Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, June 13, 2017

ممیاتی‘ سرہلاتی بھیڑیں

بھیڑیں یہاں ہیں اور چرواہا سات سمندر پار!
آتا ہے تو بھیڑیں اس کے گرد اکٹھی ہو جاتی ہیں۔ وہ انہیں سبز چرا گاہوں کے خواب دکھاتا ہے۔ بھیڑیوں کے خلاف تقریریں کرتا ہے۔ دلکشن‘ لاجواب‘ موثر‘ وجد آفریں تقریریں! بھیڑیں اس کی تقریریں سنتی ہیں۔ ممیاتی ہیں۔ نعرے لگاتی ہیں۔ مال پڑتا ہے۔ دھمال ڈالتی ہیں۔
’’میں بھیڑیوں کو نہیں چھوڑوں گا۔ جن بھیڑوں کو بھیڑیوں نے ہلاک کیا تھا‘ ان کا قصاص لوں گا۔ قصاص لیے بغیر یہاں سے ایک انچ نہیں ہٹوں گا۔‘‘
بھیڑیں سنتی ہیں۔ ممیاتی ہیں‘ ممیاتے ممیاتے نعرہ لگاتی ہیں! چرواہے کے ہاتھ چومتی ہیں۔ گھٹنوں کو چھوتی ہیں۔ قدموں میں لوٹ پوٹ ہوتی ہیں۔
ایک دو ماہ گزرتے ہیں۔ چرواہا اس اثنا میں پوٹلیاں باندھتا ہے۔ سامان سے بھری ہوئی پوٹلیاں! تازہ گھاس کے گٹھے‘ سبز پتوں کے انبار! بھوسے کے ڈھیر! غلے سے بھری بوریاں! تازہ پھل! پھر ایک صبح وہ یہ ساری پوٹلیاں سر پہ رکھے‘ بغل میں دبائے‘ ہاتھوں میں پکڑے‘ اڑن کھٹولے پر بیٹھتا ہے۔ اڑ کر سات سمندر پار جا پہنچتا ہے جہاں اس کا اصل ٹھکانہ ہے! جہاں چراگاہیں شاداب ہیں‘ پانی مصفیّٰ ہے‘ آسمان شفاف نیلا ہے۔ جہاں بحرالکاہل کے بہشت آسا ساحل ہیں۔ جہاں اوقیانوس کے پانی خوبصورت زمینوں کو چومتے ہیں! جہاں بادل سنہری ہیں اور ممیاتی بھیڑیں جہاں کا تصور تک نہیں کرسکتیں!
بھیڑیں اکیلی رہ جاتی ہیں! چرواہے کے بغیر! ممیاتی ہیں! خاموشی سے دن گزارتی ہیں! اب وہ بھیڑیوں کے رحم و کرم پر ہیں۔ بھیڑئیے جو چاہے سلوک کریں! چرواہا سات سمندر پار ہے۔ اسے بھیڑوں کی خبر ہے نہ پرواہ!
سال گزرتا ہے۔ ایک دن بھیڑوں کو معلوم ہوتا ہے کہ چرواہے کی آمد آمد ہے! وہ پھر ممیاتی‘ ایک دوسرے کے پیچھے چلتی‘ ناک کی سیدھ میں دوڑتی‘ وہاں جمع ہوتی ہیں جہاں اڑن کھٹولے نے اترنا ہے۔ چرواہا اترتا ہے۔ ممیاتی بھیڑیں استقبال کرتی ہیں۔ چرواہا پھر ایک دلدوز‘ اثر آفریں تقریر کرتا ہے۔ بھیڑیوں کو للکارتا ہے۔ پھر قصاص کا نعرہ لگاتا ہے۔ بھیڑیں نعرے کا جواب دیتی ہیں۔ ایک ماہ گزرتا ہے۔ چرواہا پھر سامان سے بھری پوٹلیاں اٹھائے اڑن کھٹولے پر بیٹھتا ہے اور سمندر پار جا اترتا ہے!
