسیلہ تھا‘ دوائوں اور دعائوں کا‘ جلد رو بہ صحت ہوگیا!
کئی فیاض لوگوں کو دیکھا‘ ان کے ساتھ بیٹھے اور معاملات
(Dealings)
کیں! ایسے لوگوں کی صحبت میں عجیب طمانیت اور کشادگی کا احساس ہوتا ہے! غالباً اُن کی شخصیت سے غیر مرئی شعائیں خارج ہوتی ہیں جو ساتھ بیٹھے ہوئوں کو اپنے(باقی صفحہ13پر ملاحظہ کریں)
حصار میں لے لیتی ہیں! فتح جنگ میں ایک دوست ملک بشیر تھے‘ مرحوم ہوگئے۔ وسائل زیادہ نہ تھے مگر دوست تو کیا‘ واقف بھی سر راہ مل جاتا تو کھانا کھلائے بغیر نہ جانے دیتے۔ اسلام آباد سے پشاور جانا تھا۔ انہیں معلوم ہوگیا‘ فون کیا کہ ’’راستے میں‘‘ فتح جنگ کھانا کھا کر جانا ہوگا۔ عرض کیا کہ فتح جنگ راستے میں کہاں سے آ گیا‘ کہنے لگے بس ترنول سے ذرا بائیں مڑ جائیے گا! اتنا اصرار کہ جائے بغیر چارہ نہ رہتا! غضب کا مکھڈی حلوا‘ دیسی مرغی اور ہمارے علاقے کی خاص تندوری روٹیاں پیش کرتے۔ خود بہت کم کھاتے۔ خدا مہمان نوازی کے صدقے ان کی لغزشوں سے درگزر فرمائے او راحت و آرام سے نوازے!
مگر جو سخاوت یار دیرینہ سید فاروق گیلانی مرحوم میں دیکھی‘ شاید ازبک اور عرب بھی اس تک نہ پہنچ پائیں۔ ہر روز بلاناغہ شام اسلام آباد کلب میں گزارتے۔ کبھی ایسا نہ ہوا کہ دربان اور خدمت گار کو کچھ نہ دیا ہو اور اچھا خاصا نہ دیا ہو! جہاں بیٹھتے بزم کا سماں ہوتا! انجمن آرائی ہوتی! سب کو بلاتخصیص کھانا کھلایا جاتا! چائے پلائی جاتی! چائے کے ساتھ کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا! دور کا واقف بھی نظر آ جاتا تو خاطر داری بغیر نہ جانے دیتے! جتنا عرصہ مکان زیر تعمیر رہا‘ باقاعدگی سے جتنے راج مستری مزدورتھے‘ سب کی دعوت کرتے۔ خود ساتھ بیٹھ کر کھاتے۔ شاید ہی کوئی ملازم انہیں چھوڑ کر کبھی گیا ہو! گھر میں کچھ نہ ہوتا تو ملاقاتی کو لے کر ریستوران چلے جاتے! سید کا دستر خوان تھا۔ طلسم سے بھرپور اور اسم کی تاثیر والا!
بات عید اور ملازموں سے شروع ہوئی تھی! ایسے ایسے لوگ دیکھے کہ دل عش عش بھی کر اٹھا اور بعض اوقات عبرت بھی پکڑی! ایسے اصحاب بھی دیکھے جو دوسروں کے گھروں میں کام کرنے والے مزدوروں اور ملازموں کو کھانا بھیجتے اور ایسے ایسے بخت کے پیکر بھی دیکھے جو اپنے گھر میں کام کرنے والوں کو بھی روٹی اور چائے تو دور کی بات ہے‘ پانی تک نہ پوچھیں!
فیاض انسان کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ کھلا کر‘ بانٹ کر‘ اسے مسرت حاصل ہوتی ہے۔ اس مسرت کے حصول کے لیے وہ کھلاتا ہے‘ بانٹتا ہے‘ یہاں تک کہ داد و دہش اس کی عادت ثانیہ بن جاتی ہے۔ مہمان نہ ہو تو کبیدہ خاطر ہو جاتا ہے۔ آ جائے تو سب کچھ حاضر کر دیتا ہے! مہمان کا سٹیٹس نہیں دیکھتا بلکہ اپنی نجابت اور اپنے خاندانی پس منظر کو ذہن میں رکھتا ہے! (کچھ واقعات ڈاکٹر نائف محمود معروف کی تصنیف ’’طرائف و نوادر‘‘ سے لیے گئے ہیں۔)
No comments:
Post a Comment