وہم اور وسوسے برائے فروخت
خاتون نے شادی کی!
کچھ عرصہ بعد میاں بیمار پڑ گئے۔ ہسپتال والوں نے خاتون سے میاں کی میڈیکل ہسٹری پوچھی۔ خاتون کو کچھ علم نہ تھا۔ خاتون کے اپنے الفاظ میں: ''وہ ہسپتال والے مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ ان کے دل میں پیس میکر پڑا ہوا ہے یا سٹنٹ؟ مجھے پتا ہی کچھ نہیں کہ ان کے دل میں پہلے کیا پڑا ہوا ہے یا کتنی سرجریز ہو چکی ہیں؟ کیو نکہ یہ ان کے دل کا تیسرا شدید دورہ تھا جو جان لیوا ثابت ہوا۔ تو مجھے پتا ہی نہیں تھا کہ پہلے دو شدید دورے پڑ چکے ہیں‘‘۔ لطیفہ کہیے یا مذاق کہ یہ خاتون‘ جنہیں اپنے رفیقِ زندگی کے دل کے متعلق‘ جن کے ساتھ زندگی گزار رہی تھیں‘ کچھ معلوم نہ تھا‘ ساری دنیا کو مستقبل کے حالات بتاتی پھرتی ہیں!
اپنے مستقبل کے بارے میں تجسس خلقِ خدا کی بہت بڑی کمزوری ہے! اس کمزوری سے صرف وہی لوگ بچے ہوئے ہیں جنہیں خدا پر پختہ ایمان ہے یا اپنے آپ پر یقین ہے! اس کمزوری سے نجومی‘ پامسٹ اور علم الاعداد کا دعویٰ کرنے والے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ضعیف الاعتقاد لوگ ان کے پاس جاتے ہیں۔ کوئی پوچھتا ہے کارو بار میں کامیابی کب ملے گی! کوئی پوچھتا ہے شادی کب ہو گی؟ ان ضعیف الاعتقاد لوگوں میں سیاستدان سر فہرست ہیں۔ بالخصوص جاہ طلب سیاستدان! اس ضعیف الاعتقادی کے سبب ہمارے حکمران پیٹھ پر چھڑیاں مرواتے رہے ہیں۔ کبھی سمندر سے دور رہتے ہیں۔ کبھی پہاڑوں سے دور! کبھی اپنے بچوں سے دور! کبھی کسی چوکھٹ پر سر جھکاتے پائے جاتے ہیں اور کبھی ان کے گھروں میں گوشت جلایا جاتا ہے۔ یہ سب لوگ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اور ہیں مگر توہم پرستی کے آگے ان کی تعلیم بے بس ہو گئی۔ (ویسے قائداعظم نے کبھی کسی جوتشی یا نجومی سے نہیں پوچھا کہ کیا پاکستان بنے گا؟ انہیں خدا پر اور اپنی قوتِ ارادی پر پختہ یقین تھا)۔ کچھ لوگ ہارو سکوپ پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔ حالانکہ تحقیق ثابت کر چکی ہے کہ ایک ہی دن پیدا ہونے والے افراد کی عادات‘ مزاج‘ صفات‘ خصوصیات‘ انداز ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتے ہیں! یکسر مختلف! اس میں شک نہیں کہ پامسٹری‘ نجوم‘ علم الاعداد وغیرہ کے علوم وجود رکھتے ہیں مگر یہ علوم ظنّی ہیں‘ سائنسی نہیں! ان کی بنیاد پر آپ منصوبہ بندی کر سکتے ہیں نہ فیصلے! ہاں یہ نام نہاد علوم آپ کو اوہام پرست ضرور بنا سکتے ہیں اور اندر سے کمزور کر سکتے ہیں! ایک مثال سے آپ اس نکتے کو آسانی سے سمجھ سکتے ہیں! فرض کیجیے ایک شخص کو نجومی یا پامسٹ بتاتا ہے کہ اس کی موت ہسپتال میں واقع ہو گی۔ یہ بھی فرض کرتے ہیں کہ اس کی یہ پیشگوئی درست ہے۔ اب اگر مرنا اس نے کسی ہسپتال میں پچاس سال بعد ہے تو اس کے یہ سارے پچاس سال ہسپتالوں سے ڈرنے میں گزریں گے۔ وہ جب بھی کسی ہسپتال میں جائے گا اسے سامنے موت کھڑی نظر آئے گی۔ یہ ساری مدت وہ ہسپتالوں سے بچتا رہے گا اور خوف زدہ رہے گا۔ یہ جو ہمیں نہیں معلوم کہ موت کب آنی ہے اور کل کیا ہو گا‘ تو یہ ہم پر قدرت کا خاص احسان ہے۔ کسی کو بتائیے کہ تم دو سو سال زندہ رہو گے تو وہ یہ سوچ کر کہ اتنے دن باقی رہ گئے‘ ہر روز مرے گا! موت کا علم ہوتا تو دنیا کا نظام ہی نہ چلتا۔ غالباً امام حسن رضی اللہ عنہ سے یہ قول منسوب ہے کہ دنیا کے کام اس طرح کرو جیسے یہاں ہمیشہ رہنا ہے اور آخرت کی تیاری یوں کرو جیسے کل کوچ کر جانا ہے۔
ایک لمحے کے لیے فرض کرتے ہیں کہ نجومی یا پامسٹ جو کہے گا درست ہو گا۔ اس کے باوجود میں اس کے پاس کیوں جاؤں؟ وہ دو ہی کام کر سکتا ہے۔ میرے ماضی کو میرے سامنے رکھ دے گا یا بتائے گا کہ مستقبل میں میرے لیے کیا ہے؟ جہاں تک ماضی کا تعلق ہے‘ اپنا ماضی مجھے معلوم ہے۔ رہا میرا مستقبل تو اس کے بارے میں مَیں کچھ جاننا ہی نہیں چاہتا۔ قضا و قدر نے میرے بارے میں جو طے کر رکھا ہے‘ خود ہی سامنے آجائے گا۔ ہاں! میں یہ دعا کرتا رہوں گا کہ پروردگار ناگہانی آفات سے‘ صدموں سے اور ناخوشگوار حالات سے بچائے اس لیے کہ دعا سے تقدیر بدل جاتی ہے۔
میں خاک کے فرش پر ہوں دستِ دعا اٹھائے
وہ فیصلے جو ہیں آسمانی‘ بدل رہا ہوں
توحید محض یہ نہیں ہے کہ بتوں کے آگے یا قبروں کے آگے سر نہ جھکایا جائے۔ اوہام پرستی سے بچنا بھی توحیدکا تقاضا ہے اور پامسٹ اور نجومی کوئی بات یقینی نہیں کر سکتے‘ محض اوہام پھیلاتے ہیں اور جھوٹی امیدوں کے دام بچھاتے ہیں! یہ انسان کو اندر سے متزلزل اور غیرمستحکم کر دیتے ہیں! یہ اس کی فیصلہ سازی کی قوت پر منفی اثر ڈالتے ہیں۔ انسان ایک خزاں زدہ پتے کی طرح ادھر اُدھر اڑتا رہتا ہے۔ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو دست شناسوں اور نجومیوں سے مستقبل کا پوچھنا اور ان پر یقین رکھنا شرک ہی کی ایک قسم ہے اور شرک کرنے والے کی زندگی عبرتناک ہوتی ہے اور انجام بھی! ''گویا وہ آسمان سے گر گیا۔ اب یا تو اسے پرندے اُچک لے جائیں گے یا ہوا اس کو ایسی جگہ لے جا کر پھینک دے گی جہاں اس کے چیتھڑے اُڑ جائیں گے‘‘۔ (22: 31)۔
