اس کا معمول تھا کہ ہر ہفتے‘ نمازِ جمعہ ادا کر نے کے بعد‘ قبرستان جاتا۔ اپنے والد کی قبر کے پاس بیٹھ کر تلاوت اور دعاکرتا۔ پھر باقی اعزہ واقارب کی قبروں پر فاتحہ پڑھتا۔ کچھ قبروں پر سبز ٹہنیاں لگاتا۔ جو مزدور قبرستان میں صفائی کر رہے ہوتے‘ ان کی مالی امداد کرتا۔ قبرستان میں اسے ایک عجیب سا‘ پُراسرار سا‘ سکون حاصل ہوتا۔ دل تو اس کا چاہتا تھا کہ ہر روز اس خاموش بستی میں آئے‘ اس کے تنگ راستوں اور پگڈنڈیوں پر چلے‘ مزدوروں سے بات چیت کرے اور قبروں پر کھڑے ہو کر فاتحہ خوانی کرے مگر زندگی کی مکروہات ہفتے میں صرف ایک بار ہی اس کام کی اجازت دیتیں۔
جس جمعے کی بات میں کر رہا ہوں‘ اُس دن گرمی زوروں پر تھی۔ دھوپ تیز تھی۔درجہ حرارت چالیس سے کافی اوپر تھا۔ گلیاں سنسان تھیں۔ بیوی نے مشورہ دیا کہ قبرستان مغرب کے بعد چلا جائے مگر وہ ان لوگوں میں سے تھا جو اپنے معمولات میں رد وبدل برداشت نہیں کرتے۔ نماز کے بعد وہ حسبِ معمول سیدھا قبرستان پہنچا‘ تلاوت کی‘ فاتحہ خوانیاں کیں‘ مزدوروں کو پیسے دیے‘ پھر قبروں کے درمیان بنے ہوئے راستوں پر چلنے لگا۔ ایک کنارے پر چند نئی قبریں دکھائی دیں۔ نئی قبروں کے درمیان ایک پختہ راستہ نیچے کی طرف جا رہا تھا۔ اس نے جھانک کر دیکھا تو سیڑھیاں نیچے جا رہی تھیں۔ مہم جوئی کا مادہ اس میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ اس نے سیڑھیاں اتر کر نیچے کے طرف جانا شروع کر دیا۔ ابھی وہ آدھی سیڑھیاں ہی اترا تھا کہ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آنے لگے۔ نیچے پہنچا تو یہ ایک اچھا خاصا بڑا ہال نما کمرہ تھا اور خوب روشن تھا۔ چاروں طرف ایئر کنڈیشنر نصب تھے جو مسلسل سرد ہوا پھینک کر کمرے کی فضا کو یخ بستہ کر رہے تھے۔ کمرے کے عین درمیان میں ایک جہازی سائز کی لینڈ کروزر کھڑی تھی۔اس کے اندر بھی ایئر کنڈیشنر چل رہے تھے۔ اس میں ایک پلنگ پڑا تھا۔ پلنگ کے اوپر کوئی لیٹا ہوا تھا جو شاید سو رہا تھا۔ اس کے اوپر چادر تنی تھی۔ ساتھ والی نشست پر ایک باریش صاحب بیٹھے اونگھ رہے تھے۔ لینڈ کروزر میں سردی اس قدر تھی کہ باریش شخص نے کمبل اوڑھا ہوا تھا۔ عجیب پُراسرار‘ ڈرانے والا ماحول تھا۔ اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ سب کیا ہے۔ قبرستان! اس کے اندر اتنا بڑا تہہ خانہ! تہہ خانے میں بے پناہ ٹھنڈک! اس میں بڑی سی لینڈ کروزر! لینڈ کروزر میں‘ چادر اوڑھ کر سویا ہوا شخص! اس کے پاس سخت سردی میں‘ کمبل اوڑھے بیٹھا ایک باریش آدمی! کافی دیر تک وہ مختلف خیالات میں ڈوبا‘ وہیں کھڑا رہا۔ بالآخر اس نے فیصلہ کیا کہ اُس شخص سے‘ جو باریش ہے اور کمبل اوڑھے ہے‘ پوچھے کہ یہ سارا سلسلہ کیا ہے؟ اس نے لینڈ کروزر کی کھڑکی کے شیشے پر دستک دی۔ پہلی دستک کا ردعمل کچھ بھی نہ تھا۔ دوسری بار اس نے شیشے پر نسبتاً زور سے ہاتھ مارا۔ کمبل والا باریش شخص ہڑبڑا کر جاگا اور نیم وا آنکھوں سے اسے دیکھنے لگا۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے اسے باہر آنے کے لیے کہا۔ کمبل پوش کچھ دیر سوچتا رہا‘ پھر گاڑی سے نکل آیا اور استفہامیہ نگاہوں سے اسے دیکھنے لگا۔ اس نے پہلے تو معذرت کی کہ اسے معاملات میں مخل ہونا پڑا۔ پھر پوچھا کہ یہ سب کیا ہے؟ کمبل پوش نے کہا ''کیا پوچھنا چاہتے ہو؟؟ ''یہ سب‘‘ سے تمہاری کیا مراد ہے؟‘‘۔ اس نے جواب دیا کہ قبرستان میں یہ تہہ خانہ اور یہ سارا سلسلہ آخر کیا ہے؟ یہ سب کچھ بہت پُراسرار ہے اور یہ کہ وہ اس کی تفصیل جاننے کا متمنی ہے۔ خاص طور پر یہ کہ لینڈ کروزر میں سویا ہوا شخص کون ہے اور آپ کیوں اس کے پاس بیٹھے ہیں؟
