ہر جیت سنگھ سجن بھارتی پنجاب کے ضلع ہوشیار پور کے ایک گائوں میں پیدا ہوا۔ والد
پولیس میں کانسٹیبل تھا۔ ہرجیت سنگھ چھ سال کا تھا جب اس کے کنبے نے کینیڈا کا رخ کیا۔ وہاں ہر جیت کا باپ لکڑی کاٹنے کی مل میں اور ماں ایک زرعی فارم میں ملازمت کرتے رہے۔
ہر جیت بڑا ہوا تو فوج میں بھرتی ہو گیا۔ کینیڈا کے جو فوجی افغانستان تعینات تھے ان میں ہر جیت بھی تھا۔ پنجابی اور اردو سے آشنا ہونے کی وجہ سے اسے افغانوں سے بات چیت کرنے میں دوسروں پر برتری حاصل تھی۔ کینیڈا واپس ہوا تو اس کے ان افسروں نے جنہوں نے افغانستان میں اس کی کارکردگی دیکھی تھی‘ اسے ’’کینیڈا کی انٹیلی جنس کے لیے بہترین سرمایہ‘‘ قرار دیا۔ فوج کی طرف سے تمغہ دیا گیا۔ پھر وہ اپنے صوبے ’’برٹش کولمبیا‘‘ کے گورنر کا اے ڈی سی رہا۔ داڑھی کی وجہ سے ملٹری گیس ماسک پہننے میں دقت کا سامنا ہوا تو ہرجیت نے ایسا گیس ماسک ایجاد کیا جو داڑھی کے ساتھ چل سکتا تھا۔ اس نے اس ایجاد کو اپنے نام کے ساتھ رجسٹر بھی کرا لیا۔
طویل قصے کو مختصر کرتے ہیں۔ ملازمت سے فارغ ہو کر ہر جیت نے مقامی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔ اس نے چینی نژاد مدمقابل کو شکست سے دوچار کیا اور پارلیمنٹ میں پہنچ گیا۔ آج وہ کینیڈا کا وزیر دفاع ہے‘ کابینہ کا رکن ہے۔
اشوک وردکار بمبئی میں پیدا ہوا ‘ ڈاکٹر بنا تو انگلستان ہجرت کر گیا۔ وہاں سے ایک بار پھر واپس بھارت آیا۔ دوسری بار ہجرت کر کے آئر لینڈ میں مقیم ہو گیا۔ وہیں اس کا بیٹا پیدا ہوا۔ اس کا نام اس نے لیو وردکار رکھا۔2003ء میں اس لڑکے نے ڈاکٹری کی تعلیم مکمل کی۔ کئی سال ہسپتالوں میں جونیئر ڈاکٹر کے طور پر کام کرنے کے بعد 2010ء میں جی پی (جنرل پریکٹیشنر) تعینات ہوگیا۔ سیاست میں دلچسپی شروع ہی سے تھی۔ کالج کے زمانے میں انتخابات میں حصہ لیا اور کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ اس قصے کو بھی مختصر کرتے ہیں۔ سیاست میں زینہ بہ زینہ اوپر ہوتا گیا۔ ٹرانسپورٹ اور سیاحت کا وزیر رہا۔ پھر وزارتِ صحت کا قلم دان سنبھالا۔ آج یہ بھارتی نژاد آئر لینڈ کا وزیر اعظم ہے!
برداشت اور ہم آہنگی کی یہ مثالیں مغربی معاشرے سے ہیں! کیا یہ برداشت صرف غیر مسلم تارکین وطن کے لیے مخصوص ہے؟ شواہد اس کی نفی کرتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ لندن کا میئر پاکستانی نژاد مسلمان ہے۔ درجنوں مسلمان مرد اور عورتیں دارالعوام برطانیہ کی ارکان منتخب ہوئی ہیں اور ان علاقوں سے جہاں سفید فام اکثریت میں رہتے ہیں! آسٹریلیا کا مواصلات کا نیٹ ورک’’آسٹریلین پوسٹ‘‘ کہلاتا ہے اور یہ سرکاری سرپرستی میں نجی کاروبار کے اصولوں پر چلتا ہے۔ اس کا سربراہ ایک لبنانی نژاد مسلمان احمد فاعور رہا ہے۔ آسٹریلیا کی بیورو کریسی میں اس کی تنخواہ سب سے زیادہ تھی۔ حال ہی میں اسے بلند ترین سول ایوارڈ سے نوازا گیاہے۔ یہ اس کی ان خدمات کے صلے میں دیا گیا جو بقول حکومت‘ اس نے بنکاری بزنس اور سرمایہ کاری کے میدان میں سرانجام دیں۔ آسٹریلیا کے ’’اسلامی عجائب گھر‘‘ کی بنیاد احمد کے بھائی مصطفی نے رکھی۔ پورے خاندان نے اس میوزیم کی ترقی کے لیے مالی اور انتظامی خدمات سرانجام دی ہیں۔
اب ہم مشرق وسطیٰ کی طرف آتے ہیں۔
المشرف
(Al-mushrif)
ابوظہبی کا ایک معروف علاقہ ہے۔ اس میں ایک مسجد یو اے ای کے حکمران سے منسوب تھی۔ مسجد کا نام ’’شیخ محمد بن زید النیہان مسجد‘‘ تھا۔ گزشتہ ہفتے ابو ظہبی کے ولی عہد اور یو اے ای کی مسلح افواج کے ڈپٹی سپریم کمانڈر نے اس مسجد کا نام ’’محمد بن زید مسجد‘‘ سے بدل کر ’’مریم اُمِّ عیسیٰ مسجد‘‘ رکھ دیا۔ حکومت کے اعلان کی رُو سے اس تبدیلی کا مقصد مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان انسانیت کے رشتے کو مضبوط تر کرنا تھا! اسلامی امور کے محکمے کے سربراہ الکعبی کے بیان کے مطابق یہی وہ پالیسی ہے جس کی وجہ سے دو سو سے زیادہ اقوام یو اے ای میں امن و امان سے زندگی بسر کر رہی ہیں!
