یہ کوہستانِ نمک کا ایک قصبہ تھا۔ ایک وقت تھا کہ یہ قصبہ بڑا نہیں تھا۔ بس قلیل
سی آبادی تھی۔ جہاں اب بازار ہے، وہاں کھیت تھے۔ جہاں اب مکان ہیں، وہاں جنگل تھا۔
بازار کا چوک تھا جہاں ایک تیرہ بخت، رُوسیاہ نے اپنے باپ کے ساتھ گستاخی کی! لوگ دیکھ رہے تھے۔ دکانداروں کی نظریں اُس کی طرف تھیں۔ گاہک بھی متوجہ ہو گئے۔ اس نے بلند آواز میں باپ کو برا بھلا کہا، اور پھر، میرے قلم کے منہ میں خاک، اُس نے اپنے باپ پر ہاتھ اُٹھایا! لوگ اُٹھ کر اس کی طرف بھاگے۔ اُسے پکڑا۔ روکا۔شرم دلائی۔ اس کے بوڑھے باپ کو سہارا دیا اور دلاسہ بھی۔
وقت کم ہے! بہت جلد یہ آسمانی درخت یہاں نہیں ہو گا! یہ اُٹھ کر، اُڑ کر، آسمان میں غائب ہو جائے گا۔ پرندے نظر سے اوجھل ہو جائیں گے۔ فرشتے چل دیں گے۔ پھر کفِ افسوس ملنے کے سوا تمہاری زنبیل میں کچھ نہیں ہو گا۔ پھر تم حسرت و یاس کے ساتھ اپنے آپ سے کہو گے کاش، فلاں وقت یہ بات نہ کہتا! کاش! اُن کا فلاں حکم فوراً مان لیتا! کاش اُن کی فلاں خواہش پوری کر دیتا۔مگر تم تو اُس وقت مصروف تھے۔ تمہاری سوشل سرگرمیاں بہت زیادہ تھیں۔ تمہاری ترجیح اپنی اولاد، اپنی بیگم، اپنے دوست احباب تھے۔
پروفیسر راجہ یعقوب صاحب جب یہ آنکھوں دیکھا واقعہ سنا رہے تھے، اِس کالم نگار کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں اور سرگھوم رہا تھا۔ لیکن ابھی تو واقعہ باقی ہے۔ مکمل نہیں ہوا۔ اُسی بازار میں ایک بوڑھا بھی تھا۔ عمر میں اگر سب سے نہیں، تو اکثر و بیشتر سے بڑا۔ جب بات آئی گئی ہو گئی تو بوڑھے نے کہا کہ یہ قصبہ اُن دنوں بڑا نہیں تھا۔ بس قلیل سی آبادی تھی۔ جہاں اب بازار ہے، وہاں کھیت تھے۔ جہاں اب مکان ہیں وہاں جنگل تھا۔ جس چوک پر اُس نے باپ کے ساتھ گستاخی کر کے اپنا نامۂ اعمال سیاہ کیا، کم و بیش یہی جگہ تھی، اُس وقت چوک تھا نہ دکانیں! مگر اسی جگہ پر اِس بدبخت کے باپ نے سالہا سال پہلے اپنے باپ کے ساتھ گستاخی کی تھی۔ یہی جگہ تھی۔ یہی انداز تھا۔ گستاخی زبانی بھی کی تھی اور ہاتھ بھی اٹھایا تھا۔
جو جانتا ہے، وہ جانتا ہے، جو نہیں جانتا وہ اچھی طرح جان لے، کانوں میں سے بے نیازی کی روئی نکال لے، ذہن پر پڑا ہوا جالا صاف کر لے اور دل کو ڈھانپتے ہوئے پردے کو ایک طرف دھکیل دے۔ اچھی طرح جان لے کہ جو وہ بو رہا ہے، وہی کاٹے گا۔ ماں باپ کے ساتھ جو سلوک کر رہا ہے، وہی اس کے ساتھ ہو گا۔ نہیں! ایسا کسی مقدس کتاب یا صحیفے میں ’من و عن‘ بلیک اینڈ وائٹ، لکھا ہوا تو نہیں، مگر صدیوں سے، ہزاروں برس سے لوگ ایسا ہی دیکھتے چلے آ رہے ہیں۔ یہ مشاہدہ ایک بار نہیں، لاکھوں بار کیا گیا۔ ہوں گی! مستثنیات ہوں گی مگر قاعدہ کلیہ اکثریت کی بنیاد پر وجود میں آتا ہے۔
