Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, June 06, 2017

معاشیات کے طلبہ کے لیے بجٹ پر ایک سبق


یہ اینٹیں بنانے کا بھٹہ ہے۔ ثقیل اردو میں اسے ’’بھٹہ خشت‘‘ کہتے ہیں۔ جیسے اقبال نے کہا ہے ع
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
غالب بھی خشت سے واقف تھا   ع
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں
اینٹوں کے اس بھٹے پر بچے عورتیں اور بوڑھے کام کرتے ہیں۔ یہ لوگ نسل درنسل بھٹوں ہی سے منسلک چلے آتے ہیں۔ ان میں سے اگر کوئی کسی ایک بھٹے سے سلامت بچ نکلے تو کسی اور بھٹے میں بھی یہی کام کرتا ہے۔ اس کی زندگی کی باگ بھٹے کے منشی کے ہاتھ میں ہے۔ بھٹے پر جتنا کام خرکار کے کھوتے کرتے ہیں، یہ انسان اُس سے زیادہ کرتے ہیں۔ یہ لوگ بھٹے کے ساتھ ہی چھوٹے چھوٹے ماچس نما کمروں میں رہتے ہیں‘ ان کی ساری زندگی ان ڈربوں ہی میں گزرتی ہے کیوں کہ شہر آنے جانے کے اخراجات ان کے بس سے باہر ہیں۔ اینٹیں بنانے والے یہ خاندان ہر وقت دھوپ اور گرمی کے لیے دعائیں مانگتے رہتے ہیں۔ کیوں کہ بارش اور سردی میں ان کا کام ٹھپ ہو جاتا ہے اور یہ فاقوں پر اتر آتے ہیں۔
یہ لوگ بھٹے کے منشی سے ایک بار پیشگی وصول کرتے ہیں۔ اس کے بعد یوں سمجھیے کہ بھٹے کے ساتھ یہ زنجیروں سے بندھ گئے۔ اگر سوروپے روزانہ اجرت ہے تو ستر اسی روپے پیشگی کے ضمن میں کاٹ لیے جاتے ہیں۔ پیشگی ادائیگی کے نظام میں جکڑا ہوا خاندان ایک بھٹے سے دوسرے بھٹے میں ’’منتقل‘‘ ہوتا رہتا ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی جنوبی ریاستوں میں سیاہ فام غلاموں سے کپاس کے فارموں پر ایسے ہی کام لیا جاتا تھا۔ یہ غلام ایک فارم سے دوسرے فارم تک فروخت ہوتے رہتے تھے۔ بھاگنے والوں کو پکڑ کر عبرت ناک سزائیں دی جاتی تھیں۔ پائوں کاٹ دیا جاتا تھا۔ کتے چھوڑ دیئے جاتے تھے۔ جنسی بربریت کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ مگر حالات بدل گئے۔ غلامی ختم ہو گئی۔ نسلی امتیاز کے ظاہری مظاہر بھی اوجھل ہونے لگے۔ یہاں تک کہ ان غلاموں کا ایک بیٹا ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا صدر بنا۔ ایک بار نہیں، دو بار!
