نسیم صاحب کے مالی حالات قابل رشک نہیں تھے۔ بچوں کے مستقبل کے حوالے سے پریشان رہتے۔ ذاتی مکان بھی نہیں تھا۔ انہی دنوں ان کا ایک قریبی دوست ہجرت کر کے لندن جا آباد ہوا۔ پاؤں جم گئے تو اس نے نسیم صاحب کو بھی ہجرت کرنے کا کہا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب ہم لڑکپن میں تھے اور یورپی ملکوں کے لیے امیگریشن ویزے اور وہاں نوکری کا حصول اتنا مشکل نہ تھا۔ نسیم صاحب کی مالی مشکلات کے پیش نظر یہ ایک زبردست موقع تھا۔ گھر والے بھی خوش تھے‘ مگر نسیم صاحب نے اپنے دوست کی پیشکش ٹھکرا دی۔ وجہ انکار کی انہوں نے یہ بتائی کہ جب تک ان کے ماں باپ حیات ہیں وہ ملک سے باہر نہیں جائیں گے۔ بیوی نے دلیل دی کہ اب بھی رہتے تو والدین کے ساتھ نہیں ہیں‘ وہ گاؤں میں ہیں اور آپ شہر میں۔ نسیم صاحب کا جواب تھا کہ جب بھی ان کا جی ماں باپ کو ملنے کے لیے کرتا ہے یا جب بھی ماں باپ کو ان کی ضرورت پڑتی ہے وہ تین گھنٹوں میں ان کے پاس پہنچ جاتے ہیں‘ لندن سے وہ اس قدر جلد اور اس قدر سہولت کے ساتھ نہیں آسکیں گے۔
ماں باپ کی قربت نسیم صاحب کی پالیسی کا مرکزی ستون تھی۔ ہر شخص کی ایک پالیسی ہوتی ہے جس کے ارد گرد اس کی زندگی کے اہم فیصلے گھومتے ہیں۔ کوئی بچوں کی اعلیٰ تعلیم کی خاطر بیرون ملک چلا جاتا ہے۔ کوئی اپنے ماں باپ یا آبائی گاؤں کو کسی حال میں نہیں چھوڑ نا چاہتا۔ کچھ نوجوان سی ایس ایس کے امتحان میں کامیاب ہونے کے بعد فارن سروس سے گریز کرتے ہیں کہ روز روز کی خانہ بدوشی سے بچوں کی تعلیم متاثر ہوتی ہے۔ ایک پکا مسلمان جب بزنس کرے گا تو اس کی بنیادی پالیسی دیانت ہوگی اور اکل حلال۔ ایک کٹر ہندو گوشت کا کاروبار کبھی نہیں کرے گا‘ یہ اس کے کاروبار کی پالیسی ہے۔
افراد کی طرح ملکوں کی پالیسی کا بھی ایک مرکزی ستون ہوتا ہے۔ ایک زمانے میں امریکہ کی پالیسی کمیونزم کے استیصال کے گرد گھومتی تھی۔ پھر کمیونزم کی جگہ سیاسی اسلام اور پھر عسکری اسلام نے لے لی۔ جنوبی اور شمالی کوریا اپنی پالیسیاں ایک دوسرے کو دیکھ کر، ٹوہ کر، تشکیل دیتے ہیں۔ شرقِ اوسط کی عرب ریاستوں کی پالیسی کا مرکزی نکتہ پہلے اسرائیل تھا۔ انقلاب ایران کے بعد آہستہ آہستہ ان کی ترجیحات بدلنا شروع ہوئیں۔ عراق، شام اور پھر یمن میں غیر ملکی مداخلتوں نے ان کی پالیسیوں کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا۔ اب ان کی پالیسی کا فیصلہ کن حوالہ ایران اور ایران کی پالیسیاں ہیں۔
جب سے یو اے ای اور اسرائیل کے درمیان معاہدہ ہوا ہے، پاکستان میں ایک نئی بحث چل پڑی ہے۔ یوں بھی ہم کوئی نہ کوئی باہمی باعث نزاع ڈھونڈ ہی لیتے ہیں۔ بقول غالب
ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق
نوحۂ غم ہی سہی نغمۂ شادی نہ سہی
ہر شخص کی زبان پر یا دل میں یہ منطقی سوال ابھر رہا ہے کہ یو اے ای کے اس اقدام کے بعد پاکستان کے لیے لائحۂ عمل کیا ہو گا۔ ایک گروہ کا موقف ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے یا اس سے تعلقات قائم کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ دوسرا گروہ عرب ملکوں کی مثال دے کر عملیت پسندی کی تلقین کرتا ہے‘ اور تسلیم کرنے کی حمایت کرتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ دونوں گروہ پاکستان کے نقطۂ نظر سے بات نہیں کر رہے۔ جو تسلیم نہ کرنے کا کہہ رہے ہیں وہ یہ سٹینڈ مسلم اُمّہ کے لیے لے رہے ہیں۔ دوسرا گروپ تسلیم کرنے کا اس لیے پرچار کر رہا ہے کہ عرب ممالک ایسا کر رہے ہیں۔