اس مسجد کے قریب ہی سینٹ اینڈریوز کا گرجا ہے۔ تھوڑی ہی دور جنوبی عرب کے کیتھولک بشپ کا دفتر واقع ہے۔ کسی نے کبھی گرجائوں یا پادریوں کے دفتر کو میلی آنکھ سے دیکھا نہ کسی مسجد پر اعتراض کیا۔ گزشتہ ہفتے ہی ایک اور منظر دنیا نے دیکھا۔ العین میں واقع ایک گرجا کے ملازم‘ مغرب سے تھوڑی ہی دیر پہلے چرچ کے فرش پر قالینی صفیں آراستہ کر رہے تھے۔ چرچ میں دو سو مسلمانوں نے اس دن نماز مغرب ادا کی۔
اس رمضان کے دوران یو اے ای کی کابینہ نے ایک خصوصی منصوبہ’’قومی برداشت پروگرام‘‘ منظور کیا ہے اس سے پہلے ’’وزارت برداشت‘‘ بھی یو اے ای میں کام کر رہی ہے۔ ایک خاتون لبنیٰ بنت خالد القاسمی کے پاس اس وزارت کا قلم دان ہے۔ خاتون وزیر نے کابینہ کو بریف کرتے ہوئے بتایا کہ ’’قومی برداشت پروگرام‘‘ کی بنیاد سات ستونوں پر قائم ہو گی۔
1۔ اسلام
2۔ یو اے ای کا آئین
3۔شیخ زید کے فرامین اور اخلاقیات
4۔ بین الاقوامی معاہدے
5۔ آثار قدیمہ اور تاریخ
6۔ انسانیت
7۔ مشترکہ اقدار
یہ ہیں وہ کاوشیں جو یو اے ای کی حکومت اپنے نوجوانوں کو انتہا پسندی سے محفوظ رکھنے کے لیے کر رہی ہے۔ انہیں سکھایا جا رہا ہے کہ دوسرے مذاہب‘ دوسری اقوام اور دوسری ثقافتوں کے ساتھ کس طرح مل جل کر رہنا ہے۔ کسی سے مذہب‘ رنگ‘ نسل کی بنیاد پر امتیاز برتنا ہے نہ نفرت پالنی ہے۔حکومت اس سلسلے میںایک ’’ہفتہ برداشت‘‘ بھی منعقد کرے گی۔ ایک ’’برداشت مرکز‘‘ قائم کیا جائے گا۔ ان پروگراموں میں خاندان کی بنیادی اکائی سے لے کر مرکزی حکومت تک‘ سارے سٹیک ہولڈرز کو حصہ دار بنایا جائے گا۔’’کونسل برائے برداشت‘‘ ایک اور شعبہ ہو گا جس کا کام ان ماہرین کا انتخاب ہو گا جو قومی ہم آہنگی اور رواداری کے لیے پالیسیاں بنائیں‘ مشورے دیں اور نئے تصورات پیش کر کے حکومت کی پشتی بانی کریں۔
اب ہم پاکستان کا رخ کرتے ہیں۔ تھرپارکر کے ایک گائوں کی ایک ہندو فیملی نے تھانے میں ایف آئی آر کٹوائی ہے کہ ان کی سولہ سالہ لڑکی کو اغوا کر لیا گیااور اسی دن اس کی شادی اس سے دو گنا عمر کے ایک شخص سے کر دی گئی۔ دوسری طرف لڑکی سے نکاح کرنے والے شخص نے بھی عدالت
سے مدد مانگی ہے۔ اس کا بیان ہے کہ لڑکی نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کر کے اس سے شادی کی ہے۔
لڑکی نے شادی مرضی سے کی یا نہیں‘ اور مذہب خوشی سے تبدیل کیا یا طاقت سے کرایا گیا‘ یہ متنازعہ ہے۔ مگر اس تنازعہ سے قطع نظر‘ ایک قانونی پہلو دلچسپ ہے اور قابل غور بھی! وکیل بھگوان داس نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اپریل 2014ء میں سندھ اسمبلی نے ایک قانون پاس کیا جس کا نام ’’سندھ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ
(Restraint)
