امیرالمومنین عمر فاروقؓ اور امیرالمومنین علی مرتضیؓ عدالتوں میں پیش ہوتے
رہے۔ کیا کبھی انہوں نے یا ان کے ساتھیوں نے کہا کہ ایسا کر کے امت پر احسان کر رہے ہیں؟
خاتون وزیر نے کہا کہ وزیراعظم پیش ہو کر تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ فراق گورکھپوری یاد آگیا ؎
جان دے بیٹھے تھے اک بار ہوس والے بھی
پھر وہی مسئلۂِ سود و زیاں ہے کہ جو تھا
ایک گروہ ہے مفاد اٹھانے والوں کا…
Beneficiaries
کا‘ جنہوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا ہے کہ وزیراعظم پیش ہو کر قوم پر احسان کر رہے ہیں! نہیں‘ایسا کر کے وزیراعظم اپنے آپ پر احسان کر رہے ہیں۔ تاریخ انہیں سنہری لفظوں سے یاد کرے گی کہ عدالت میں پیش ہو کر ملک کی سیاسی تاریخ کو ارتقا کی طرف لے گئے۔ ہم پختگی
Maturity)
(کا سفر طے کر رہے ہیں۔ ایک وقت تھا جب سیاسی حکومت کے تختے الٹے جاتے تھے۔ ایک وقت یہ ہے کہ حکومت کا سربراہ عدالت کے سامنے پیش ہورہا ہے۔ تمام مہذب‘ ترقی یافتہ‘ جمہوری ملکوں میں ایسا ہوتا ہے۔
نہیں‘محترمہ وزیر صاحبہ! ادب کے ساتھ عرض ہے کہ تاریخ تو کب کی رقم ہو چکی۔ یہ زید بن ثابت کی عدالت تھی جس میں امیرالمومنین حضرت عمرؓ مدعاعلیہ کے طور پر پیش ہوئے۔ وقت کا حکمران عدالت میں داخل ہوا تو جج زید بن ثابت احتراماً کھڑے ہو گئے۔’’یہ پہلی زیادتی ہے جو تم دوسرے فریق کے ساتھ کر رہے ہو‘‘! امیرالمومنین ناراض ہوئے۔
ستر سال تک قاضی شریح امت کے جھگڑوں میں فیصلے صادر کرتے رہے۔ کیا کسی کو یاد ہے امیرالمومنین عمر فاروقؓ نے شریح کو جج کیوں مقرر کیا تھا؟ امیرالمومنین ایک شخص سے گھوڑا خریدنے کی بات چیت کررہے تھے۔ گھوڑے کو ٹیسٹ کرنے کے لیے آپ اس پر سوار ہوئے‘ گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور ٹانگ متاثر ہوگئی۔ اس شخص نے گھوڑا واپس لینے سے انکار کردیا اور کہا کہ اب خریدنا پڑے گا۔ بات بڑھ گئی۔ گھوڑے کے مالک نے کہا کہ شریح سے فیصلہ کراتے ہیں۔ شریح نے دونوں کا موقف سنا اور کہا کہ امیرالمومنین! گھوڑا جس حالت میں آپ نے لیا تھا‘ اسی حالت میں واپس کیجئے۔ امیرالمومنین نے فیصلہ قبول کیا اور شریح کو مسلمانوں کا قاضی مقرر کر دیا۔
زرہ امیرالمومنین علی مرتضیٰؓ کی تھی مگر یہودی کے قبضے میں تھی۔ یہودی کا دعویٰ تھا کہ یہ اس کی اپنی ہے۔ عدالت میں پیش ہوئے۔ یہودی نے جھوٹے گواہ پیش کئے۔ حسنؓ اور حسینؓ کی گواہی قاضی نے تسلیم نہ کی اس لیے کہ وہ مدعی کے صاحبزادے تھے۔ امیرالمومنین علی مرتضیٰؓ کے مقام سے کون نا آشنا تھا! مگر مسلمانوں کے قاضی نے فیصلہ یہودیوں کے حق میں کیا۔ یہ اور بات کہ اس نظر آنے والے انصاف سے یہودی اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے تسلیم کیا کہ ہاں‘زرہ خلیفہ ہی کی ہے اور مسلمان بھی ہوگیا۔
’’اسرار و رموز‘‘ میں علامہ اقبال نے ایک حکایت نظم کی ہے۔ ہاں‘ وہی علامہ اقبال جس کی فارسی شاعری ایران سے لے کر تاجکستان تک پڑھی اور پڑھائی جاتی ہے۔ مگر چراغ تلے اندھیرا ہے۔ یوں بھی جب انتخابات جیتنے کے لیے پڑھا لکھا ہونا ضروری نہیں اور پڑھے لکھے لوگوں کو اس معاشرے میں سیکنڈ کلاس شہری سمجھا جائے گا تو کون بے وقوف ہے جو علم حاصل کرے گا! اب اقبال کی زبانی یہ واقعہ سنیے:
بُود معماری ز اقلیم خجند
در فنِ تعمیر نامِ اُو بلند
خجند کے علاقے میں (اب تاجکستان میں ہے۔ روسیوں نے 1936ء میں اس کا نام لینن آباد رکھ دیا۔ 1991ء میں دوبارہ اصل نام پڑا) ایک معمار تھا جو اپنے فن میں شہرۂ آفاق تھا۔
ساخت آن صنعت گرِ فرہاد زاد
مسجدی از حکمِ سلطان مراد
بادشاہِ وقت مراد تھا۔ اس کے حکم پر اس باکمال معمار نے ایک مسجد تعمیر کی
خوش نیامد شاہ را تعمیر اُو
خشمگین گردید از تقصیر اُو