وقت کم ہے! خدا کے بندو! وقت کم ہے۔ اگر ماں باپ حیات ہیں تو یوں سمجھو تمہارے گھر کے صحن میں ایک آسمانی درخت ہے۔ جس پر دو پرندے بیٹھے ہیں۔ پرندے ہیں یا فرشتے، ولی ہیں یا اوتار! جو کچھ بھی ہیں، تمہارا سب کچھ یہی ہیں۔ تم دعا کرانے اگر پیروں، بزرگوں، بابوں، ملنگوں کے پاس جا رہے ہو تو تمہارا حال اُس اعرابی جیسا ہے جو مکہ جانا چاہتا تھا مگر رُخ ترکستان کی طرف تھا۔ دعا کا خزانہ تو تمہارے گھر میں موجود ہے۔ جنت تمہاری ماں کے قدموں میں ہے اور دعا، نبی ٔ برحقؐ نے فرمایا کہ ،باپ کی قبول ہوتی ہے۔ تم کہاں بھٹک رہے ہو؟ تم قسمت کا حال جاننے اگر نجومیوں، جوتشیوں اور دست شناسوں کے ڈیروں پر دھکے کھا رہے ہو تو بہت بدبخت ہو، تمہاری قسمت تو اُس سلوک سے متعین ہو گی جو تم اپنے ماں باپ کے ساتھ کرو گے! تمہار ے بخت کا انحصار تو اُس رویّے پر ہو گا جو تم اپنے ماں باپ کے ساتھ رکھو گے۔
وقت کم ہے! بہت جلد یہ آسمانی درخت یہاں نہیں ہو گا! یہ اُٹھ کر، اُڑ کر، آسمان میں غائب ہو جائے گا۔ پرندے نظر سے اوجھل ہو جائیں گے۔ فرشتے چل دیں گے۔ پھر کفِ افسوس ملنے کے سوا تمہاری زنبیل میں کچھ نہیں ہو گا۔ پھر تم حسرت و یاس کے ساتھ اپنے آپ سے کہو گے کاش، فلاں وقت یہ بات نہ کہتا! کاش! اُن کا فلاں حکم فوراً مان لیتا! کاش اُن کی فلاں خواہش پوری کر دیتا۔
مگر تم تو اُس وقت مصروف تھے۔ تمہاری سوشل سرگرمیاں بہت زیادہ تھیں۔ تمہاری ترجیح اپنی اولاد، اپنی بیگم، اپنے دوست احباب تھے۔ اس گہما گہمی میں، اس ہائو ہُو میں، تم بھول جاتے تھے کہ ایک بوڑھا اور ایک بڑھیا کہیں تمہارا راستہ دیکھ رہے ہیں۔ تمہارا چہرہ چومنا چاہتے ہیں۔ تمہارے ہاتھ اپنے جھریوں بھرے نرم پلپلے ہاتھوں میں رکھنا چاہتے ہیں۔ تم رات کو دیر سے آتے تھے تو تمہاری بیوی اور بچے سو رہے ہوتے تھے مگر ایک کمرے سے روشنی باہر جھانک رہی ہوتی تھی۔ بوڑھی آنکھوں میں تمہارے آنے سے پہلے نیند کہاں آتی تھی۔ ہونٹ تمہاری خیریت کے لیے دعائیں پڑھ رہے ہوتے تھے۔ آنکھیں تمہارا راستہ دیکھ رہی ہوتی تھیں۔ اُس وقت تم اُن کی درد کرتی پیٹھ کے ساتھ لگ کر تکیہ نہ بنے۔ ان کی کمزور بصارت کے لیے لاٹھی نہ بنے۔ پھر موت کھڑکی کے راستے اندر آئی، انہیں لیا اور اُسی کھڑکی سے باہر نکل گئی اور اب تم اس کے سوا کیا کہہ سکتے ہو کہ ؎
عصا در دست ہوں اُس دن سے بینائی نہیں ہے
ستارہ آنکھ میں آیا تھا، میں نے کھو دیا تھا
کم ہے! وقت بہت کم ہے خدا کے بندو! جن کے ماں باپ حیات ہیں، اپنے آپ کو خوش بخت گردانیں، اُن کے پیروں میں جوتے اپنے ہاتھوں سے ڈالیں، تمہارے جوتے اگر ملازم پالش کرتا ہے تو ماں باپ کے جوتے اپنے ہاتھوں سے پالش کرو! انہیں ہر وہ سہولت بہم
