کالم

میں‘ گھڑ سوار اور کوڑے



آپ اس گھڑ سوار کو دیکھ رہے ہیں؟
اس کا گھوڑا بہترین ہے۔ اس گھوڑے کی خوراک میں مربّے‘ بادام اور سیب شامل ہیں۔ اس کی لگام اور رکابیں سونے کی ہیں۔ زین چاندی کی ہے۔ وہ تو گھڑ سوار کا بس نہیں چلتا ورنہ اس گھوڑے کی آنکھ ستارہ ہوتی اور نعل ہلال ہوتا! جو ملازم اس گھوڑے کی دیکھ بھال پر مامور ہے‘ اس کی تنخواہ وزیر کی تنخواہ سے زیادہ ہے اور مرتبہ بلند تر! اور گھڑ سوار کی تو کیا ہی شان و شوکت ہے! اس کا لباس مخمل کا ہے۔ اس کے جوتوں پر نگینے جڑے ہیں۔ تاج ہیروں اور جواہر سے مزیّن ہے۔ اس کا ترکش اور نیام از حد قیمتی ہے۔
اس عیش و عشرت کے‘ اس طمطراق‘ اس آن بان‘ اس شان و شکوہ‘ اس کرو فر کے اور اس شاہانہ ٹھاٹ باٹ کے اخراجات کہاں سے آتے ہیں؟ بھائی! اس کے اخراجات میری جیب سے جاتے ہیں۔ میری حالت پر‘ میری ہیئت کذائی پر اور میرے میلے‘ پھٹے پرانے ملبوس پر نہ جاؤ‘ یہ نہ دیکھو کہ میرے جوتوں میں چھید ہیں‘ میری ٹوپی بوسیدہ ہے‘ میرے پاس سواری کے لیے ایک مریل گدھے کے سوا کچھ نہیں‘ میرا گھر مٹی اور بھوسہ ملے گارے سے اور بانس کی تیلیوں اور درختوں کی شاخوں سے بنا ہے۔ یقین کرو کہ اس سب کچھ کے باوجود یہ میں ہوں جو اس گھڑ سوار کے آسماں بوس معیارِ زندگی کو برقرار رکھے ہوں! وہ یوں کہ میں جو کچھ کماتا ہوں اور جو کچھ اُگاتا ہوں اور جو کچھ پکاتا ہوں سب اس گھڑ سوار کے حوالے کر دیتا ہوں! اور ایسا بھی نہ سوچنا کہ میں دریدہ لباس‘ کمزور سا شخص آخر کتنا کما لیتا ہوں گا اور کتنا اُگا لیتا ہوں گا اور کتنا پکا لیتا ہوں گا۔ میں جو کچھ کھیت سے اُگاتا ہوں اور کارخانے میں بناتا ہوں اور جو کچھ تجارت سے حاصل کرتا ہوں اور جو کچھ تعلیمی اداروں میں پڑھا کر کماتا ہوں اس کا معتدبہ حصہ اس گھڑ سوار ہی کے پاس جاتا ہے۔ جو کچھ بھی اس کے وزیروں‘ مشیروں‘ امرا اور عمائدین کے پاس ہے سب میرا دیا ہوا ہے۔ میں آٹا خریدتا ہوں یا چینی‘ ادویات یا لباس‘ جوتے یا جرابیں‘ ہر شے کی قیمت میں اس گھڑ سوار کا حصہ ہے۔ میں ایک ہزار کا کریڈٹ موبائل فون میں ڈلواؤں تو اس میں سے بھی اڑھائی تین سو روپے گھڑ سوار کو جاتے ہیں! تم نے سنا ہو گا کہ کسی زمانے میں
 Serfdom
کا راج تھا۔ اس عہد میں غلام جو کچھ کماتے تھے‘ مالک کو دے دیتے تھے۔ کسی زمانے میں 
Fiefdom
کا بول بالا تھا۔ اس دور میں ہاری اور مزارع سب کچھ جاگیردار کے حوالے کر دیتے تھے مگر میرے زمانے میں یہ سب موجود ہیں اور پوری قوت کے ساتھ موجود ہیں۔ تم مانو یا نہ مانو‘ میں غلام بھی ہوں‘ ہاری بھی ہوں اور مزارع بھی!
اور مجھے اس سب کچھ کا صلہ کیا ملتا ہے؟ کیا تم نے وہ کوڑا نہیں دیکھا جو گھڑ سوار کے ہاتھ میں ہے؟ اس کا دستہ خالص سونے کا ہے۔ اس کے آگے کے حصے میں وہ چمڑا ہے جو سوکھ کر سخت ہو گیا ہے۔ صلے میں مجھے یہ کوڑا ہی پڑتا ہے۔ ہر ضرب سے میری پیٹھ کی کھال اُدھڑتی ہے۔ ایک کوڑا پڑتا ہے تو میرے بجلی کے بل میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ ایک اور کوڑا پڑتا ہے تو میرے سولر پینل کو جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ پھر ایک اور کوڑا پڑتا ہے‘ اس سے میری بنائی ہوئی چینی برآمد ہو جاتی ہے۔ گھڑ سوار کی‘ اس کے درباریوں کی‘ اس کے عمائدین کی چاندی ہو جاتی ہے۔ کچھ دیر کے بعد کوڑے کی سنسناہٹ پھر سنائی دیتی ہے اور میری پشت سے اُترے ہوئے گوشت کی سڑاند میری ہی ناک میں آتی ہے۔ اب کے چینی درآمد ہوتی ہے‘ درآمد کیے جانے پر ٹیکس معاف ہو جاتا ہے مگر میرے لیے چینی کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ چینی کے کارخانے ہیں یا بجلی پیدا کرنے والے کارخانے‘ سب گھڑ سوار کے ہیں یا اس کے درباریوں اور امرا و عمائدین کے!