ایکٹ 2013ء‘‘ ہے۔ اس قانون کی رو سے اٹھارہ سال سے کم عمر کے افراد کی شادی کی رجسٹریشن ایک ایسا جرم ہے جس کی ضمانت نہیں ہو سکتی اور اس میں ملوث اور مددگار افراد کو تین سال تک کی قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ ہندو لڑکی کی عمر کیا ہے؟ پرائمری سکول کے سرٹیفکیٹ پر‘ جس کا عکس میڈیا نے چھاپا ہے‘ لڑکی کی تاریخ پیدائش14جولائی2001ء ہے۔ اس حساب سے اس کی عمر سولہ سال بنتی ہے۔ لڑکی کے بہنوئی کا کہنا ہے کہ اٹھارہ سال کی تو مشکل سے اس کی بیوی ہے جو لڑکی کی بڑی بہن ہے۔ شادی کے رجسٹر پر دولہا کا سال پیدائش1980ء درج کیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے اس کی عمر 37سال ہے۔ دولہا کے قومی شناختی کارڈ کانمبر بھی درج کیا گیا ہے۔ تاہم لڑکی کی عمر ’’اندازاً 18سال لکھی گئی ہے۔ تاریخ پیدائش کا اندراج کیا گیا ہے نہ قومی شناختی کارڈ کے نمبر کا۔قبولیتِ اسلام کی جو سند جاری کی گئی ہے اس پر بھی لڑکی کی عمر ’’اندازاً 18سال‘‘ درج کی گئی ہے۔
لڑکی کے اہل خانہ کا بیان ہے کہ گائوں میں ان کے (یعنی ہندو برادری کے) صرف چار گھر ہیں۔ جن خاندانوں کا گائوں پر غلبہ ہے انہوں نے ’’کہلوایا‘‘ ہے کہ یہ لوگ گائوں چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں!
معاملے کو مذہبی عصبیت کا رنگ دینے کے بجائے غور اس پر کرنا چاہیے کہ اگر عمر اٹھارہ برس ہے تو اس کا ثبوت کہاں ہے؟ جب کہ خاندان کے پاس پرائمری سکول سرٹیفکیٹ ہے جس پر اصل تاریخ پیدائش دیکھی جا سکتی ہے!
کبھی کبھی ایسی باتیں سننے میں آتی ہیں کہ کراچی کو ایک سازش کے تحت اجاڑا گیا تاکہ دبئی ترقی کر سکے۔ سوال یہ ہے کہ کیا خود ساختہ تاریخوں کے اندراجات کی مدد سے مذہب تبدیل کرانا اور شادی کرانا بھی دوسرے ملکوں کی سازش ہے؟ نہیں! خدا کے بندو! سازش کسی نے نہیں کی! ہم جو کھیتی آج کاٹ رہے ہیں وہ اس عدم برداشت کے بیج کی پیداوار ہے جو ہم ستر سال سے اس دھرتی پر بو رہے ہیں! ہم دوسرے کا مذہب نہیں برداشت کر سکتے۔
دوسروں کا مسلک برا لگتا ہے۔ دوسرے کی نسل نہیں برداشت کر سکتے‘ دوسرے کی زبان ہمیں کھلتی ہے! اس پر تو ہم مسرت کا اظہار کرتے ہیں کہ یوم پاکستان پر دبئی کی تاریخ ساز عمارت ’’برج خلیفہ‘‘ پاکستانی پرچم کے رنگوں میں نہا رہی تھی مگر یہ سوچنے کے لیے تیار نہیں کہ اسی یو اے ای میں دو سو قومیں رہ رہی ہیں۔ وہاں کوئی ایسا واقعہ نہیں پیش آتا کہ لڑکی اسلام قبول کرے اور اس کے فوراً بعد اس کی شادی 37سالہ ’’لڑکے‘‘ سے ہو جائے اور شادی کے رجسٹر پر تاریخ پیدائش کا اندراج ہو نہ قومی شناختی کارڈ کا!
حیرت ہے‘ ابھی تک ابوظہبی کی مسجد کا نام محمد بن زید مسجد سے ’’مریم امِّ عیسیٰ‘‘ رکھنے پر ہمارے ملک میں کوئی احتجاجی جلوس نہیں نکلا! کہیں ہماری ملی غیرت سو تو نہیں گئی؟
No comments:
Post a Comment