کمبل پوش اسے تہہ خانے کے ایک کونے میں لے گیا جہاں دو کرسیاں رکھی تھیں۔ ایک الماری سے شربت کی بوتل نکال کر اسے پیش کی۔ پھر پوچھا ''آپ اخبار نہیں پڑھتے؟‘‘ اس نے جواب دیا کہ پڑھتا ہے بلکہ اس کے ہاں تو پانچ چھ اخبارات آتے ہیں! اس پر کمبل پوش نے حیران ہو کر کہا کہ کمال ہے! پھر بھی آپ شیخ غلام درہم کی وفات سے بے خبر لگتے ہیں۔ اس پر اسے یاد آیا کہ شہر کا امیر ترین اور معزز ترین شخص‘ شیخ غلام درہم پچھلے ہفتے انتقال کر گیا تھا۔ اس کا سیاست میں بھی عمل دخل تھا۔ اقتدار میں بھی بالواسطہ ہمیشہ شریک رہتا تھا۔ اکثر اس کی تصویریں اخبارات میں چھپتی تھیں اور الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر ظاہر ہوتی تھیں جن میں وہ غریب لوگوں کی مدد کر رہا ہوتا تھا۔ اس نے کمبل پوش‘ باریش شخص سے پوچھا کہ ان کی وفات کی خبر تو پڑھ لی تھی مگر اس تہہ خانے سے ان کی وفات کا کیا تعلق ہے؟
اس پر کمبل پوش نے چہرے پر غم واندوہ کے سائے لہراتے ہوئے جواب دیا کہ یہ ٹھنڈا تہہ خانہ دراصل ان کی قبر ہے۔ پھر کمبل پوش نے اسے یاد دلایا کہ غلام درہم کے جنازے کے لیے راتوں رات میدان نما جنازہ گاہ کو بڑے ہال میں تبدیل کیا گیا تھا اور اس میں درجنوں ایئر کنڈیشنر نصب کیے گئے تھے کیونکہ نمازِ جنازہ پڑھنے والے تمام حضرات کھرب پتی تھے اور لینڈ کروزروں میں آئے تھے۔ گرمی ان کے لیے ناقابلِ برداشت تھی۔ وہ اگر چاہتے تو لینڈ کروزروں میں بیٹھے بیٹھے بھی نماز جنازہ ادا کر سکتے تھے۔ تدفین کا وقت آیا تو قبر کی گہرائی‘ تنہائی اور گرمی کا سوچ کر شیخ غلام درہم کے کھرب پتی پسماندگان نے یہ تہہ خانہ بنوایا۔ لینڈکروزر میں شیخ مرحوم ہی کفن میں لپٹے لیٹے ہیں۔ بہت زیادہ سرد ٹمپریچر اس لیے رکھا گیا ہے کہ ان کی میت خراب نہ ہو۔ تہہ خانے کے ساتھ والے بڑے کمرے میں کئی عظیم الجثہ جنریٹر لگے ہوئے ہیں جو تہہ خانے کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے دن رات کام کر رہے ہیں۔ اس نے یہ تفصیل سنی اور کمبل پوش کا شکریہ ادا کیا۔ پھر کہا کہ ایک آخری سوال رہ گیا ہے۔ آپ کیوں لینڈ کروز کی سردی میں بیٹھے ٹھٹھر رہے ہیں؟ آپ کا لینڈ کروز کے اندر کیا کام ہے؟
اس پر باریش کمبل پوش نے جواب دیا کہ صرف وہی نہیں‘ کئی درجن باریش اشخاص اس کام پر مامور ہیں جو باری باری آٹھ آٹھ گھنٹوں کے لیے لینڈ کروزر میں شیخ غلام درہم کے پاس موجود رہتے ہیں۔ ''مگر کیوں؟‘‘ اس نے حیران ہو کر پوچھا۔ کمبل پوش نے بتایا کہ چونکہ شیخ غلام درہم اپنی بے پناہ کاروباری‘ سیاسی اور سماجی ذمہ داریوں میں مصروف رہنے کی وجہ سے دین کی مبادیات سے آگاہی حاصل نہیں کر سکے تھے‘ اس لیے پسماندگان نے سوچا کہ منکر نکیر آئیں تو کوئی ایسا شخص موجود ہونا چاہیے جو دین کی مبادیات سے واقف ہو اور سوالوں کا جواب دینے میں شیخ مرحوم کی مدد کر سکے! یہ سن کر وہ حیران ہوا۔ آخر یہ کیسے ممکن ہے؟ کیا منکر نکیر زندہ انسانوں کو دکھائی دیتے ہیں؟ اس حیرت میں اس نے کمبل پوش کو بھی شامل کیا۔ مگر کمبل پوش نے اس کا جواب بہت ہی منطقی اور عقلی طریقے سے دیا۔ اس کے جواب کا لب لباب یہ تھا کہ آج تک کسی قبر میں میت کے پاس کوئی زندہ انسان موجود نہیں ہوا۔ اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ منکر نکیر زندہ انسانوں کو نظر نہیں آتے۔ دونوں امکانات‘ نظر آنے اور نظر نہ آنے کے‘ موجود ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ دکھائی نہ دیں مگر ان کی آواز سنائی دے۔ پھر یہ بھی ہے کہ اس طرح کی قبر دنیا میں پہلی بار بنی ہے۔ آنا تو منکر نکیر نے قبر ہی میں ہے۔ کمبل پوش نے یہ بھی بتایا کہ اسے اور اس کے ساتھیوں کو یہاں موجود رہنے کا بھاری معاوضہ ملتا ہے۔ منکر نکیر نظر آئیں یا نہ آئیں‘ ان کی آواز سنائی دے یا نہ سنائی دے‘ اسے اس سے کوئی غرض نہیں!!
No comments:
Post a Comment