جب بھی عید آتی ہے، اخبارات اس قسم کی سرخیاں ضرور لگاتے ہیں۔
’’دارالحکومت خالی ہو گیا‘‘
’’پرندے اُڑ گئے‘‘
’’لوگ عید منانے اپنے اپنے گھروں کو سدھار گئے‘‘
فقہ میں وطن اصلی اور وطن اقامت کا ذکر ہوتا ہے۔ وطن اصلی وہ ہے جہاں سے آپ کا اصل تعلق ہو، آپ کی جائیداد، گھر، عزیز و اقارب، دوست احباب وہاں ہوں۔ اس کے مقابلے میں وطن اقامت وہ ہے جہاں آپ روزگار یا کاروبار کے سلسلے میں مقیم ہوں۔ یہ امتیاز، وطن اصلی یا وطن اقامت میں اس لیے بھی برقرار رکھا جاتا ہے کہ وطن اقامت میں قیام پندرہ دن سے کم ہو تو غالباً نماز قصر کی پڑھنا ہوتی ہے۔
ہمارے وزیر اعظم عید اکثر و بیشتر لندن میں مناتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے کراچی، لاہور، اسلام آباد سے لوگ عید منانے اپنے اپنے آبائی گھروں کو یعنی وطن اصلی کو چلے جاتے ہیں۔ اس حساب سے دیکھا جائے تو بات سمجھ میں یوں آتی ہے کہ پاکستان ہمارے حکمرانوں کا وطن اصلی نہیں، وطن اقامت ہے۔ حکمرانوں سے مراد صرف میاں محمد نواز شریف نہیں، بلکہ وہ طبقہ ہے جو ہم پر حکومت کر رہا ہے۔ آصف علی زرداری صاحب سے لے کر عشرت العباد صاحب تک، حسین نواز سے لے کر بلاول تک۔ سب ہمارے حکمران ہیں۔ سب کے دو دو وطن ہیں۔ ایک وطن اصلی، ایک وطن اقامت۔ عید کے موقع پر کشاں کشاں یہ حضرات اپنے اپنے وطن اصلی طرف کھنچے چلے جاتے ہیں۔ پاکستان تو ان کا وطن اقامت ہے۔ یہاں ملازمت کے لیے رکتے ہیں۔ کبھی وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے لیے، کبھی صدر کے منصب پر کام کرنے کے لیے، کبھی گورنری کرنے کے لیے! ورنہ ان کے گھر بار، اولاد، جائیدادیں، سب پاکستان سے باہر ہیں۔ لندن اور دبئی ان کا وطن اصلی ہے اور پاکستان وطن اقامت!
چلیے رمضان اور عید کے مواقع پر اس سوال کا جواب تو مل جاتا ہے کہ پاکستان کن کن کے لیے محض وطن اقامت ہے مگر ایک سوال ایسا بھی ہے جس کا جواب حاصل کرنا غالباً ناممکنات میں سے ہے۔ رمضان ہمارے ہاں جس طرح نیکیوں کی بہار دکھاتا ہے، اُس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان واقعی اسلام کا قلعہ ہے۔ رمضان آتے ہی مسجدیں بھر جاتی ہیں۔ تراویح کا اہتمام اتنی ہی شدت سے ہوتا ہے جس شدت سے فرض روزے رکھے جاتے ہیں۔ ستائیسویں رات عقیدت و احترام سے منائی جاتی ہے۔ شبینہ کی محفلیں سجتی ہیں۔ مسجدوں پر ختم قرآن کے موقع پر چراغاں کیا جاتا ہے۔ کشمیر سے لے کر فلسطین تک، سب مسلمانوں کے لیے گڑ گڑا کر دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا پر پورا مہینہ اسلامی پروگرام چھائے رہتے ہیں۔ افطار اور سحری کے وقت جو چینل بھی لگائیں پردۂ کیمپس پر کوئی نہ کوئی معروف نعت خواں، مشہور مبلغ، متاثر کرنے والا عالم دین نظر آتا ہے۔ خوبصورت ٹوپیاں اور دیدہ زیب پگڑیاں نظر نواز ہو رہی ہوتی ہیں۔ مخیر حضرات کی بھی ہمارے ہاں قلت نہیں۔ ایک سے ایک بڑھ کر فیاض موجود ہے۔ ناداروں کا پیٹ بھرنے کے لیے سینکڑوں، ہزا روں دسترخوان بچھے ہیں۔ یتیم خانے چل رہے ہیں۔ فائونڈیشنیں غریب طلبہ کی خدمت کر رہی ہیں۔ لاکھوں مدارس صرف او رصرف مخیر حضرات کی توجہ سے چل رہے ہیں۔ صدقات و خیرات دینے والے رات دن سرگرمِ عمل ہیں۔ ان سب مثبت پہلوئوں کے باوجود مذہب ہمارے حلق کے نرخرے سے نیچے نہیں، اوپر اوپر ہی رہتا ہے۔ معاملات میں ہم لوگ اسفل السافلین کے درجے پر ہیں۔ دفاتر ہی کی بات کر لیجیے۔ تنخواہ پوری لیتے ہیں مگر آٹھ بجے کے بجائے دس گیارہ بجے آ رہے ہوتے ہیں۔ نماز کے لیے اٹھیں تو پھر دوسرے دن دکھائی دیتے ہیں۔ جو وقت، کیا افسر اور کیا اہلکار، دفتر میں گزارتے ہیں۔ اس کا بھی زیادہ حصہ چائے اور خوش گپیوں میں گزر جاتا ہے۔ ایک صاحب نے بتایا کہ وہ کینیڈا کی ایک کمپنی میں ملازمت کر رہے تھے۔ ایک دن اپنی سیٹ پر بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے کہ طلب کر لیے گئے۔ وارننگ دی گئی کہ دفتری اوقات میں ذاتی کام نہیں کر سکتے۔ آسٹریلیا میں ایک شخص دفتری اوقات میں کمپیوٹر پر، یو ٹیوب لگائے کچھ دیکھ رہا تھا۔ ملازمت سے فارغ کر دیا گیا۔ یہاں آپ سرکاری ہسپتالوں میں جا کر سروے کر لیجیے، ڈاکٹر سے لے کر ڈسپنسر تک، دوا دینے والے سے لے کر پولیو سرٹیفکیٹ پر دستخط کرنے والے تک، سب غائب ہوں گے۔ ایک صاحب نے بتایا کہ دارالحکومت کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال میں چار دن جاتے رہے، متعلقہ ڈاکٹر سے ملاقات نہ ہوئی۔ ہر روز یہی بتایا جاتا کہ رائونڈ پر ہیں۔ میٹنگ میں ہیں، چائے کا وقفہ ہے، کل آئیے۔ پانچویں دن تھک ہار کر وہ اس کے پرائیویٹ کلینک میں گئے، فیس ادا کی اور زیارت ہوئی۔ اب مثال کے طور پر انہی ڈاکٹر صاحب کا کیس لیجیے، تنخواہ پوری لیتے ہیں مگر جو فرائض اس تنخواہ کے عوض سرانجام دینے ہیں وہ نہیں دے رہے اور ڈنکے کی چوٹ نہیں دے رہے۔ تراویح بھی پڑھتے ہوں گے، مسجدوں، مدرسوں میں چندہ بھی دیتے ہوں گے۔ عبادات کے اور ظاہر کے تمام دینی تقاضے پورے کرتے ہوں گے مگر سو سوالوں کا ایک سوال ان کے ذہن کے کسی دور افتادہ گوشے میں بھی کبھی نہ اٹھا ہو گا کہ کیا وہ سرکار سے موصول ہونے والا مشاہرہ حلال کر رہے ہیں؟
اس کالم نگار سمیت ہم سب، اسلام کے اس قلعہ میں رہنے والے، صبح سے شام تک بے تحاشا جھوٹ بولتے ہیں۔ وعدہ خلافی کرتے ہیں۔ معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور پھر طرفہ تماشا یہ ہے اور ظلم کی انتہا یہ ہے کہ برائی کو برائی نہیں گردانتے، کتنے ہی مذہب میں سر سے پائوں تک ڈوبے ہوئے نیک صورت افراد کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ نہیں، ہم نے وعدہ تو نہیں کیا تھا، بات کی
تھی۔ گویا بات منہ سے اور وعدہ کہیں اور سے نکلتا ہے۔
اس پر غور کرنے کی