یہ تماشا ایک عرصہ سے لگا ہے! مگر چرواہے کا کمال ہے یا اس کی قسمت! کہ بھیڑیں اس سے کبھی نہیں پوچھتیں کہ تم کیسے چرواہے ہو؟ تم کہاں چلے جاتے ہو! کیوں جاتے ہو! یہیں رہ کر قصاص کا مطالبہ منواتے کیوں نہیں! تم جنہیں بھیڑئیے کہتے ہو‘ ان کے رحم و کرم پر ہمیں چھوڑ کر بھاگ کیوں جاتے ہو! ان پوٹلیوں میں کیا ہوتا ہے؟ کہاں سے لیتے ہو؟ کہیں یہ ہمارا چارہ ہی تو نہیں جو تم سمندر پار اکٹھا کر رہے ہو! کوئی بھیڑ یہ سوال پوچھنے کا نہیں سوچتی! چرواہے کی چاندی ہے۔ اس کی پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہے!  وہ یہاں کے مزے بھی لوٹتا ہے‘ وہاں کے بھی! یہاں بھی نجات دہندہ کہلاتاہے‘ وہاں بھی دادِ عیش دیتا ہے! بھیڑیں ممیاتی ہیں! ممیانے کے علاوہ کچھ نہیں کرتیں!
یہ بھیڑوں کے صرف ایک گلے کا تذکرہ نہیں! یہ ممیاتی‘ جگالی کرتی‘ سر جھکا کر ایک دوسرے کے پیچھے چلتی‘ بیس کروڑ بھیڑوں کی المناک داستان ہے! ان بھیڑوں کے اپنے اپنے گلے ہیں۔ اپنے اپنے باڑے ہیں۔ اور اپنے اپنے چرواہے! کوئی چرواہا لندن میں رہتا ہے۔ بھیڑیں یہاں سے اس کا سامان خورو نوش اور عیش و عشرت بھیجتی ہیں۔ چرواہا خوب موٹا تازہ ہورہا ہے۔ چہرے کی کھال وزن کی زیادتی سے لٹکنا شروع ہورہی ہے۔ یہ چرواہا ٹیلی فون پر تقریریں کرتا تھا تو سہمی‘ ممیاتی بھیڑیں فرشِ زمین پر بیٹھ کر اس کی تقریریں سنتی تھیں اور سر ہلاتی تھیں! چرواہا گالیاں دیتا تھا۔ گانے گاتا تھا۔ ڈانٹتا تھا! بھیڑیں مسلسل سر ہلاتی تھیں!
بھیڑوں کا ایک اور گلہ ہے جس کا  چرواہا وقفے وقفے سے دبئی جاتا ہے جہاں اس کے محلات اور خدام ہیں! بلکہ یوں کہیے کہ وہیں رہتا ہے۔ ہاں وقفے وقفے سے بھیڑوں کے پاس آتا ہے! ممیاتی بھیڑوں کو اکٹھا کرتا ہے۔ تقریریں جھاڑتا ہے۔ بھیڑیں خاموشی سے‘ سعادت مندی سے‘ فرماں برداری سے سر ہلاتی ہیں۔ پھر چرواہا واپس دبئی چلا جاتا ہے۔ بھیڑوں کے تتر بتر ہونے کی خبریں عام ہوتی ہیں۔ چرواہا‘ اپنے بیٹے کو یعنی چھوٹے چرواہے کو بھیجتا ہے۔ وہ بکھری ہوئی بھیڑوں کو جمع کرنے کے لیے چیختا چلاتا ہے‘ انہیں سبز چراگاہوں کے خواب دکھاتا ہے۔ کچھ ممیا کر اس کی باتوں پر سر ہلاتی ہیں۔ کچھ تتر بتر ہونے والی بھیڑوں کے پیچھے چلتی جاتی ہیں۔ کسی اور گلے کی تلاش میں‘ کسی اور چرواہے کی تقریریں سننے اور سر ہلانے کے لیے!
یہ بیس کروڑ ممیاتی جگالی کرتی بھیڑیں صرف سیاسی چرواہوں کے ہاتھوں بے وقوف نہیں بن رہیں‘ انہیں قسم قسم کے چرواہے الو بنانے میں مصروف ہیں! کچھ چرواہوں نے روحانیت کی کھالیں اوڑھی ہوتی ہیں! مستقبل میں کیا ہوگا؟ ساری روحانیت ان پیش گوئیوں پر کھڑی ہے ان روحانی چرواہوں کا ایک سائڈ بزنس روحانیت بھری کتابوں کی فروخت ہے! بس کتاب کے عنوان میں روحانیت کا لفظ آ جائے یا فقیر کا لفظ! پھر چاندی ہی چاندی ہے! بھیڑیں فقیر کے لفظ پر‘ روحانیت کے ذکر پر جان دیتی ہیں! نجات کا آسان طریقہ! ہینگ لگے نہ پھٹکری! اکل حلال کی قید نہ فرائض کی سرانجام دہی! ایک روحانی چرواہے نے تو برملا کہہ دیا کہ اس کا مرشد نماز سے بے نیاز تھا!