بادشاہ کو اس کی تعمیر پسند نہ آئی۔ اس کی غلطی سے وہ غضب ناک ہو گیا۔
آتشِ سوزندہ از چشمش چکید
دست آن بیچارہ از خنجر برید
بادشاہ کی آنکھوں سے جلا دینے والی آگ برسنے لگی اور اس بے چارے کا ہاتھ خنجر سے کاٹ دیا۔
جوئی خون از ساعدِ معمار رفت
پیش قاضی ناتوان وزار رفت
معمار کی کلائی سے خون کی ندی پھوٹ پڑی۔ وہ مجبور و بے کس ہو کر قاضی کے پاس گیا۔
آن ہنر مندی کہ دستش سنگ سفت
داستانِ جورِ سلطان بازگفت
اس ہنر مند معمار نے کہ جس کے ہاتھ نے پتھر پروئے تھے‘ بادشاہ کے ظلم کی داستان کہی۔
گفت ای پیغامِ حق گفتارِ تو
حفظ آئین محمدؐ کارِ تو
اس نے قاضی سے کہا کہ آپ کی بات خدا کا پیغام ہے اور آپ کا فرض ہے کہ محمدؐ کے آئین کی حفاظت کریں۔
قاضی عادل بدندان خستہ لب
کرد شہ را در حضور خود طلب
انصاف پسند قاضی نے ہونٹوں کو دانتوں تلے دبایا اور بادشاہ کو اپنے حضور طلب کیا
رنگ شہ از ہیبت قرآن پرید
پیش قاضی چون خطا کاران رسید
قرآن کی ہیبت سے بادشاہ کا رنگ اڑ گیا۔ وہ مجرموں کی طرح قاضی کے حضور پیش ہوا۔
از خجالت دیدہ بر پا دوختہ
عارضِ اُو لالہ ہا اندوختہ
ندامت سے اس کی نظریں جھکی ہوئی تھیں جیسے پائوں کے ساتھ سل ہی گئی
ہوں۔ شرم سے اس کے رخسار لالہ گوں ہورہے تھے
یک طرف فریادیٔ دعویٰ گری
یک طرف شاہنشہِ گردوں فری
ایک طرف مدعی جو فریادی تھا اور دوسری طرف جاہ و جلال والا شہنشاہ!
گفت شہ از کردہ خجلت بردہ ام
اعتراف از جرمِ خود آوردہ ام
بادشاہ نے کہا مجھے اپنے کیے پر ندامت ہے۔میں اپنے جرم کا اعتراف کرتا ہوں۔
گفت قاضی فی القصاص آمد حیات
زندگی گیرد باین قانون ثبات
مگر قاضی نے کہا کہ زندگی تو قصاص میں ہے۔ حیات اسی قانون سے قائم و دائم ہے۔ (قاضی کا اشارہ اس آیت مبارکہ کی طرف تھا کہ تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے۔)
چوں مراد این آیۂ محکم شنید
دست خویش از آستین بیرون کشید
جب شہنشاہ مراد نے یہ آیت مبارکہ سنی تو اپنا ہاتھ آستین سے باہر نکال کر پیش کردیا۔
مدعی را تابِ خاموشی نماند
آیۂ بالعدل والا حسان خواند
دعویٰ کرنے والا معمار اس پر چپ نہ رہ سکا‘ اس نے وہ آیت پڑھی جس میں عدل و احسان کا ذکر ہے۔
گفت از بہر خدا بخشید مش
از برائی مصطفی بخشید مش
میں خدا کے لیے اور محمد مصطفیؐ کی خاطر معاف کرتا ہوں۔
یافت موری برسلیمانی ظفر
سطوتِ آئینِ پیغمبر نگر
ایک چیونٹی نے سلیمان ؑ پر فتح پالی۔ پیغمبر کے آئین کی شان و شوکت تو دیکھو۔
پیشِ قرآن بندہ و مولا یکی ست
بوریا و مسندِ دیبا یکی ست
قرآن کے سامنے غلام اور مالک برابر ہیں اور بوریا اور ریشمی مسند میں کچھ فرق نہیں۔
رہا بار بار یہ پانی بلوناکہ صرف ایک خاندان کا احتساب کیوں؟ تو پانامہ پیپرز میں نام شریفوں کا ہے اور احتساب رعایا کا نہیں‘ حکمرانوں کا ہوتا ہے۔ پانچ سال آصف زرداری برسراقتدار تھے۔ مسلم لیگ نون نے کیوں نہ ان کے جرائم کے خلاف عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ دعویٰ تھا کہ پیٹ پھاڑ کر قوم کی لوٹی ہوئی دولت نکالیں گے۔ کیوں نہ نکالی؟ احتساب سب کا ہونا چاہیے مگر حکمرانوں کا پہلے اور رعایا کا بعد میں! یہ نکتہ پہلے بھی پیش کیا تھا کہ بڑھیا نے جب امیرالمومنین سے کرتے کا حساب مانگا تو آنجنابؓ نے جواباً یہ نہیں فرمایا کہ پہلے بڑھیا حساب دے۔ سرتسلیم خم کر کے اپنا حساب دیا!
فارسی والوں نے کیا زبردست محاورہ ایجاد کیا ہے۔ آن را کہ حساب پاک است‘ ازمحاسبہ چہ باک؟ جس کا حساب کتاب درست ہے‘ اسے احتساب سے خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے۔ آخر کہیں نہ کہیں تو حساب ہونا ہے! ؎
دربارِ وطن میں جب اک دن سب جانے والے جائیں گے
کچھ اپنی سزا کو پہنچیں گے کچھ اپنی جزا لے جائیں گے
No comments:
Post a Comment