ان مستقبل شناسوں کے اپنے حالات دگر گوں رہتے ہیں۔ پچیس تیس برس پہلے کا واقعہ یاد آرہا ہے۔ ایک بین الاقوامی سیمینار میں شرکت کرنے کے لیے میں بھوربن (مری) کے معروف ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا۔ ایک دن جب فراغت تھی‘ میں اس بہت بڑے ہوٹل میں گھومنے لگ گیا۔ دیکھا کہ ایک بہت بڑے ہال کے باہر اشتہار آویزاں ہے کہ اندر آئیے اور فلاں مشہور نجومی (یاد نہیں نجومی تھا یا پامسٹ‘ یا دونوں) سے قسمت کا حال معلوم کیجیے۔ میں ہال کے اندر چلا گیا۔ ہال کے ایک کونے میں نجومی نے اپنا سٹال لگایا ہوا تھا۔ میں کھدرکا ملول سا شلوار قمیض پہنے تھا۔ پیروں میں ہوائی چپل تھی۔ نجومی کے سامنے اپنی ہتھیلی پھیلائی اور کہا کہ میں مولوی قسم کا بندہ ہوں۔ انگریزی زبان سیکھنے کا شوق ہے اور انگریزی ہے کہ ہاتھ نہیں آرہی۔ بتائیے کیا میں انگریزی سیکھ سکوں گا۔ اس نے میرا ہاتھ دیکھا۔ پھر مایوس لہجے میں کہا کہ میں انگریزی کبھی نہیں سیکھ سکوں گا ہاں اگر وہ پڑھائے تو سیکھ جاؤں گا۔ میری اہلیہ ساتھ تھیں۔ وہ کچھ کہنے لگی تھیں کہ میں نے انہیں اشارے سے منع کر دیا۔ پھر اس سے گپ شپ شروع ہو گئی۔ جب اس نے بتایا کہ وہ‘ بقول اس کے‘ مشہور احراری مولوی‘ مظہر علی اظہر کا پوتا ہے تو میں حیران ہوا۔ یہ وہی مولوی ہے جس نے قائداعظم کے متعلق ایک غلط اور انتہائی لغو شعر کہا تھا۔ جائے عبرت یہ تھی کہ جس مسلک سے اس مولوی کا تعلق تھا‘ اس مسلک میں پامسٹوں اور نجومیوں کے پاس جانے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے! نجومی نے بتایا کہ وہ ہوٹل کو ایک ہزار روپے روز کا کرایہ ادا کرتا ہے۔ اس زمانے کے لحاظ سے یہ ایک خطیر رقم تھی۔ اس سے پوچھا کہ کیا وہ اتنا کما لیتا ہے؟ اس نے بتایا کہ گرمیوں میں کراچی‘ فیصل آباد وغیرہ سے بڑے بڑے تاجر اور بزنس مین اس ہوٹل میں آکر ٹھہرتے ہیں۔ انہیں قسمت کا حال جاننے کا بہت شوق ہوتا ہے۔ یوں اس کی کمائی بھی اچھی خاصی ہو جاتی ہے اور ہوٹل کا کرایہ بھی نکل آتا ہے۔
کیا ستارے ہماری قسمت کا حال بتا سکتے ہیں؟ اس ضمن میں اقبال کا شعر حرفِ آخر ہے:
ستارہ کیا تری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخیِ افلاک میں ہے خوار و زبوں!
اور ایک شعر اس فقیر کا بھی سن لیجیے:
ستارے دیکھتا ہوں‘ زائچے بناتا ہوں
میں وہم بیچتا ہوں‘ وسوسے بناتا ہوں
کچھ عرصہ بعد میاں بیمار پڑ گئے۔ ہسپتال والوں نے خاتون سے میاں کی میڈیکل ہسٹری پوچھی۔ خاتون کو کچھ علم نہ تھا۔ خاتون کے اپنے الفاظ میں: ''وہ ہسپتال والے مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ ان کے دل میں پیس میکر پڑا ہوا ہے یا سٹنٹ؟ مجھے پتا ہی کچھ نہیں کہ ان کے دل میں پہلے کیا پڑا ہوا ہے یا کتنی سرجریز ہو چکی ہیں؟ کیو نکہ یہ ان کے دل کا تیسرا شدید دورہ تھا جو جان لیوا ثابت ہوا۔ تو مجھے پتا ہی نہیں تھا کہ پہلے دو شدید دورے پڑ چکے ہیں‘‘۔ لطیفہ کہیے یا مذاق کہ یہ خاتون‘ جنہیں اپنے رفیقِ زندگی کے دل کے متعلق‘ جن کے ساتھ زندگی گزار رہی تھیں‘ کچھ معلوم نہ تھا‘ ساری دنیا کو مستقبل کے حالات بتاتی پھرتی ہیں!
