کتے کتیا کی شادی تھی۔ بہت بڑی تقریب ہوئی۔ بہت سے راجے‘ مہاراجے‘ نواب مدعو کیے گئے۔ خصوصی ٹرین چلائی گئی۔ انگریز افسر بھی بلائے گئے۔ لاکھوں کروڑوں روپے خرچ ہوئے۔
یہ کوئی افسانہ نہیں۔ اصل میں ایسا ہی ہوا تھا۔ ہندوستان میں پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی کا اقتدار تھا‘ 1857ء کی ناکام جنگ آزادی کے بعد ملکہ برطانیہ کی حکمرانی براہِ راست در آئی۔ دونوں ادوار میں کچھ ریاستیں اور راجواڑے زندہ رکھے گئے۔ بڑی چھوٹی ریاستیں کل ملا کر پونے چھ سو کے لگ بھگ تھیں۔ حیدرآباد‘ پٹیالہ‘ کپور تھلہ‘ بہاولپور‘ خیرپور‘ گوالیار‘ میسور‘ ملیر کوٹلہ‘ سوات‘ الوَر‘ بیکانیر‘ جے پور اور کئی سو دوسری!! یہ ''آزادی‘‘ برائے نام تھی۔ ہر ریاست میں ایک انگریز افسر تعینات تھا۔ اسے ریزیڈنٹ کہتے تھے اور اس کی قیامگاہ کو ریزیڈنسی!! ریزیڈنسی عام طور پر ایک عالی شان عمارت ہوتی تھی اس لیے کہ یہ انگریزی اقتدار کی علامت تھی۔ اہم فیصلے یہیں ہوتے تھے۔ اصل اور حقیقی حکمران یہی ریزیڈنٹ تھے۔ جانشینی کا فیصلہ بھی ریزیڈنٹ ہی کرتا تھا۔ ریزیڈنٹ مقامی راجہ یا نواب کی کڑی نگرانی کرتا تھا کہ کوئی کام ایسا نہ ہو جو انگریز سرکار کے مفادات کے خلاف ہو۔ ایک لحاظ سے یوں سمجھیے کہ حکومت کے کام ریزیڈنٹ کرتا تھا اور راجہ یا نواب صرف عیاشی! بڑے بڑے محلات‘ متعدد بیگمات‘ ہاتھی گھوڑے اور دیگر عیش وعشرت کے اسباب کام میں لائے جاتے۔ کھانے پینے پر زور تھا۔ شیر مال‘ شامی کباب اور کئی دیگر کھانے لکھنؤ کے حکمرانوں کے لیے اسی عہد میں ایجاد ہوئے۔ باورچیوں کو دور دراز سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر لایا جاتا۔ ایک ریاست میں راجہ تھا کہ نواب‘ اس نے کتیا کتے کی شادی شان وشوکت سے کی۔ ڈیفنس کی پروا نہ تھی اس لیے کہ یہ کام انگریز نے سنبھال رکھا تھا۔
آج کے مشرقِ وسطیٰ کا یہی حال ہے۔ جس طرح ہندوستانی ریاستوں اور راجواڑوں کا مائی باپ انگریز تھا‘ بعینہٖ مشرق وسطیٰ کی ریاستوں کا مائی باپ امریکہ ہے۔ جس طرح ہندوستانی ریاستوں کا ڈیفنس انگریز کے ذمہ تھا‘ اسی طرح مشرق وسطیٰ کی ریاستوں کا ڈیفنس امریکہ کے ذمہ ہے۔ اب آپ پوچھیں گے کہ جب برطانوی ہند کی ریاستوں اور مشرق وسطیٰ کی ریاستوں کو ایک دوسرے کے مماثل قرار دیا ہے تو پھر ریزیڈنسیاں کہاں ہیں اور ریزیڈنٹ کون ہیں؟ یہ کوئی پیچیدہ معمہ نہیں۔ سب کچھ واضح ہے۔ یہ جو ہر ریاست میں امریکی بیس موجود ہے‘ یہی تو ریزیڈنسی ہے۔ بیس کا سالارِ اعلیٰ ریزیڈنٹ ہی تو ہے۔ امریکی سفیرکو بھی آپ ریزیڈنٹ کے مقام پر فائز کر سکتے ہیں۔ آپ اسے وائسرائے بھی کہہ سکتے ہیں۔ بیس کمانڈر اور سفیر اِن ریاستوں کی کڑی نگرانی کرتے ہیں اور اس امر کو یقینی بناتے ہیں کہ کسی پالیسی سے امریکی مفادات کو زد نہ پہنچے۔ جس طرح راجہ یا نواب کا سب سے بڑا کام انگریز ریزیڈنٹ کو خوش رکھنا ہوتا تھا اور وہ ریزیڈنٹ کو قیمتی تحفے دیتا تھا اسی طرح مشرق وسطیٰ کی ریاستیں بھی ہر حال میں امریکہ کو خوش رکھتی ہیں۔ اگر تمام امریکی سربراہوں کو ان ریاستوں کی طرف سے ملے ہوئے ہیروں‘ جواہرات اور زیورات کا وزن کیا جائے تو یقینا سیروں میں نہیں منوں تک جا پہنچے گا۔ اب تو جہاز بھی تحفے میں دیے جانے لگے ہیں۔ نو خیز لڑکیوں کے بال استقبال میں لہرائے گئے ہیں۔ کیا شان ہے ان ریاستوں میں امریکہ کی!! یوں لگتا ہے امریکی صدر مالک ومختار ہے۔ آقا ہے۔
ایک حکمران کے لیے مشکل ترین کام اپنے ملک کا دفاع ہوتا ہے۔ جب ان ریاستوں نے اپنا دفاع امریکہ کو سونپ دیا تو گویا ان کے حکمران مشکل ترین فرض سے بری الذمہ ہو گئے۔ فراغت پا کر یہ اپنے اپنے شوق کی تکمیل میں مصروف ہو گئے۔ بلند ترین عمارتوں کی تعمیر کا شوق! جزیرے خریدنے کا شوق! محلات کا شوق! سونے چاندی کا شوق! سونے سے بنی ہوئی گاڑیوں کا شوق! لگژری بجروں
(Yatchs)
کا شوق! ایسے طلسمی جہازوں کا شوق جن میں خوابگاہیں ہوں‘ ڈرائنگ روم ہوں اور اٹیچڈ باتھ روم ہوں! جہازوں پر سوار ہونے کے لیے سونے سے بنی ہوئی سیڑھیاں ہوں! سیر وتفریح کے لیے جائیں تو ہزار ہزار اعزہ واقربا اور خدام ساتھ ہوں۔ تفریح کے لیے میلوں لمبے ساحل ریزرو کرائیں۔
جدید دنیا کی اکثر وبیشتر ایجادات کا سہرا امریکہ کے سر ہے۔ امریکہ کی طاقت اس کی یونیورسٹیوں میں ہے۔ مغربی تہذیب کے سب سے بڑے مخالف علامہ اقبال تھے۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی۔ اور یہ بھی کہ
فسادِ قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب
کہ روح اس مدنیت کی رہ سکی نہ عفیف
مگر اس کے باوجود وہ مغرب کے علم و حکمت کے قائل تھے۔
قوتِ افرنگ از علم و فن است
از ہمین آتش چراغش روشن است
کہ مغرب کی طاقت اس کے علم و فن کی وجہ سے ہے۔ یہی وہ آگ ہے جس سے مغرب کا چراغ روشن ہے۔
