برطانیہ میں الیکشن ہوئے۔ خاک الیکشن ہوئے۔ سچ پوچھیے تو
ذرا مزہ نہیں آیا۔
انگریز بہادر ہندوستان میں وارد ہوا تو شروع شروع میں اس نے اپنے طور کوشش کی کہ گھل مل جائے۔ نوابوں کا طرزِ زندگی اسے یوں بھی خوب بھایا۔ چنانچہ بہت سے صاحب بہادروں نے انگرکھا اور پاجامہ پیش کیا۔ قالین بچھائی ‘گائو تکیے رکھے ۔ حقہ پینا شروع کیا اور تو اور‘ شادیاں بھی مقامی خاندانوں میں کیں۔ کچھ مورخ لکھتے ہیں کہ اٹھارہویں صدی میں ہر تین انگریزوں میں سے ایک کی بیگم ہندوستانی تھی ۔ ایسے انگریزوں کے لیے ایک باقاعدہ اصطلاح وضع کی گئی۔ ’’وائٹ مغل‘‘ یعنی وہ برطانوی جو ہندوستانی بادشاہوں اور نوابوں کے رنگ میں رنگے گئے۔
یہ لارڈ ولز لے تھا جس نے آ کر اس رجحان کے آگے تکبر اور استعمار کا بند باندھا۔1797ء میں وہ ہندوستان کا گورنر جنرل بنا تو یہ ’’چونچلے‘‘ اسے پسند نہ آئے۔ اس کا اصول صاف اورواضح تھا:
حاکم حاکم ہے اور محکوم محکوم! کون سے ہندوستانی اور کیسی شادیاں! قالینوں‘ حقوں‘ انگرکھوں چوڑی دارپا جاموں‘ پان کی گلوریوں اور پازیب پہنے تھرکتے پیروں کا انگریزی تہذیب سے کیا تعلق! ولز لے نے اپنے قیام کے دوران نہ صرف ٹیپو سلطان کا ’’کانٹا‘‘ استعمار کے راستے سے نکال دیا بلکہ ایک ایسا رویہ ایسا ذہن اور ایسا مائنڈ سیٹ انگریزوں کے دل و دماغ میں راسخ کر دیا جس کے بعد دو تہذیبوں کا اختلاط ختم ہو گیا۔
لگے ہاتھوں یہاں روسی استعمار کا بھی اسی حوالے سے ذکرہو جائے۔ انیسویں صدی کے نصف آخر میں روسیوں نے وسط ایشیا کے شہروں پر یکے بعد دیگرے قبضہ کیا۔1865ء میں زار کی فوجیوں نے تاشقند پر حملہ کیا تو روسی آرتھوڈکس چرچ کا نمائندہ پادری‘ صلیب اٹھائے لشکر کی قیادت کر رہا تھا۔ لینن کا بالشویک انقلاب آیا تو وسط ایشیا کو آزادی کا خواب دکھایا گیا مگر سٹالن کے آنے تک استعمار جڑیں پکڑ چکا تھا۔ پھرروسیوں کو ان علاقوں میں بسانے کا پروگرام بنا۔
سوویت یونین 1991-92ء میں منہدم ہوا تو سفید فام باشندے تاشقند میں آبادی کا چالیس فیصد ہو چکے تھے مگر یہ وہ روسی نہیں تھے جو صرف وڈ کاپر گزارہ کریں۔ انہوں نے مقامی معاشرت کو بہت حد تک اپنا لیا تھا۔ان کے گھروں میں قالینوں کے فرش تھے اوریہ ازبکوں کی طرح پھل افراط سے کھانے لگے تھے۔ سوویت یونین ٹوٹا تو ان میں سے بہت سے روسی واپس چلے گئے۔ وہاں جا کر انہوں نے اپارٹمنٹوں میں قالینیں بچھائیں اور ان بے مثال پھلوں کی تلاش میں بازاروں میں نکلے جو وہ تاشقند بخارا اور ترمذ میں کھایا کرتے تھے۔ پھل تو خیر وہاں کیا ملتے‘ پرانے روسیوں کو ان کی قالین پسندی بھی بری لگی۔ چنانچہ بہت سے روسی وسط ایشیا واپس آ گئے۔ اس کالم نگار کو ایک بار ٹرین میں تاشقند سے بخارا تک سفر کرنے کا اتفاق ہوا۔ یہ بارہ گھنٹوں پر محیط تھا۔ سکینڈ کلاس ڈبے میں چھ افراد کی گنجائش تھی ایک ازبک خاندان ہم سفر تھا۔ تمام راستہ وہ انواع اقسام کے کھانے کھاتے رہے اور اس ہم سفر کو زبردستی شدید اصرار کے ساتھ‘ شریکِ طعام رکھا۔ قسم قسم کے خشک اور تازہ پھل ‘لذیذ نان‘ مرغِ بریاں‘ سوپ اور چائے کا دور تو چلتا ہی رہا کہ وہاں پانی پینے کا رواج نہیں۔ ٹرین میں انتظامیہ نے جگہ جگہ سماوار رکھے تھے جن سے چائے کے لیے گرم پانی لیا جاتا تھا۔ ایک اور سفر میں بخارا سے ٹرین پر تاشقند تک کا سفر کیا۔ پھربارہ گھنٹے! بیگم رفیقِ سفر تھیں ایک سفید فام ماسکو سے آیاہوا روسی جوڑا ساتھ تھا۔ ہماری ہی عمر کے ہوں گے۔ بارہ گھنٹوں میں حرام ہے جو انہوں نے ہم سے کوئی بات کی ہو یا آپس میں ہی بولے ہوں یا کچھ کھایا پیا ہو! آنکھیں تک نہ کھولیں کہ ہم ہی کچھ پیش کرسکتے!
لارڈ ولزلے کی بات ہو رہی تھی کیا عجب وہ نہ آتا تو برطانوی ہند کی صورت حال مختلف ہوتی! یوں بھی استعمار محکوموں کی معاشرت پر اثر انداز ہی ہوتا ہے۔ ان کی معاشرت سے خال خال کچھ اپناتا ہے۔ پہلی جنگِ عظیم کے بعد شام‘ فلسطین اور اس پورے علاقے کو انگریزوں اور فرانسیسیوں نے آپس میں بانٹ لیا اور اس کا نام
MANDATE
(انتداب) رکھا۔ پہلے بھی اس کالم نگار نے کہا ہے کہ اقبال کی ضربِ کلیم کا باب ’’سیاسیاتِ مشرق و مغرب‘‘ انٹرنیشنل افیئرز کے طلبہ کے لیے پڑھنا ضروری ہے۔ شام پر یورپ کے قبضہ کا ذکر خوب کیا ہے ؎
فرنگیوں کو عطا خاکِ سوریا نے کیا
بنی عفت و غم خواری و کم آزاری
صلہ فرنگ سے آیا ہے سوریا کے لیے
مے و قمار و ہجومِ زنانِ بازاری
انگریز دو اڑھائی سو سال ہم پر حکمران رہے۔ ہمیں کرکٹ دے گئے‘ آملیٹ بنانا سکھا دیا انگریزی کی گِٹ مِٹ بھی سونپ گئے۔ مگر افسوس! ہم سے کچھ نہ سیکھا۔ کچھ سیکھا ہوتا تو برطانیہ کا حالیہ الیکشن اتنا پھیکا ‘ اتنا بے رنگ اتنابور نہ ہوتا!
ہم سے انگریزوں نے کچھ سیکھا ہوتا تو بی بی تھریسامے کبھی اپنے پیروں پر خود کلہاڑی نہ مارتی اور آبیل مجھے مار کہہ کر الیکشن وقت سے پہلے نہ کراتی! یہاں دیکھ لیجیے‘ کون سی قیامت نہ اتری اور کون سا حشر نہ ٹوٹا۔ عدالت عالیہ کے دو منصفوں نے وزیر اعظم کو نااہل قرار دے دیا ۔ تشبیہات ڈان اور مافیا تک پہنچ گئیں۔ خاندان کا خاندان لائن حاضر ہے مگر کیا مجال کہ تخت سے اترنے یا الیکشن پہلے کرانے کا خیال بھی آیا ہو! مستقل مزاجی ہو تو ایسی ہو! زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد! ڈان لیکس کا ڈول حکومت نے خود ڈولا۔ اب کہا جا رہا ہے کہ پاناما کیس اور ڈان لیکس سے کچھ نہیں ہوتا۔ زمین تہہ و بالا بھی ہو جائے‘ کراچی گلگت میں جا بسے اور راکا پوشی گوادر کے ساحل سے چھلانگ لگا کر سمندر میں غائب ہو جائے تب بھی ڈان لیکس کی رپورٹ منظر عام پر نہ آئے! تھریسامے ہوتی تو پاناما لیکس کا نام سنتے ہی پائوں ڈگمگا جاتے اور ڈان لیکس کی رپورٹ منظر عام پر نہ لاتی تو میڈیا سے لے کر اپوزیشن تک اور عوام سے لے کر اس کی اپنی کابینہ تک سب درپے ہو جاتے!