مگر پاکستان میں اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے والوں کے حالات نہیں بدل سکتے۔ کبھی نہیں! قانون پاس ہوتے رہتے ہیں مگر زمینی حقائق وہی رہتے ہیں۔ انسانی حقوق کی کوئی تنظیم، سوشل سکیورٹی کا کوئی منصوبہ، کوئی خدمت کارڈ، بھٹوں پر کام کرنے والوں کے شب و روز نہیں بدل سکتا۔ بجٹ آتے ہیں۔ بھٹوں کے پاس سے سیٹی بجاتے گزر جاتے ہیں۔ ان 
غلاموں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ تنخواہوں میں بجٹ اضافہ 
-------کرے یا نہ کرے، انہیں اس سے کوئی غرض ہے نہ علاقہ۔
(2)گائوں کے عقب میں یہ چھوٹا سا گھر ہے اس کا صحن بڑا 
ہے۔ صحن میں کانوں(سرکنڈوں)سے بنی ہوئی چقیں، چھاج اور کھاریاں پڑی ہیں۔ یہ گائوں کے مصلی کا گھر ہے۔ مصلی کا نام کوئی نہیں ہوتا۔ بس وہ مصلی ہوتا ہے۔کچھ سال ہوئے پنجاب کے ایک سیاستدان نے ’’مالو مصلی‘‘ کا نام استعمال کیا تھا۔ بس اس مصلی کو بھی مالو ہی کہہ لیجیے۔ اس کی بیوی بیٹیاں بچے بہنیں چودھری صاحب کی حویلی میں کام کرتی ہیں۔ شادی بیاہ غم یا موت کے موقع پر مصلی بے دام غلام ہوتا ہے۔ اس کی اپنی ملکیتی زمین نہیں ہوتی۔ اس کے گھر میں غلہ وغیرہ چودھری فصل اترنے پر بھجوا دیتا ہے۔ یہ جس مکان میں رہتا ہے وہ بھی پٹواری کے کاغذات میں چودھری صاحب ہی کا ہے۔ مصلی کا باپ مصلی ہوتا ہے۔ اس کا بیٹا اور پوتا بھی مصلی ہوتے ہیں۔ اس کا اور اس کے گھر والوں کے شناختی کارڈ چودھری صاحب لے کر بنکوں سے قرضہ لیتے ہیں۔ پھر یہ کارڈ مصلی کو واپس مل جاتے ہیں۔ بجٹ، کیا وفاقی اور کیا صوبائی، کئی آئے اور اس کے قریب سے گزر گئے۔ -------اس پر اور اس کے خاندان پر کسی بجٹ کا سایہ نہیں پڑتا۔
(3)یہ ایک بڑے شہر کی بڑی کوٹھی کا سرونٹ کوارٹر ہے۔ ایک ہی کمرہ ہے مگر اسے کوارٹر کہا جاتا ہے۔ کل چھ افراد یہاں رہائش پذیر ہیں۔ مرد ترقیاتی ادارے کے دفتر میں مالی ہے۔ اس کی بیوی بہن اور ماں کوٹھیوں میں برتن مانجھتی ہیں۔ کپڑے دھوتی ہیں اور فرش صاف کرتی ہیں۔ جس دن صاحب کو یا بیگم کو غصہ آئے‘ انہیں چند گھنٹوں کے نوٹس پر کوارٹر سے نکال دیتے ہیں۔ یہ لوگ بھی تقریباً مزارع یا مصلی ہی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہ دیہات کے بجائے شہر میں رہتے ہیں۔ جس طرح مزارع یا مصلی کا اپنا گھر نہیں ہوتا‘ اسی طرح سرونٹ کوارٹر میں رہنے والے کا بھی اپنا گھر نہیں ہوتا۔ سرونٹ کوارٹر کیوں بنائے جاتے ہیں‘ اس کی وجہ نہیں معلوم! امریکہ‘ کینیڈا‘ برطانیہ‘  فرانس میں سرونٹ کوارٹر نہیں ہوتے بجٹ جیسا بھی ہو‘ سرونٹ کوارٹروں میں رہنے والوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا کیونکہ مزید ان کا کچھ نہیں بگاڑا جاسکتا! 