اور ہاں ایک بات تو میں بتانا بھول ہی گیا۔ گھوڑا وہی رہتا ہے‘ گھوڑے کی دیکھ بھال کرنے والے مراعات یافتہ ملازم بھی وہی رہتے ہیں‘ بس گھڑ سوار بدلتا رہتا ہے! نئے گھڑ سوار کا لباس بھی مخملیں ہو جاتا ہے۔ جوتوں پر نگینے بھی لگ جاتے ہیں۔ ہیروں والا تاج اس کے سر پر بھی طاقت کی بہار دکھانے لگ جاتا ہے۔ مگر گھڑ سوار کے بدلنے سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پہلے ایک گھڑ سوار آیا‘ اس نے میری ننگی پیٹھ پر کوڑا مارا تو دنیا میں میرے جہازوں اور پائلٹوں پر پابندی لگ گئی۔ کروڑوں اربوں کا نقصان ہوا مگر کسی نے گھڑ سوار سے کچھ پوچھا‘ نہ اس کے وزیر سے! اب ایک اور گھڑ سوار مجھے ایک اور کوڑے کی ضرب لگا کر خوشخبری دیتا ہے کہ جس ٹریفک والے نے اس کے بیٹے کی سکیورٹی کی گاڑی کا چالان کیا ہے‘ اسے شاباش دی گئی ہے۔ یہ شاباش بھی کوڑے کی ضرب ہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ بیٹے کو سکیورٹی اور پروٹوکول کی گاڑیاں کس قانون کے تحت دی گئی ہیں؟ گاڑیوں کا خرچ اور ان کے کوچوانوں کی تنخواہوں کا خرچ بھی مجھ سیاہ بخت کی جیب سے نکالا جائے گا! افسوس صد افسوس!! تو کیا ہم مغلوں‘ خلجیوں اور تغلقوں کے عہد میں جی رہے ہیں؟ ان مطلق العنان بادشاہوں کے زمانے میں سرکاری خزانے سے شہزادوں اور شہزادیوں پر روپیہ لٹایا جاتا تھا۔ کوئی پوچھنے والا تھا نہ خزانہ دار کی ہمت تھی کہ انکار کرے! شاہی اخراجات کے آڈٹ کا تصور ہی نہیں تھا۔ پھر انگریز آئے۔ 1777ء میں اکاؤنٹنٹ جنرل تعینات کر دیا گیا۔ گیارہ سال بعد آڈیٹر نے بھی کام شروع کر دیا۔ 1843ء میں جب بہادر شاہ ظفر مشاعروں سے لطف اندوز ہو رہا تھا‘ انگریز حکومت نے سیکرٹری فنانس کی پوسٹ قائم کر دی اور اکاؤنٹنٹ جنرل کو ہدایت کی کہ سیکرٹری فنانس کی منظوری کے بغیر کوئی بل نہ پاس کیا جائے۔ یہ تھا وہ مستحکم مالیاتی نظام جو ورثے میں ملا تھا مگر یہ نظام شاید کوڑوں کی شدید ضربوں سے ہلاک ہو چکا ہے۔ جن افراد کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں‘ ان پر کیے جانے والے ''سرکاری‘‘ اخراجات کی منظوری متعلقہ سیکرٹری فنانس کیوں دے رہا ہے؟ اور اگر سیکرٹری فنانس کی منظوری نہیں ہے تو اکاؤنٹنٹ جنرل کیوں روپے دے رہا ہے؟ اور ڈی جی آڈٹ کیا کر رہا ہے؟ یہ سب ادارے جن پر کروڑوں اربوں خرچ ہو رہے ہیں‘ کیا معجون کھا کر سو رہے ہیں؟ کیا یہ باشاہوں کا زمانہ ہے؟ کیا کوڑے مارنے والے کم تھے کہ کوڑے مارنے والوں کی آل اولاد بھی ہم پر ستم ڈھا رہی ہے!
شاعر نے تو کہا تھا کہ
دنیا میں ٹھکانے دو ہی تو ہیں آزاد منش انسانوں کے
یا تختہ جگہ آزادی کی یا تخت مقام آزادی کا
مگر لگتا ہے اب جو دو ہی ٹھکانے ہیں وہ مری ہے یا لندن! دونوں مقامات گرمی سے دور ہیں۔ میری یہ حالت ہے کہ اے سی نہیں چلا سکتا کیونکہ بجلی کے بل کی ضرب کوڑے کی ضرب ہے! مری نہیں جا سکتا کہ سب کچھ تو گھڑ سوار لے جاتا ہے۔ لندن میں تو میرا ٹھکانہ اگر ہزار سال جیوں تب بھی نہیں بن سکتا! بچوں کا پیٹ کاٹ کر جو سولر پینل لگوایا تھا‘ اس پر گھڑ سوار کی نظر ہے کیونکہ امرا کے بجلی گھروں کو زندہ رکھنا بھی تو ضروری ہے۔ چنانچہ میں کوڑے کھاتا رہوں گا۔ گھڑ سوار جو بھی آئے گا‘ میں ایک عالی شان معیارِ زندگی اسے‘ اس کے گھوڑے کو اور اس کے وزیروں‘ امیروں اور درباریوں کو مہیا کرتا رہوں گا۔

مقبول کالم

کراچی کے گڈریے

خضاب کے رنگ دھنک پر

فرانس سے ایک خط