پہنچائو جو تم نے اپنے آپ کو اپنی بیوی کو اپنی اولاد کو فراہم کی ہوئی ہے۔ ان کا کمرہ
صاف رکھو، ان کے لباس پر توجہ دو۔ انہیں ان کی مرغوب غذا کھلائو۔ ان کے سینے کے ساتھ لگو، ان کے پائوں پر ہاتھ رکھو۔ ان کے ہاتھوں کو چومو! ان کے علاج معالجہ اور ادویات کی فراہمی میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھو۔ اس لیے کہ وقت تیز رفتار ہے۔ ٹھہرتا ہے نہ کسی کا ساتھ دیتا ہے۔ بہت جلد تمہارے قویٰ مضمحل ہو جائیں گے۔ تمہارا یہ کڑیل جسم گداز ہو کر ضعیف ہو جائے گا۔ تمہارا چہرہ جھریوں سے اَٹ جائے گا۔ تمہارے پیروں کی سکت ہوا ہو جائے گی۔ تمہارے ہاتھوں کی گرفت ڈھیلی پڑ جائے گی۔ تمہاری بینائی میں خلل واقع ہو جائے گا۔ تمہاری یادداشت ناقابلِ اعتبار ہو جائے گی۔ تم پہلے محلے میں، پھر اپنے کوچے میں، پھر اپنے مکان میں اور آخر کار اپنے کمرے میں محدود و مقید ہو کر رہ جائو گا۔ تم اولاد کے دست نگر ہو جائو گے۔ یہ وقت ہے جو تم پر کٹھن ہو گا۔ اس لیے کہ تمہیں ایک ایک بات یاد آئے گی۔ تم اپنے بچوں کے سلوک پر اپنے آپ سے کہو گے کہ میں نے بھی ایسا ہی کیا تھا اور میں نے بھی ایسا ہی کہا تھا۔
پس جو جانتا ہے، وہ تو جانتا ہے، جو نہیں جانتا، وہ اچھی طرح، کسی شک و شبہ کسی ابہام کے بغیر جان لے کہ جیسا کرے گا ویسا ہی پیش آئے گا۔ سیب کا درخت لگائے گا تو جھولی میں سیب گریں گے اور ببول کا پیٹر لگائے گا تو دامن کانٹوں سے بھر جائے گا۔
اور وہ جو اِن آسمانی طائروں سے محروم ہو چکے ہیں، رفتگاں کے لیے دعائیں کریں۔ اُن کی مغفرت کے لیے گڑ گڑائیں، اپنی کوتاہیوں اور فروگزاشتوں پر معافی مانگیں۔ یہ مقدس مہینہ ہے۔ تکبر اور نخوت کو اور خوش گمانی کو ایک طرف پھینک کر غلط رویے کو دل کی گہرائیوں میں تسلیم کریں۔ اس لیے کہ رضا کا تسلیم کے ساتھ گہرا رشتہ ہے۔ اپنے ماں باپ کے رشتہ داروں، دوستوں اور سہیلیوں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آئیں۔ کیا خبر تلافی ہو جائے۔
اور کوئی بھول کر بھی یہ گمان نہ کرے کہ اس نے حق ادا کر دیا ہے۔ اس لیے کہ حق تو اس ایک رات کا بھی نہیں ادا کیا جا سکتا جو ماں نے پیٹ میں رکھ کر تکلیف میں بسر کی۔ اور اُس ایک ہاتھ کا بھی نہیں ادا کیا جا سکتا جو باپ نے سر پر رکھا۔ ثواب تو کیا، یہی انعام کیا کم ہے کہ پکڑ نہ ہو! اور وہی قسمت کا دھنی ہو گا جو پکڑ سے بچ جائے گا۔
اور اس کالم نگار کو دیکھیے، گناہوں کی گٹھڑی اس کی شناخت ہے ؎
شاید جگرِ حزیں ہمین است
از بارِ گنہ کمر خمیدہ
یہی ہے غم زدہ جگرؔ۔ بارِ عصیاں سے کمر جھکی ہوئی!
ہو سکے تو دعا کر دیجیے کہ کوتاہیاں معاف ہو جائیں!
طوفِ کعبہ کو گئے تو باقیؔ
میرے حق میں بھی دعا کیجیے گا
No comments:
Post a Comment