یہ کیسا الیکشن تھا کہ الیکشن میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتیں ووٹروں سے گاڑیاں بھر بھر کر پولنگ سٹیشنوں پر
نہیں آئیں۔ اسلحہ کی نمائش تک نہ ہوئی۔ ہمارے ہاں ہر الیکشن پر اور کچھ نہیں تو چھ
سات ہلاکتیں تو ہو ہی جاتی ہیں۔ پولنگ سٹیشنوں پر گولی چل جاتی ہے۔ گالیوں اور دھمکیوں کا تبادلہ تو عام ہے۔ کبھی کبھی کوئی ایم این اے یا ایم پی اے کسی سرکاری اہل کار کو تھپڑ بھی رسید کر جاتا ہے۔ برطانیہ میں ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ کیاڈرپوک اور بابو منشی قسم کے لوگ ہیں! پجارو کلچر تک نہیں نظر آتا۔ لکڑی کی طرح کھڑ کھڑاتا ‘ خالص کاٹن کا لباس پہنے‘ ہاتھ میں گولڈ لیف کی ڈبی پکڑے۔ انگلی میں انگوٹھی دکھاتے چوہدری ‘مہر ‘خان ‘ ملک اگلی پجارو سے اترتے اور پیچھے آنے والی گاڑیوں پر کلاشنکوف بردار محافظ!! انگریزوں کو مزہ آ جاتا ! سرداری‘چوہدراہٹ ‘ خان گیری نہ ہو تو ووٹ کون دیتا ہے بھئی! ووٹ اسے ملتا ہے جوتھانیدار تحصیل دار پٹواری کا تبادلہ ایک فون سے کرا دے‘ ایس پی اور ڈی سی او اپنی مرضی کا تعینات کرائے۔ اور ’’خونی انقلابی‘‘ لانیوالے اور حبیب جالب کے نغمے الاپنے والے وزیر اعلیٰ سے کہہ کر ناپسندیدہ افسر کو فوراً علاقے سے دور بھجوا دے!
پورے برطانیہ میں ایک بیلٹ بکس بھی کوئی نہ لے اڑا! بزدلی کی حد ہے! حیرت اس پر ہے کہ کیا یہی قوم ہے جس نے نیوزی لینڈ سے لے کر برٹش کولمبیا تک اور مصر سے لے کر جنوبی افریقہ تک حکومت کی اور جس کی ایمپائر پر سورج غروب نہ ہوتا تھا! اتنے ڈرپوک کہ ووٹ ڈالنے والے نہتے‘ عام شہریوں کے فیصلے ہر سر جھکا دیں! غضب خدا کا‘ کسی ایک پارٹی نے کسی ایک امیدوار نے دھاندلی کا رونا نہ رویا! حالانکہ یہ کامیاب ترین نسخہ ہے۔ ہم نے تو یہ میراسی سے سیکھا ہے۔ کاش ہم سے انگریز سیکھ لیتے۔ میراسی قمار بازی کر رہا تھا۔ جو کچھ پلے تھا‘ دائو پر لگاتا گیا اور ہارتا گیا۔ کچھ نہ بچا تو بیوی دائو پر لگا دی۔ بیوی نے غیرت دلائی‘ بے شرم ہار گئے تو یہ مجھے لے جائیں گے! میراسی نے پیلے دانت نکالے اور تسلی دی۔ نیک بخت ! میں ہار تسلیم کروں گا تو لے جائیں گے نا! میں تو مانوں گا ہی نہیں!! سو‘ ہم شکست تسلیم ہی نہیں کرتے! دھاندلی کچھ تو ہوتی بھی ہے اور عمر بڑھا بھی دیتے ہیں کچھ زیب داستاں کے لیے !