بھیڑوں کے ان گلوں کو اپنے پیچھے لگانے کے لیے کچھ چرواہوں نے ستارے دیکھنے کی‘ کچھ نے زائچے بنانے کی‘ کچھ نے دست شناسی کی چادریں اوڑھی ہوئی ہیں! بھیڑیں جوق در جوق ان کے گرد جمع ہوتی ہیں! ممیاتی ہیں! سر ہلاتی ہیں! کچھ جنات کے ماہر ہیں! بھیڑوں کی ذلت کی کوئی انتہا نہیں! بے آبرو ہوتی ہیں۔ ان کے جسموں پر لگی اون کتر دی جاتی ہے۔ ان کے بچوں کو یہ چرواہے جن نکالنے کے دوران اذیت دے دے کر مار ہی ڈالتے ہیں! ان بھیڑوں کی جمع شدہ پونجی پر ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ ان بھیڑوں کے بچوں کے سروں کو لوہے کی ٹوپیوں میں بند کردیا جاتا ہے۔ بھیڑیں بڑی ہو جاتی ہیں۔ سر چھوٹے رہ جاتے ہیں! چرواہے ان چھوٹے سروں والی نیم پاگل بھیڑوں کو مقدس قرار دیتے ہیں! یہ سن کر مزید بھیڑیں اپنے بچوں کو لے کر آتی ہیں کہ ان کے سروں کو بھی لوہے کی ٹوپیوں میں جکڑو تاکہ یہ بھی بڑے ہو کر مقدس بنیں!
یہ بیس کروڑ بھیڑیں‘ دنیا کی عجیب و غریب بھیڑیں ہیں! یہ جس کو بھی تھری پیس سوٹ پہنے‘ ٹائی لگاتے دیکھتی ہیں تو سر! سر! کہنا شروع ہو جاتی ہیں اور خوب مرعوب ہوتی ہیں! کوئی(باقی صفحہ13پر ملاحظہ کریں)
 جھنڈے والی قبر دیکھتی ہیں تو ہاتھ باندھ کر کھڑی ہو جاتی ہیں! کسی کو لمبا سبز چولا پہنے‘ گلے میں مالا ڈالے دیکھتی ہیں تو رکوع میں چلی جاتی ہیں! کوئی غیب کی خبریں بتانے کا دعویٰ کرتا ہے تو اس کے گرد جمگھٹا لگالیتی ہیں۔ کسی کے ہاتھ چومتی ہیں‘ کسی کے پائوں چھوتی ہیں‘ کسی کے آگے سجدہ ریز ہو جاتی ہیں! کسی کو عمر بھر کی کمائی دے کر خود قلاش ہو جاتی ہیں!
ستر سال سے یہ بھیڑیں ان سیاسی‘ روحانی‘ مذہبی اور قسم قسم کے چرواہوں کے ہاتھوں بے وقوف بن رہی ہیں! کسی نے انہیں بھیڑیوں سے بچانے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ کسی نے ان کی چراگاہوں کے اردگرد باڑ نہیں لگائی‘ کسی نے ان کے درختوں کی حفاظت نہیں کی! کسی نے ان کے بچوں کی فکر نہیں کی! ہر چرواہے نے انہیں محض خواب دکھائے۔ ان سے نعرے لگوائے۔ عملاً کچھ نہیں کیا۔ اور تو اور‘ بعض چرواہے بھیڑیوں کے ساتھ مل گئے اور انہیں بھیڑیں پیش کرتے رہے۔ کچھ نے بھیڑیں فروخت کردیں! حالت یہ ہے کہ اب چراگاہ سوکھ گئی ہے۔ پتے پیلے پڑ گئے ہیں۔ درخت ٹنڈ منڈ ہو گئے ہیں! دریا خشک ہورہے ہیں! بھیڑیوں کے غول چراگاہ کے اردگرد دندناتے پھر رہے ہیں! مگر کسی چرواہے کو بھیڑوں کی فکر نہیں!
آج کل پھر ایک چرواہا سمندر پار سے آیا ہوا ہے!

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com