Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Saturday, June 17, 2017

پڑھے لکھے گنّوار


سوٹڈ بوٹڈ عمائدین کا خواتین کو کبھی ٹریکٹر ٹرالی اور کبھی ڈمپر کہنے سے اور جے آئی ٹی کو قصائی کی دکان سے تشبیہہ دینے سے کم از کم ایک بات ضرور واضح ہو گئی ہے کہ گنّوار پن صرف اس طبقے کی میراث نہیں جسے یہ حضرات نچلا طبقہ کہتے ہیں۔ اب جانگلی زبان صرف وہ افراد نہیں استعمال کرتے جنہوں نے چپل پر کھلے پائنچوں والی شلوار پہنی ہو اور گرمیوں میں بھی گلے میں رنگین مفلر ڈالا ہوا ہو جس کے دونوں سرے مختلف سمتوں میں لہرا رہے ہوتے ہیں۔
میرؔ ایک شہر سے دوسرے شہر تک بیل گاڑی میں سفر کر رہے تھے۔ اس زمانے میں یہی ذریعۂ آمدو رفت تھا۔ بیل گاڑی میں اور بھی مسافر تھے۔ شاعر نے سارا راستہ کسی سے بات نہ کی کہ عامیانہ لہجے سے زبان نہ متاثر ہو۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ ہمارے امرا، ٹریکٹر ٹرالی، ڈمپر اور قصائی کی دکان جیسے الفاظ جن کی زبان پر اکثر و بیشتر آتے ہیں، اس بیل گاڑی میں ہوتے تو میرؔ کی کیا حالت ہوتی؟
شمالی ہندوستان کے شہروں میں بچوں کو تہذیب و تربیت کے لیے رقص و سرودوالی عورتوں کے سپرد کیا جاتا تھا۔ شرفا گالی بھی دیتے تھے تو حد ادب کے اندر! فیروز دہلوی نے اپنے مضمون ’’دلی اور دلی والے، چند تہذیبی مرقعے‘‘ میں ایک واقعہ لکھا ہے۔ ہر ماہ حکیم اجمل خان صاحب بعد نمازِ عشاء اپنے مخصوص احباب کے ساتھ ایک ایسی محفل ضرور منعقد کرتے جس میں احباب بے تکلفی کے ساتھ ہنستے، قہقہے لگاتے۔ دلی کے محلہ سوئی گراں میں ان دنوں ایک زر دوز عمو جان تھے جو کپڑوں کے ساتھ ساتھ گالیوں میں بھی زر دوزی کرتے تھے۔ حکیم صاحب نے اپنی مخصوص محفل میں انہیں بلوایا اور کہا ’’عمو جان! ہم چاہتے ہیں کہ آپ کوئی ایسی گالی سنائو جس میں کوئی فحش اور بے ہودہ لفظ نہ ہو! ہر گالی پر ایک روپیہ انعام ملے گا!‘‘عمو جان کچھ دیر خاموش رہے پھر تیزی سے اٹھے۔ الٹے قدموں دیوان خانے کے دروازے تک پہنچے، جھک کر تین بار سلام کیا پھر کہا۔ ’’عرض کرتا ہوں حکیم صاحب! قبلہ! حضور! میں آپ کا داماد!‘‘ اتنا کہہ کر جوتی پہن یہ جا وہ جا! محفل پر سکتہ طاری ہو گیا۔ سب حکیم صاحب کا منہ دیکھنے لگے۔ اگلے لمحے حکیم صاحب مسکرائے ’’ہاں بھئی! گالی ہے! مہذب گالی! عمو جان کو لے کر آئو!‘‘ ملازم دوڑا مگر مرصع گالی دینے والا زر دوز واپس نہ آیا۔ اس زمانے میں آنکھ میں حیا ہوتی تھی! گالی حکیم صاحب کی فرمائش پر دی تھی مگر واپس آنا مناسب نہ سمجھا۔
تہذیب کے اندر رہ کر مزاح پیدا کرنے، طنز کرنے اور چوٹ کرنے کے لیے علم بھی درکار ہے۔ زکاوت بھی اور ذہانت بھی۔ اکبر کے عہد میں بڑے بڑے نابغے اور علم و فضل کے پیکر موجود تھے۔ ان کی آپس میں نوک جھونک بھی ہوتی تھی۔ مشہور شاعر عرفیؔ ابوالفضل کے گھر ملاقات کے لیے گیا۔ ان دنوں ابوالفضل کے بھائی فیضی نے کلامِ پاک کی تفسیر اس طرح لکھی تھی کہ کوئی حرف نقطے والا اس میں نہ آیا تھا۔ عرفی پہنچا تو ابوالفضل قلم دانتوں میں دابے سوچ میں غرق تھا۔ سبب پوچھا۔ ابوالفضل نے کہا بھائی صاحب کی تفسیر کا دیباچہ اُسی صنعت میں(یعنی نقطوں کے بغیر) لکھ رہا ہوں۔ والد صاحب کا نام لکھنا ہے۔ چاہتا ہوں نام بھی آ جائے اور نقطہ بھی نہ ڈالنا پڑے۔ فیضی اور ابوالفضل کے والد کا نام مبارک تھا۔ عرفی نے فوراً کہا، اس میں پریشانی کی کیا بات ہے۔ جو آپ کا اپنا لہجہ ہے اس میں ’’ممارک‘‘ لکھ دیجیے۔ یاد رہے کہ اس زمانے میں مبارک کو گنواروں کا طبقہ ممارک کہتا تھا۔
ایک بار فیضی علیل تھا۔ عرفی مزاج پرسی کے لیے گیا۔ فیضی کو کتوں کا شوق تھا۔ چند پِلّے پھر رہے تھے۔ عرفی نے پوچھا ’’مخدوم زادوں کے نام کیا کیا ہیں؟‘‘ فیضی نے جوابی چوٹ کی کہ ’’بہ اسم عرفی‘‘ یعنی عام، معمولی نام ہیں۔ عرفیؔ کہاں ہار ماننے والا تھا۔ کہنے لگا مبارک باشد! اشارہ فیضی کے والد کی طرف تھا۔
گنوار ہونے کے لیے لکڑ ہارا، تیلی یا چمار ہونا ضروری نہیں۔ یہ بھی لازم نہیں کہ وہ خانہ بدوش یا بنجارہ ہو! ایک دہقان بھی مہذب ہو سکتا ہے اور ایک اعلیٰ نسب شہری بھی گنوار پن کا مظاہرہ کر سکتا ہے۔ اپنے اردگرد دیکھیے، سفید، کاٹن کے کھڑ کھڑاتے لباسوں میں ملبوس، یا نکٹائی لگائے ہوئے کئی گنواروں سے آپ کا سابقہ پڑے گا۔ وفاقی وزیر نے جس زبان کا مظاہرہ کیا ہے، وہ ہماری معاشرتی پستی کی صرف ایک علامت ہے۔ ورنہ معاملہ صرف زبان تک محدود نہیں۔ آپ سپرسٹور کے کائونٹر پر کھڑے ادائیگی کرنے کے لیے قطار میں کھڑے ہیں۔آپ کی باری آتی ہے۔آپ کائونٹر والے کو رقم دے رہے ہیں۔ اتنے میں پیچھے سے ایک ہاتھ بڑھتا ہے اور رقم کائونٹر پر رکھ کر کائونٹر والے سے مخاطب ہوتا ہے، یہ گنوارپن ہے۔ آپ پارکنگ میں، خالی جگہ پر اپنی گاڑی لگانے لگے ہیں۔ پیچھے سے زُوں کرتی ایک کار آتی ہے اور آپ کا راستہ کاٹتی خالی جگہ پر کھڑی ہو جاتی ہے۔ یہ بھی گنوار پن ہے۔ آپ ہوٹل میں داخل ہوئے ہیں۔پیچھے آنے والے کے لیے دروازہ کھول کر کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ گزرتے ہوئے شکریہ ادا کرنا تو درکنار، آپ کی طرف دیکھتا بھی نہیں، جیسے آپ اس کے ملازم ہیں اور آپ نے اپنا فرض ادا کیا ہے۔ یہ شخص بھی گنوارہے خواہ مسٹر ہے یا علامہ۔ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا اگر وہ ایک کروڑ کی گاڑی سے اترا ہے اور ایک لاکھ روپے کا ڈیزائنر سوٹ زیبِ تن کر رکھا ہے۔ آپ کسی صاحب کے ہاں جاتے ہیں وہ آپ کو دیوان خانے(ڈرائنگ روم) میں لے آتے ہیں۔ ابھی آپ کھڑے ہی ہیں کہ وہ بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ بھائی صاحب بھی پکے گنوار ہیں۔ آپ سے ایک صاحب نے وعدہ کیا ہے کہ شام پانچ بجے آپ کے ہاں قدم رنجہ فرمائیں گے۔ آپ پانچ بجے سے انتظار کر رہے ہیں۔ وہ آتے ہی نہیں یا بہت تاخیر سے آتے ہیں۔ آپ کو مطلع بھی نہیں کرتے۔ یہ بھی گنوار ہیں۔ قدریں الٹ پلٹ ہو گئی ہیں۔ کل جو سیاہ تھا آج سفید ہو گیا ہے۔ والد اور والدہ کے آنے پر یا کسی بزرگ کی تشریف آوری پر جو عورت یا مرد نشست سے اٹھ کر کھڑا نہیں ہو جاتا، کیا آپ اسے مہذب کہیں گے؟ وہ وقت بھی تھا جب باپ کے جوتے سیدھے کرنے کے لیے اولاد میں مسابقت ہوتی تھی اور گلی میں چلتے وقت باپ یا بڑے بھائی سے آگے ہو کر چلنا بدتہذیبی سمجھی جاتی تھی۔