(4)یہ ایک بڑے شہر کے امیر علاقے میں واقعہ دینی مدرسہ ہے۔ زرگل خان یہاں دوسرے لڑکوں کے ساتھ زیرتعلیم ہے۔ یہ سب لڑکے مانسہرہ‘ دیر اور دیگر شمالی اور قبائلی علاقوں سے آئے ہیں یا لائے گئے ہیں! زرگل کے تیرہ بہن بھائی ہیں جو گائوں میں رہتے ہیں۔ زرگل سب سے بڑا ہے۔ اس کے گائوں میں ایک بار ایک مولانا صاحب آئے۔ اس کے والد سے کچھ بات چیت کی۔ پھر زرگل کو ساتھ لیا اور ایک لمبی سی بس میں بٹھا کر اسے اپنے ساتھ شہر کے اس مدرسہ میں لے آئے۔ زرگل رات کو چٹائی پر سوتا ہے۔ دن کو چٹائی ہی پر بیٹھ کر سبق پڑھتا اور یاد کرتا ہے۔ جمعہ کے دن اسے سبق کی چھٹی ہوتی ہے۔ اس دن وہ اپنے کپڑے دھوتا ہے۔ زرگل یہاں آٹھ برس رہے گا۔ کیونکہ پڑھائی کی مدت آٹھ برسوں پر محیط ہے۔ ان آٹھ برسوں میں اس کی نقل و حرکت‘ بالعموم‘ مدرسہ اور ملحقہ مسجد تک محدود رہے گی۔ اس کا کھانا پینا مدرسہ کے ذمہ ہے۔ اگر کسی دن اس کا کسی ایسی شے پر دل چاہے جو مدرسہ کے مطبخ میں نہیں پکتی تو وہ صبر کرلیتا ہے۔ اسے تین سال ہو گئے ہیں مگر ابھی تک اس کا باپ اسے ملنے نہیں آ سکا۔ وہ باقی بارہ بچوں کے اخراجات پورے کرنے میں گلے گلے تک پھنسا اور دھنسا ہوا ہے۔ زرگل کے بھائی جیسے جیسے بڑے ہوتے جائیں گے‘ اس مدرسہ میں‘ یا دوسرے مدارس میں رہنے کے لیے آتے جائیں گے۔ زرگل خان کے طرز زندگی پر‘ اندازِ رہائش پر‘ لباس پر‘ اسے پڑھائے جانے والے نصاب پر کسی بجٹ کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔
(5)یہ جھنڈے والی کار ہے۔ اس میں وزیر صاحب سوار ہیں‘ وزیر بہت اہم ہوتے ہیں‘ ملک چلانے کی ذمہ داری ان کے کاندھوں پر ہوتی ہے۔ وزیر صاحب کے والد مرحوم بھی وزیر تھے۔ ان کے دادا بھی اسمبلی کے رکن تھے۔ پڑدادا انگریزوں کے زمانے میں وائسرائے کی کونسل کے ممبر تھے۔ وزیر صاحب کے خاندان کی زرعی زمین کئی قریوں اور بستیوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ ان کی حویلیوں میں درجنوں جیپیں‘ بیسیوں ٹریکٹر اور بے شمار ٹرالیاں ہیں۔ کھیتوں میں کام کرنے والے افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ علاقے کا تھانیدار‘ تحصیل دار‘ پٹواری سب وزیر صاحب کی منشا کے مطابق تعینات اور تبدیل ہوتے ہیں‘ وزیر صاحب کی خاندانی شرافت کا یہ عالم ہے کہ حکمران طبقہ سے تعلق رکھنے کے باوجود اے سی‘ ڈی سی‘ ایس پی اور ڈی آئی جی کے گھروں میں تحائف باقاعدگی سے بھجواتے ہیں۔ بٹیروں کے موسم میں سینکڑوں بٹیرے ان افسروں پر قربان کردیئے جاتے ہیں۔ اب حالات بدل گئے ہیں۔ صنعت کار بھی جاگیرداروں کی طرح وزارتیں اور ممبریاں خاندانی حوالوں سے حاصل کرنے لگے ہیں۔ اب صنعت کاروں کے زرعی فارموں پر بھی ہزاروں من گندم اگتی ہے۔ اگر صنعت کار صوبے کا وزیراعلیٰ ہو‘ یا ملک کا بادشاہ ہو تو اسے عام کسانوں زمینداروں کی نسبت باردانہ فوراً سے پیشتر پیش کیا جاتا ہے جبکہ عام کسانوں کو اس کے حصول کے لیے کئی پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔
بجٹ کے آنے جانے سے وزیر صاحب پر‘ ان کے اہل خانہ پر‘ ان کی زمینداری پر‘ ان کی ممبری اور وزارت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
آپ پوچھ سکتے ہیں کہ اس سبق میں جتنے لوگوں یا پیشوں کا ذکر آیا ہے‘ اگر ان میں سے کسی پر بھی بجٹ اثر انداز نہیں ہوتا‘ تو پھر کن پر ہوتا ہے؟ اس کا جواب کسی آئندہ سبق میں!

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com