شیر کی سواری اور نانا کا دُکھ
ہم چار پرانے دوست ہیں۔ سکول کے زمانے کے! کوشش کرتے ہیں کہ مہینے میں کم از کم ایک بار مل بیٹھیں۔ ہم ایک دوسرے سے ہر بات شیئر کرتے ہیں۔ پرانی یادیں تازہ کرتے ہیں۔ گزرے وقتوں کے تذکرے کرتے ہیں۔ اس عمر میں مسائل بھی یکساں ہوتے ہیں۔ اولاد کی شادیاں‘ پوتے پوتیاں‘ نواسے نواسیاں‘ پیچھے گاؤں میں چھوڑے ہوئے کھیت اور حویلیاں‘ بیگمات کی صحت کے مسائل‘ عارضے جن میں ہم خود لاحق ہیں۔ آنکھوں میں اترتا موتیا اور اس کی سرجری۔ پروسٹیٹ کے مسائل! فلاں دوست بیمار ہے‘ فلاں یورپ یا امریکہ سدھار گیا! فلاں رخصت ہو گیا۔ ع کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں!
ہم میں سے کوئی جب ملک سے باہر ہوتا ہے تو دو یا تین ملک کے اندر رہ جانے والے دوست تب بھی مل بیٹھنے کا معمول باقاعدگی سے جاری رکھتے ہیں! جو ملک سے باہر ہوتا ہے یا ہوتے ہیں‘ کوشش کرتے ہیں کہ فون کے ذریعے یا وڈیو کے ذریعے ساتھ دیں! پرانے دوستوں کا کوئی نعم البدل نہیں! ان کے ساتھ مل بیٹھنا کئی بیماریوں کا علاج بھی ہے۔ میرے مستقل قارئین کو وہ تحریر یاد ہو گی جس میں حکیم غلام رسول بھٹہ صاحب کا ذکر کیا تھا۔ (دسمبر 2024ء میں یہ کالم روزنامہ دنیا ہی میں شائع ہوا تھا) ذہنی پریشانی اور ٹینشن کا علاج انہوں نے یہ بتایا کہ ہفتے میں کم از کم ایک بار پرانے دوستوں کے ساتھ کچھ وقت گزارو! سکول کالج کے زمانے کی شرارتوں کو یاد کرتے وقت ہم اُسی زمانے میں ایک بار پھر پہنچ جاتے ہیں اور حال کی تلخیاں تھوڑی دیر کیلئے ہی سہی‘ بھول جاتے ہیں!
چند روز پیشتر پیچھے وطن میں‘ یہی محفل برپا تھی۔ میں دور ہونے کی وجہ سے وڈیو پر تھا۔ میں جب شامل ہوا تو خلافِ معمول تینوں حضرات خاموش تھے۔ بُجھے بُجھے دکھائی دے رہے تھے۔ احوال پرسی کی تو حمید اور ناصر نے بتایا کہ ہمارا چوتھا یار‘ الطاف ذہنی طور پر عدم اطمینان کا شکار ہے‘ پراگندہ دل اور پریشان خاطر ہے۔ الطاف سے پوچھا: یار کیا بات ہے؟ تم تو دوسروں کی پریشانیوں کا مداوا کرتے ہو‘ تمہی مغموم ہو گئے تو ہم لوگوں کا کیا بنے گا؟ بتاؤ کہ کیا ہوا ہے؟ کہ بقول شاعر:
ہم نے تو کوئی دُکھ تمہیں ہرگز نہیں دیا
پھر دو جہاں کا کون سا غم کھا گیا تمہیں
الطاف نے شعر سن کر مسکرانے کی ناکام کوشش کی۔ کہنے لگا: ایک تو یہ ہر موقع پر کوئی نہ کوئی شعر چسپاں کرنے کی تمہاری عادت نہیں جاتی۔ میں نے کہا کہ شعر تو میری زندگی کا حصہ ہیں اور پھر یہ بھی ہے کہ شعروں کے علاوہ آتا بھی تو کچھ نہیں‘ مگر بتاؤ کہ مسئلہ کیا ہے؟ الطاف کہنے لگا: تمہیں معلوم ہے نہ کہ میری بیٹی‘ اپنے کنبے کے ساتھ چند ماہ پیشتر کینیڈا منتقل ہوئی ہے۔ میں نے کہا: ہاں یاد ہے۔ تم اُس کے جانے پر اداس تھے مگر ساتھ ہی مطمئن بھی تھے کہ کہ بیٹی کی دیرینہ خواہش پوری ہوئی۔ الطاف نے جواب دیا کہ ہاں! اس کی ایک عرصہ سے خواہش تھی کہ بے شمار دوسرے پاکستانی خاندانوں کی طرح وہ بھی کسی ترقی یافتہ مغربی ملک میں بسیرا کرے! تمہیں یہ بھی معلوم ہے کہ مجھے اپنی نواسی کتنی عزیز ہے۔ اس کی پیدائش سے لے کر اس کے کینیڈا جانے تک وہی میری دلچسپیوں کا مرکز رہی۔ وہ اپنے گھر کی نسبت ہمارے گھر میں یعنی ننھیال میں زیادہ خوش رہتی تھی۔ تمہیں یاد ہو گا کہ جب بھی آتی تھی‘ میں اپنی دوسری مصروفیات منسوخ کر دیتا تھا۔ یہ بھی ہوا کہ میں اس کے استقبال کیلئے کبھی چکری اور کبھی موٹر وے پلازا پہنچ جاتا۔ اس کی ہر خواہش کو پورا کرنا مجھے ایسی مسرت دیتا جس کا کوئی نعم البدل نہ ہوتا۔ جب بھی میں اور بیگم اسے مل کر واپس آ رہے ہوتے تو راستے میں اس کا فون آتا کہ واپس آ جائیے۔ اس کے دو چھوٹے بھائی بھی مجھے عزیز تر از جان تھے۔ ایک بار ہم چند روز ان کے ہاں گزار کر واپس آئے تو میرا نواسا اپنی ماں سے کہنے لگا: اماں! مجھے گھر کے ہر کونے سے نانا ابوکی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ الطاف یہ سب باتیں بتا رہا تھا اور ہم تینوں سن رہے تھے۔ یہ اور بات کہ یہ سب باتیں ہمیں شروع ہی سے معلوم تھیں! وہ جب بھی ہم میں سے کسی کے گھر آتا تو نواسا یا نواسی ساتھ ہوتے۔ میں نے اسے کہا کہ ٹھیک ہے تمہیں ان سے بہت پیار ہے اور وہ بھی تم پر جان چھڑکتے ہیں مگر اس دنیا میں کوئی حالت مستقل نہیں! زمین پھر رہی ہے اور ہم سب کے حالات اس کی گردش کے ساتھ بدل رہے ہیں۔ ہم تم اپنی زندگیاں گزار چکے‘ اب یہ ان کی زندگیاں ہیں جیسے بھی بسر کر یں! الطاف گویا ہوا کہ ہاں! جو تم کہہ رہے ہو وہی حقیقت ہے۔ میں اپنے دل کو سمجھا چکا ہوں مگر تین چار دن پہلے ان بچوں سے بات ہوئی تو مجھے معلوم ہوا‘ اور محسوس بھی کہ مغرب میں منتقل ہونے کے بعد اب وہ اُس مشینی زندگی میں پھنس گئے ہیں جس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں! میری انیس سالہ نواسی نے بتایا کہ ابھی اس کی باقاعدہ پڑھائی تو نہیں شروع ہوئی‘ تاہم اسے ایک جاب مل گئی ہے۔ وہ ایک کمپنی کی مارکیٹنگ ٹیم میں شامل ہو گئی ہے۔ مختلف اداروں اور دفتروں میں جا کر مارکیٹنگ کرے گی اور اسی حساب سے اسے کمیشن ملے گا۔ نواسوں نے بتایا کہ وہ شام کو پِزا ڈلیوری کرتے ہیں اور کچھ سو ڈالر کما بھی چکے ہیں۔ جس دن یہ سب باتیں معلوم ہوئیں اس دن سے میں بے حد اداس ہوں۔ یہی وہ جال ہے جس میں یہ ممالک انسان کو پھنساتے ہیں اور پھر وہ ساری زندگی اس سے نہیں نکل سکتا۔ نہ صرف یہ کہ نکل نہیں سکتا‘ اسے معلوم بھی نہیں ہوتا کہ وہ ایک Vicious Circle کا اسیر ہو چکا ہے۔ ایرانی اس سرکل کو دائرہ ٔخبیثہ کہتے ہیں! اور درست کہتے ہیں۔ تمہیں معلوم ہے ہمارے والدین نے امیر نہ ہونے کے باوجود ہمیں کہا کہ جتنا پڑھ سکتے ہو پڑھو۔ پھر ہم نے اپنے بچوں کو اپنی تنخواہ میں پڑھایا۔ کوئی ڈاکٹر بنا‘ کوئی انجینئر‘ کوئی پروفیسر مگر دورانِ تعلیم انہیں پڑھائی کے علاوہ کسی فکر‘ کسی جدوجہد میں نہیں پڑنے دیا۔ ممکن ہے تم لوگ مجھے جذباتی اور غیر حقیقت پسند کہو اور نصیحت کرو کہ وہاں سب ایسا ہی کرتے ہیں مگر میں جب سوچتا ہوں کہ میرے پھول جیسے نواسے اور نواسی اپنے نانا اور نانی سے فرمائشیں کرنے کے بجائے نوکری کرنے لگ گئے ہیں تو دل میں حشر سا برپا ہو جاتا ہے۔ وہ شیر پر سوار ہو چکے ہیں۔ ان ملکوں میں جا کر رہنا شیر پر سواری کرنے والی بات ہے۔ شیر پر ایک بار جو سوار ہو جائے‘ اُتر نہیں سکتا۔ اب وہ دن کو کالجوں یونیورسٹیوں میں پڑھائی کریں گے اور شاموں کو نام نہاد جاب!! کسی کمپنی کی مارکیٹنگ! کسی فاسٹ فوڈ پر ملازمت! کہیں پزا ڈِلیوری! کہیں ''وال مارٹ‘‘ پر فی گھنٹہ اتنے ڈالر اور کہیں ''کروگر‘‘ پر اتنے گھنٹے ڈیوٹی!! اس جدوجہد میں ان کا لڑکپن گم ہو جائے گا۔ اب وہ مجھ سے راتوں کو کہانیاں نہیں سنیں گے! اب وہ راتوں کو سونے سے پہلے حساب کریں گے کہ اس ہفتے یا اس مہینے کتنے ڈالر کمائے ہیں! اب تعطیلات میں وہ نانا نانی کے پاس آکر مزے نہیں کریں گے بلکہ شاموں کے ساتھ ساتھ صبحیں بھی بے چہرہ کمپنیوں کی کَٹ تھروٹ‘ پُرشور اسیری میں گزاریں گے!! اب وقت ان کا اپنا ہے نہ زندگی اپنی! کچھ ہی عرصہ کے بعد وہ قسطوں کا حساب کیا کریں گے۔ وطن کی اور اپنے پیاروں کی یادیں ان کے ذہنوں کے صفحوں پر دھندلی ہو جائیں گی! دھندلی اور ناقابلِ شناخت!
الطاف کی آواز بھرا گئی! ہم چاروں کی آنکھیں چھلک اُٹھیں!!