اپنے مستقبل کے بارے میں تجسس خلقِ خدا کی بہت بڑی کمزوری ہے! اس کمزوری سے صرف وہی لوگ بچے ہوئے ہیں جنہیں خدا پر پختہ ایمان ہے یا اپنے آپ پر یقین ہے! اس کمزوری سے نجومی‘ پامسٹ اور علم الاعداد کا دعویٰ کرنے والے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ضعیف الاعتقاد لوگ ان کے پاس جاتے ہیں۔ کوئی پوچھتا ہے کارو بار میں کامیابی کب ملے گی! کوئی پوچھتا ہے شادی کب ہو گی؟ ان ضعیف الاعتقاد لوگوں میں سیاستدان سر فہرست ہیں۔ بالخصوص جاہ طلب سیاستدان! اس ضعیف الاعتقادی کے سبب ہمارے حکمران پیٹھ پر چھڑیاں مرواتے رہے ہیں۔ کبھی سمندر سے دور رہتے ہیں۔ کبھی پہاڑوں سے دور! کبھی اپنے بچوں سے دور! کبھی کسی چوکھٹ پر سر جھکاتے پائے جاتے ہیں اور کبھی ان کے گھروں میں گوشت جلایا جاتا ہے۔ یہ سب لوگ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اور ہیں مگر توہم پرستی کے آگے ان کی تعلیم بے بس ہو گئی۔ (ویسے قائداعظم نے کبھی کسی جوتشی یا نجومی سے نہیں پوچھا کہ کیا پاکستان بنے گا؟ انہیں خدا پر اور اپنی قوتِ ارادی پر پختہ یقین تھا)۔ کچھ لوگ ہارو سکوپ پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔ حالانکہ تحقیق ثابت کر چکی ہے کہ ایک ہی دن پیدا ہونے والے افراد کی عادات‘ مزاج‘ صفات‘ خصوصیات‘ انداز ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتے ہیں! یکسر مختلف! اس میں شک نہیں کہ پامسٹری‘ نجوم‘ علم الاعداد وغیرہ کے علوم وجود رکھتے ہیں مگر یہ علوم ظنّی ہیں‘ سائنسی نہیں! ان کی بنیاد پر آپ منصوبہ بندی کر سکتے ہیں نہ فیصلے! ہاں یہ نام نہاد علوم آپ کو اوہام پرست ضرور بنا سکتے ہیں اور اندر سے کمزور کر سکتے ہیں! ایک مثال سے آپ اس نکتے کو آسانی سے سمجھ سکتے ہیں! فرض کیجیے ایک شخص کو نجومی یا پامسٹ بتاتا ہے کہ اس کی موت ہسپتال میں واقع ہو گی۔ یہ بھی فرض کرتے ہیں کہ اس کی یہ پیشگوئی درست ہے۔ اب اگر مرنا اس نے کسی ہسپتال میں پچاس سال بعد ہے تو اس کے یہ سارے پچاس سال ہسپتالوں سے ڈرنے میں گزریں گے۔ وہ جب بھی کسی ہسپتال میں جائے گا اسے سامنے موت کھڑی نظر آئے گی۔ یہ ساری مدت وہ ہسپتالوں سے بچتا رہے گا اور خوف زدہ رہے گا۔ یہ جو ہمیں نہیں معلوم کہ موت کب آنی ہے اور کل کیا ہو گا‘ تو یہ ہم پر قدرت کا خاص احسان ہے۔ کسی کو بتائیے کہ تم دو سو سال زندہ رہو گے تو وہ یہ سوچ کر کہ اتنے دن باقی رہ گئے‘ ہر روز مرے گا! موت کا علم ہوتا تو دنیا کا نظام ہی نہ چلتا۔ غالباً امام حسن رضی اللہ عنہ سے یہ قول منسوب ہے کہ دنیا کے کام اس طرح کرو جیسے یہاں ہمیشہ رہنا ہے اور آخرت کی تیاری یوں کرو جیسے کل کوچ کر جانا ہے۔
ایک لمحے کے لیے فرض کرتے ہیں کہ نجومی یا پامسٹ جو کہے گا درست ہو گا۔ اس کے باوجود میں اس کے پاس کیوں جاؤں؟ وہ دو ہی کام کر سکتا ہے۔ میرے ماضی کو میرے سامنے رکھ دے گا یا بتائے گا کہ مستقبل میں میرے لیے کیا ہے؟ جہاں تک ماضی کا تعلق ہے‘ اپنا ماضی مجھے معلوم ہے۔ رہا میرا مستقبل تو اس کے بارے میں مَیں کچھ جاننا ہی نہیں چاہتا۔ قضا و قدر نے میرے بارے میں جو طے کر رکھا ہے‘ خود ہی سامنے آجائے گا۔ ہاں! میں یہ دعا کرتا رہوں گا کہ پروردگار ناگہانی آفات سے‘ صدموں سے اور ناخوشگوار حالات سے بچائے اس لیے کہ دعا سے تقدیر بدل جاتی ہے۔