ضرورت ہے کہ کافر جو ترقی یافتہ ملکوں میں رہتا ہے، وعدے کا کیوں پابند ہے؟ جھوٹ کیوں نہیں بولتا؟ جب یہ بات کی جائے تو اس کا جواب یہ ملتا ہے کہ وہ افغانستان اور عراق و شام میں کیا کر رہے ہیں؟ اس کا موضوع سے تعلق ہی نہیں مگر پھر بھی جواب دینے کو جی چاہتا ہے کہ کافر عراق و شام میں وہی کچھ کر رہے ہیں جو آپ دہلی سے لے کر انا طولیہ تک کرتے رہے۔ اس زمانے کے جدید ترین توپ خانے کے ساتھ بابر نے دہلی کی مسلم سلطنت کے پرخچے اڑا دیئے۔ قتل ہونے والا ابراہیم لودھی نماز بھی پڑھتا تھا اور روزے بھی رکھتا تھا۔ جس سلطنتِ عثمانیہ کا نام سن کر یورپ لرزہ براندام ہو جاتا تھا، اس کی، مسلمانوں ہی کے بادشاہ امیر تیمور نے اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ ترک خلیفہ بایزید کو گرفتار کر لیا۔ حلب اور دمشق کو تاخت و تاراج کیا۔ شہریوں کا قتل عام ہوا۔ بغداد پر حملہ کیا تو حکم دیا کہ اس کا ہر سپاہی کم از کم دو کٹے ہوئے سر پیش کرے۔ آرمینیا اور جارجیا کی عیسائی آبادیوں کو ملیامیٹ کر دیا۔ ساٹھ ہزار تو صرف غلاموں کی تعداد تھی۔
کچھ عرصہ پہلے ایک معروف مبلغ نے برطانیہ میں کہا کہ اہلِ مغرب اپنے اعمال ہمیں دے دیں اور ہم سے ہمارا ایمان لے لیں۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں تھا کہ ہم کافر ہو جائیں۔ اعمال اور ایمان کا تبادلہ یوں بھی ناممکن ہے۔ مگر یہ سمجھانے کا ایک انداز تھا اور ان کا مطلب یہ تھا کہ ہم ایمان تو رکھتے ہیں مگر ایمانی معاملات جس پاکیزگی کا تقاضا کرتے ہیں، اس سے محروم ہیں۔ ان مبلغ صاحب کے پیچھے ’’مسلمان‘‘ ہاتھ دھو کر پڑ گئے کہ انہوں نے ایسا کہا تو کیوں کہا؟
ہم اس سوال کی طرف پلٹتے ہیں جس کا جواب کہیں نہیں مل رہا۔ تمام عبادات، صدقات و خیرات کے باوجود ملاوٹ کیوں عام ہے؟ گاڑیوں میں ڈالے جانے والے تیل سے لے کر سموسوں اور پکوڑوں میں ڈالے جانے والے تیل تک ہر شے جعلی اور جھوٹی کیوں ہے؟ ایک سو بیس روپے ایک کلو دودھ کے وصول کرنے والا مسلمان روزے رکھنے کے باوجود پانی کیوں ملاتا ہے؟ ہر سال عمرہ کرنے والے حاجی صاحب انکم ٹیکس دیتے وقت حیلہ سازی اور دروغ گوئی سے کیوں کام لیتے ہیں؟ افطار میں کھجور کا التزام کرنے والا روزہ دار، سرخ بتی کی حرمت کیوں پامال کرتا ہے؟ گھر بیٹھا ہوا نمازی فون پر کیوں کہتا ہے کہ راستے میں ہے اور گاڑی خراب ہو گئی ہے؟ ہمارے غسل خانے دنیا کے سب سے زیادہ گندے غسل خانے کیوں ہیں؟ ہم اپنے اپنے گھر کے سامنے، چند مربع فٹ جگہ بھی صاف نہیں رکھتے! آخر کیوں؟
سائنس دان رات دن یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کائنات کی ابتدا کس طرح ہوئی، دمبدم پھیل کیوں رہی ہے؟ اور اس کا انجام کیا ہو گا؟ کوئی سائنس دان، کوئی فلسفی، کوئی انجینئر، کوئی دانشور، اس سوال کا جواب بھی تو دے کہ ہم شدید مذہبی ہونے کے باوجود، اتنی برائیوں کا ارتکاب کیوں کرتے ہیں؟
No comments:
Post a Comment