پھر ستم بالائے ستم دیکھیے کہ لیبر پارٹی نے ٹوری پارٹی کے امیدوار توڑ کر اپنے ساتھ ملانے کی کوئی سعی نہ کی! ٹوری پارٹی نے بھی لیبر کے ارکان کو سبز باغ دکھا کر ورغلانے کی کوشش نہ کی! جوڑ توڑ‘ نہ ہارس ٹریڈنگ! تعجب ہے کہ پاکستانی یہاں سے اپنے اپنے فرقے کے مولوی اور پیر تو برطانیہ لے گئے‘ لوٹے لے کر نہ گئے ورنہ وہاں کی سیاست میں بھی لوٹے بہار دکھاتے اور راتوں رات وفاداریاں تبدیل ہوتیں!
اور نالائقی کی انتہا دیکھیے کہ پارٹیوں کے سربراہ تبدیل ہو جاتے ہیں! لیبر پارٹی ہی کو لیجیے‘ 1980ء سے لے کر اب تک دس سیاست دان اس پارٹی کی سربراہی کر چکے ہیں۔ یعنی اوسطاً ہر تین سال سات ماہ بعد پارٹی کا لیڈر تبدیل ہوتا رہا۔ یہی ’’عدم استحکام‘‘ ! جی ہاں! ’’عدم استحکام‘‘ کنزر ویٹو پارٹی کی قسمت میں رہا!
1975ء میں بی بی مارگریٹ تھیچر پارٹی کی قائد منتخب ہوئیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ بی بی عقل سے کام لیتی‘ اپنے بعد پارٹی اپنے بیٹے یا بیٹی کو یا بھائی کو سونپتی۔ مگر دامن جھاڑ کر رخصت ہوئی اور پلٹ کر نہ دیکھا! ایک کے بعد ایک سربراہ آتا گیا۔ پھر ہٹتا گیا۔ (باقی صفحہ13 پر ملاحظہ کریں)
اب یہ جو بی بی تھریسامے ہے یہ تھیچر کے بعد ساتویں سربراہ ہے! اس دوران جان میجر بھی بھگتا دیئے گئے اور ڈیوڈ کیمرون بھی ! فاعتبروا یا اولی الابصار! عبرت پکڑو اے آنکھوں والو! کاش ہم سے یہ سفید چمڑی والے کچھ تو سیکھتے! دیکھیے عشروں پر عشرے گزر رہے ہیں! دہائیوں پر دہائیاں بیت رہی ہیں! وہی نواز شریف پارٹی کے سربراہ ہیں! وہی بھٹو یعنی زرداری خاندان! وہی اسفند یار ولی‘ وہی مولانا فضل الرحمن! وہی چوہدری شجاعت الٰہی ‘ وہی الطاف حسین ‘ وہی عمران خان اور وہی چادر پوش افغان نواز اچکزئی ! اسے کہتے ہیں قیادت کا تسلسل! اسے کہتے ہیں استحکام! اسے کہتے ہیں مستقل مزاجی! ہائے بدقسمت تھریسامے! بیچاری کے دفاع کے لیے وہاں کوئی دانیال عزیز ہے نہ رانا ثناء اللہ ! نہ کوئی آصف کرمانی! نہ کوئی ایمبولینس بھیجنے والا ڈاکٹر فضل چوہدری!! کیا بے بسی ہے اور کس مپرسی کا عالم! اور یہ بھی دیکھ لیجیے گا کہ یہ بی بی جب وزارتِ عظمیٰ سے ہٹی تو اسے کوئی پوچھے گا ہی نہیں! برگر کنگ یا میکڈانلڈ کے سامنے قطار میں کھڑی ہو کر کھانا خریدے گی! بس میں عام پبلک کے ساتھ سفر کرے گی! مگر یہ انگریز شروع ہی سے نالائق اور کند ذہن ہیں! اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے مسلسل گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھنے والا کلائیو سراج الدولہ اور اس کے لشکریوں سے پالکی میں بیٹھنا تک نہ سیکھ سکا!!
No comments:
Post a Comment