معاملے کا ایک تیسرا پہلو بھی ہے اور وہ ہے پاکستان کا اپنا مفاد اور اپنی پالیسی۔ یہاں ہم امت کی بات اس لیے نہیں کر رہے کہ پاکستان کی شہ رگ کشمیر کے سلسلے میں امت کے ایک کثیر حصے نے (دو تین ملکوں کو چھوڑ کر) کوئی مدد نہیں کی۔ کوئی پسند کرے یا نہ کرے، حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ستون کشمیر اور کشمیر سے بھی زیادہ وہ دشمنی ہے جو پاکستان کے لیے بھارت کے دل کی گہرائیوں میں اور دل تک خون لے جانے والی ایک ایک رگ میں اور دل سے خون واپس لانے والی ایک ایک ورید میں اور ہڈیوں میں اور ہڈیوں کے اندر گودے میں بھری ہوئی ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ دو بلاک وجود میں آ چکے ہیں۔ اس وقت یہ وجود دھند میں لپٹے ہوئے ہیں مگر مستقبل میں ان کی صورتیں واضح تر ہو سکتی ہیں۔ ایران ترکی اور چین ایک طرف ہیں۔ اسرائیل اور بھارت کا اتحاد ہمیشہ سے مضبوط تھا۔ اب اس اتحاد میں عرب طاقتیں بھی شامل ہو رہی ہیں۔ پاکستان کسی ایسے اتحاد یا بلاک میں شمولیت اختیار نہیں کر سکتا جس میں بھارت موجود ہو۔ حال ہی میں ایران اور چین کے درمیان قربتیں بڑھی ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان ایک طویل المیعاد اقتصادی معاہدے کا امکان روشن ہو رہا ہے۔ دوسری طرف ایران اور بھارت کے تعلقات میں دراڑ پڑ رہی ہے۔ امریکہ نے جو پابندیاں (sanctions)ایران پر لگائی ہیں بھارت ان کی خلاف ورزی کی ہمت نہیں کر سکتا۔ یوں چاہ بہار کا منصوبہ کھٹائی میں پڑ رہا ہے۔ ایران کو یہ بھی احساس ہے کہ بھارت یو اے ای اور سعودی عرب کے بہت نزدیک ہے۔ ایشیا ٹائمز نے اپنی حالیہ اشاعت میں صاف کہا ہے کہ ایران کے کچھ تجزیہ کار ایک سہ فریقی علاقائی بلاک وجود میں آتا دیکھ رہے ہیں جو چین پاکستان اور ایران پر مشتمل ہو گا اور جس سے بھارت کو جیو سٹریٹجک دھچکا لگ سکتا ہے۔
پاکستان کسی دوسرے ملک کا پیروکار نہیں کہ دوسروں کی دیکھا دیکھی اسرائیل کو تسلیم کر لے۔ اگر پاکستان کے مفاد میں ہے کہ تسلیم کیا جائے تو یہ ایک آزادانہ فیصلہ ہو گا۔ اور اگر اسرائیل کی قربت پاکستان کے مفاد میں نہیں تو بے شک سارا شرقِ اوسط اسرائیل کو تسلیم کر لے، پاکستان نہیں تسلیم کرے گا۔ اس لیے کہ اسرائیل اور ہمارے مشرقِ وسطیٰ کے بھائی، دونوں، بھارت کے قریبی دوست ہیں۔ پاکستان کشمیر اور بھارتی مسلمانوں کو پس پشت ڈال کر کسی بھی ایسے اتحاد میں شامل نہیں ہو سکتا جہاں بھارت پہلے ہی ایک نمایاں حیثیت کا مالک ہے۔
بر صغیر کے مسلمانوں کے ساتھ پاکستان کی قسمت بندھی ہوئی ہے۔ یہ مسلمان خواہ بھارت میں ہیں یا بنگلہ دیش میں، ہماری پالیسیوں کے لیے اہم ہیں۔ بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان حائل برف بھی پگھلنا شروع ہو چکی ہے۔ ڈھاکہ میں تعینات پاکستانی سفیر نے وہاں کے وزیر خارجہ سے ملاقات کی ہے۔ اس کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد صاحبہ کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو کی ہے۔ بھارت جو سلوک آسامی مسلمانوں اور بنگلہ دیش سے گئے ہوئے مسلمانوں کے ساتھ کر رہا ہے اس سے بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان دوریاں پیدا ہوئی ہیں۔ ہمارے عرب بھائیوں نے جو بے نیازی بھارتی مسلمانوں کی حالت زار پر اور مودی کی مسلم دشمنی پر دکھائی ہے اس سے بر صغیر کے مسلمانوں کے دل پر گہرا گھاؤ لگا ہے۔ دوسری طرف ایرانی حکومت نے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف برپا کیے گئے منظم فسادات پر گہری تشویش کا برملا اظہار کیا۔
عرب ملکوں کے اپنے مفادات ہیں‘ اور پاکستان کے اپنے۔ حجاز میں واقع مقدس مقامات کے دفاع کے لیے ہماری جانیں حاضر ہیں مگر جہاں تک سیاسی حرکیات کا تعلق ہے پاکستان کسی بھی دوسرے ملک یا ملکوں کی تقلیدِ محض نہیں کر سکتا۔ ظفر اقبال کے بقول
ہم اس کے، وہ اور کسی کا، پکی پختہ ڈوری
اپنا دل، اپنا مذہب، کیا جھگڑا چوں چنوں کا
No comments:
Post a Comment