میں خاک کے فرش پر ہوں دستِ دعا اٹھائے
وہ فیصلے جو ہیں آسمانی‘ بدل رہا ہوں
توحید محض یہ نہیں ہے کہ بتوں کے آگے یا قبروں کے آگے سر نہ جھکایا جائے۔ اوہام پرستی سے بچنا بھی توحیدکا تقاضا ہے اور پامسٹ اور نجومی کوئی بات یقینی نہیں کر سکتے‘ محض اوہام پھیلاتے ہیں اور جھوٹی امیدوں کے دام بچھاتے ہیں! یہ انسان کو اندر سے متزلزل اور غیرمستحکم کر دیتے ہیں! یہ اس کی فیصلہ سازی کی قوت پر منفی اثر ڈالتے ہیں۔ انسان ایک خزاں زدہ پتے کی طرح ادھر اُدھر اڑتا رہتا ہے۔ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو دست شناسوں اور نجومیوں سے مستقبل کا پوچھنا اور ان پر یقین رکھنا شرک ہی کی ایک قسم ہے اور شرک کرنے والے کی زندگی عبرتناک ہوتی ہے اور انجام بھی! ''گویا وہ آسمان سے گر گیا۔ اب یا تو اسے پرندے اُچک لے جائیں گے یا ہوا اس کو ایسی جگہ لے جا کر پھینک دے گی جہاں اس کے چیتھڑے اُڑ جائیں گے‘‘۔ (22: 31)۔
ان مستقبل شناسوں کے اپنے حالات دگر گوں رہتے ہیں۔ پچیس تیس برس پہلے کا واقعہ یاد آرہا ہے۔ ایک بین الاقوامی سیمینار میں شرکت کرنے کے لیے میں بھوربن (مری) کے معروف ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا۔ ایک دن جب فراغت تھی‘ میں اس بہت بڑے ہوٹل میں گھومنے لگ گیا۔ دیکھا کہ ایک بہت بڑے ہال کے باہر اشتہار آویزاں ہے کہ اندر آئیے اور فلاں مشہور نجومی (یاد نہیں نجومی تھا یا پامسٹ‘ یا دونوں) سے قسمت کا حال معلوم کیجیے۔ میں ہال کے اندر چلا گیا۔ ہال کے ایک کونے میں نجومی نے اپنا سٹال لگایا ہوا تھا۔ میں کھدرکا ملول سا شلوار قمیض پہنے تھا۔ پیروں میں ہوائی چپل تھی۔ نجومی کے سامنے اپنی ہتھیلی پھیلائی اور کہا کہ میں مولوی قسم کا بندہ ہوں۔ انگریزی زبان سیکھنے کا شوق ہے اور انگریزی ہے کہ ہاتھ نہیں آرہی۔ بتائیے کیا میں انگریزی سیکھ سکوں گا۔ اس نے میرا ہاتھ دیکھا۔ پھر مایوس لہجے میں کہا کہ میں انگریزی کبھی نہیں سیکھ سکوں گا ہاں اگر وہ پڑھائے تو سیکھ جاؤں گا۔ میری اہلیہ ساتھ تھیں۔ وہ کچھ کہنے لگی تھیں کہ میں نے انہیں اشارے سے منع کر دیا۔ پھر اس سے گپ شپ شروع ہو گئی۔ جب اس نے بتایا کہ وہ‘ بقول اس کے‘ مشہور احراری مولوی‘ مظہر علی اظہر کا پوتا ہے تو میں حیران ہوا۔ یہ وہی مولوی ہے جس نے قائداعظم کے متعلق ایک غلط اور انتہائی لغو شعر کہا تھا۔ جائے عبرت یہ تھی کہ جس مسلک سے اس مولوی کا تعلق تھا‘ اس مسلک میں پامسٹوں اور نجومیوں کے پاس جانے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے! نجومی نے بتایا کہ وہ ہوٹل کو ایک ہزار روپے روز کا کرایہ ادا کرتا ہے۔ اس زمانے کے لحاظ سے یہ ایک خطیر رقم تھی۔ اس سے پوچھا کہ کیا وہ اتنا کما لیتا ہے؟ اس نے بتایا کہ گرمیوں میں کراچی‘ فیصل آباد وغیرہ سے بڑے بڑے تاجر اور بزنس مین اس ہوٹل میں آکر ٹھہرتے ہیں۔ انہیں قسمت کا حال جاننے کا بہت شوق ہوتا ہے۔ یوں اس کی کمائی بھی اچھی خاصی ہو جاتی ہے اور ہوٹل کا کرایہ بھی نکل آتا ہے۔
کیا ستارے ہماری قسمت کا حال بتا سکتے ہیں؟ اس ضمن میں اقبال کا شعر حرفِ آخر ہے:
ستارہ کیا تری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخیِ افلاک میں ہے خوار و زبوں!
اور ایک شعر اس فقیر کا بھی سن لیجیے:
ستارے دیکھتا ہوں‘ زائچے بناتا ہوں
میں وہم بیچتا ہوں‘ وسوسے بناتا ہوں