یہ علم و فن ہی ہے اور دنیا کی ٹاپ کلاس یونیورسٹیاں ہی ہیں جن کی وجہ سے امریکہ کرۂ ارض پر حکومت کر رہا ہے۔ اسکے پاس مہلک ترین ہتھیار ہیں جو اس نے اپنی قوتِ بازو سے بنائے ہیں! ہمارے مشرق وسطیٰ کے بھائیوں کے پاس جتنا روکڑا ہے شاید ہی دنیا میں کسی کے پاس ہو۔ مگر اس امارت کے باوجود انکی توجہ علم و فن کی طرف نہیں گئی۔ دنیا کی بلند ترین عمارت بنانے والے‘ دنیا کی بہترین یونیورسٹی بھی آسانی سے بنا سکتے تھے۔ انڈسٹری لگانے میں بھی دوسرے ملکوں سے آگے بڑھ سکتے تھے۔ چلیے ایٹم بم بنانے میں امریکہ حائل ہے مگر ٹینک‘ ڈرون اور دیگر ہتھیار تو بنا سکتے تھے۔ ہوائی جہاز‘ گاڑیاں اور ٹرک بنانے کے کارخانے تو لگا سکتے تھے۔ ریسرچ کے مراکز تو قائم کر سکتے تھے۔ آئی ٹی کے میدان میں چاہتے تو انڈیا سے مقابلہ کر سکتے ۔ مگر انہوں نے یہی مناسب سمجھا کہ دفاع دوسروں کے سپرد کر دیں۔ اور خود ایک ایسی زندگی گزاریں جس میں آرام ہی آرام ہو اور عشرت اور لگژری ہو۔
ایران نے امریکی پابندیوں کے باوجود جس طرح اپنی دفاعی ضروریات پر توجہ دی وہ قابلِ تحسین ہے۔ جس طرح ایران نے اسرائیل کا مقابلہ کیا اسکی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ پاکستانی حکومت اور عوام نے ایران کی بھرپور حمایت کی۔ ہمارے چوٹی کے علما نے ایران کی حمایت کی۔ مفتی تقی عثمانی‘ مفتی منیب الرحمن اور مولانا فضل الرحمن نے کھل کر ساتھ دیا۔ مولانا فضل الرحمن سے ایک پریس کانفرنس کے دوران کسی نے پوچھا کہ انہوں نے ایران کی حمایت کیوں کی تو انہوں نے جواب دیا کہ ایران کی نہیں تو کیا اسرائیل کی حمایت کرتے؟ ہمارے مسلکی اختلافات ہمارا اندرونی معاملہ ہے۔ دشمن کے مقابلے کا وقت آئے تو یہ اختلافات ثانوی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں۔ اولین معاملہ برادر مسلم ملک کی حمایت اور مدد کا ہوتا ہے۔ امید ہے بھارت کے حوالے سے ایران اپنی پالیسی میں بنیادی تبدیلیاں کرے گا۔ بھارت ایران کے سامنے پوری طرح سے بے نقاب ہو چکا ہے۔ ایران کو اب ان مسلم ملکوں کے حوالے سے بھی اپنی پالیسیاں بدل لینی چاہئیں جو اس کے مغرب میں واقع ہیں۔ خاص طور پر انقلاب کو ایکسپورٹ کرنے کی حکمت عملی کو ترک کر دینا چاہیے۔ اس ایکسپورٹ پالیسی سے خوفزدہ ہو کر‘ اس کے رد عمل ہی میں ان ممالک کاجھکاؤ اسرائیل کی طرف ہوا۔ بہترین پالیسی بقائے باہمی کی پالیسی ہے۔ بھارت اور اسرائیل کا مشترکہ جاسوسی کا نیٹ ورک جو ایران میں قائم تھا‘ مشرق وسطیٰ کے عرب ملکوں میں سرایت کر چکا ہے۔ امید ہے یہ ممالک بھی بھارت کی اصلیت کو جلد ہی جان جائیں گے۔ مہاجن کسی کا دوست ہوا ہے نہ ہو سکتا ہے۔
No comments:
Post a Comment