تہذیب اور گنوار پن کا اندازہ لگانا ہوتو شادی بیاہ کی دعوتوں کو غور سے دیکھیے۔ گنوارپن کا آغاز اس کوشش سے ہوتا ہے کہ جہاں کھانا لگے گا، اس کے قریب ہی نشست ملے تا کہ حملہ کرنے میں تاخیر نہ ہو۔ اس کے بعد غور سے دیکھتے جائیے۔ ہو سکے تو اس منظر کو ویڈیو میں محفوظ کر لیجیے اور بعد میں کاغذ قلم لے کر غور سے دیکھیے اور مہذب اور گنوار افراد کی فہرست مرتب کیجیے۔ قطار میں کھڑے ہو کر کون بار بار آگے ہو کر دیکھ رہا ہے؟ پلیٹ لینے کا کیا اسلوب ہے؟صبر کی رمق موجود ہے یا سخت بے تابی کا عالم ہے؟ قطار توڑنے والے اور کھانے کی پراتوں پر ہلہ بولنے والوں کی بہتات ہو گی۔ پھر یہ نوٹ کیجیے کہ کھانا کتنا ڈالا جا رہا ہے۔آپ دیکھیں گے کہ اکثر حضرات کبابوں اور بوٹیوں سے پلیٹ بھر لیتے ہیں اور پلائو یا بریانی کا پلیٹ میں مینار کھڑا کر لیتے ہیں۔ پھر انہیں تناول کرتا دیکھیے۔ جیسے یہ ان کی فانی زندگی کا آخری کھانا ہی تو ہے۔ پھر مشروبات کے لیے سرگرمی، دوڑ اور بوتل قابو کرنے کی حرکات دیکھیے۔ گائوں سے تو کوئی بھی نہیں آیا ہوا۔ سب بظاہر تعلیم یافتہ اور سٹیٹس رکھنے والے معززین ہیں، بات وہی ہے جو پہلے ہو چکی ہے۔ تعلیم اور لباس کا تہذیب اور گنوارپن سے کیا تعلق! تعلیم اور شے ہے، تربیت اور شے۔
وسط ایشیا میں ایسی ضیافتوں میں شریک ہونے کے مواقع ملے جن میں تین تین ہزار مہمان بھی تھے۔ سب بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں۔ ایک پلیٹ میں دو افراد کو بھی پلائو پیش کیا جاتا ہے جو آمنے سامنے بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں۔ کچھ علاقوں میں کھانا رکھا جاتا ہے تو مہمان کھانا نکالنے کا آغاز کرتا ہے۔ مہمان کے لیے گھر میں پلائو پکے تو خاندان کا معمر ترین فرد آغاز کرتا ہے اور سب کو ڈال کر دیتا ہے۔ کھانا شروع کرنے سے پہلے دعا مانگی جاتی ہے۔
دی روڈ ٹو مکہ کے مشہور مصنف علامہ محمد اسد جو آسٹریا کے یہودی خاندان سے تعلق رکھتے تھے، فلسطین میں ٹرین میں سفر کر رہے تھے۔ یہ گزشتہ صدی کے اوائل کا قصہ ہے۔ گاڑی ایک سٹیشن پر رکی۔ ان کے سامنے بیٹھا ہوا بدو اترا۔ واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں روٹی تھی۔ اس نے روٹی کو دو برابر حصوں میں تقسیم کیا اور ایک حصہ اسد کو پیش کیا۔ ایک یورپی کے لیے یہ انوکھا واقعہ تھا۔ انہوں نے لینے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا تو بدوبولا، میں بھی مسافر ہوں اور آپ بھی۔ یہ پہلی کھڑکی تھی جو اسد کے دل میں اسلام کی طرف کھلی۔ اس اعرابی کا لباس دیہاتی وضع قطع کا تھا، لہجہ بھی شہری نہیں تھا۔ کیا وہ مہذب تھا؟ یا گنوار؟ اس سوال کا جواب اپنے دل سے پوچھیے!

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com