Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Wednesday, June 29, 2016

ریاست؟ کون سی ریاست؟

تو کیا ہمارے حکمرانوں کا رتبہ (میرے منہ میں خاک) امیر المومنینؓ سے بھی بڑا ہے؟ فرات کے کنارے کتا مر جائے تو ذمہ دار امیر المومنینؓ ہوں گے۔ اور دن دہاڑے پروفیسر ڈاکٹر طیب منیر ایک ڈرائیور نما جانور کے ہاتھوں ٹرالی کے نیچے آ کر کچلا جائے تو ذمہ دار کوئی نہ ہو، نہیں، ایسا نہیں ہو گا! ایسا نہیں ہو سکتا! پوچھا جائے گا پروفیسر کہاں کچلا گیا؟ جواب دیا جائے گا راولپنڈی کی ایک شاہراہ پر۔ پھر ذمہ دار کا تعین کیا جائے گا۔ صوبے کے حکمران کو جواب دینا ہو گا۔ کیا اُس نے کبھی معلوم کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہر ہفتے، ہر ماہ، ہر سال ٹرالیوں کی وجہ سے کتنے بچے یتیم ہو رہے ہیں؟ کتنی عورتیں بیوہ ہو رہی ہیں؟ کتنی مائیں جھولیاں اٹھا اٹھا کر بد دعائیں دے رہی ہیں! شاہراہوں پر، سڑکوں پر، کچے راستوں پر، ٹرالیاں قتل عام کر رہی ہیں۔ صوبے کے حکمران نے اس ضمن میں کیا کیا ہے؟ کتنے قوانین اِن وحشی قاتلوں کو روکنے کے لیے بنائے؟ کتنوں کو سزا ملی؟ مستقبل کے لیے کیا روک تھام کی گئی؟ کابینہ کے وزرا آج غائب ہیں اور نوٹس، سوئی سے لے کر ہاتھی تک۔۔۔۔ ہر شے کا آں جناب خود لینے کے شائق ہیں، تو یہ وزرا کل تو ہر حال میں غائب ہوں گے! ایک طیب منیر نہیں، مقتولوں کی قطار۔۔۔۔ طویل قطار۔۔۔۔ ایک طرف ہو گی، اُس دن کوئی انگلی لہرا سکے گا نہ ایک وعدہ اور داغ سکے گا      ؎
لباس بے آبرو، جواہر سیاہ سارے
وہ دن کہ جب جمع ہوں گے عالم پناہ سارے
وعدے۔۔۔ وعدے۔۔۔ وعدے! وعدوں کا کوئی انت نہیں! مستقبل کے صیغوں کی بھرمار! گا۔۔۔ گے۔۔۔ گی کا جتنا استعمال اِس دور میں ہوا ہے اتنا پچاس سال گریمر پڑھانے اور پڑھنے والوں نے نہیں کیا ہو گا! ’’دُکھی انسانیت‘‘ تکیہ کلام بن چکا ہے۔ تازہ وعدہ ملاحظہ ہو: ’’میں نے دُکھی انسانیت کو بہترین طبی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے ہسپتالوں کو درست کرنے کا بیڑہ اٹھا لیا ہے! جس کے نتائج عوام ایک سال میں دیکھیں گے۔ عام آدمی کو اچھی طبی سہولتوں کی فراہمی کے لیے ہسپتالوں کو ٹھیک کر کے دم لوں گا‘‘۔
عشروں سے آپ سیاہ و سفید کے مالک ہیں! یہ کام ضروری تھا تو آپ نے اب تک کیوں نہیں کیا؟ اور اگر تیس سال میں نہیں ہوا تو مزید ایک سال میں کیسے ہو گا؟ کیا آپ کو واقعی نہیں احساس کہ ایسے دعوے، ایسے وعدے سن کر لوگ بے اختیار ہنس دیتے ہیں؟ استاد نے کلاس کے بچے سے پوچھا، تین جمع دو کتنے ہوتے ہیں؟ بچے نے معصومیت سے الٹا سوال کر ڈالا۔ سر! کیا آپ کو واقعی نہیں معلوم؟ تو کیا آپ نے واقعی کبھی نہیں سوچا کہ خلقِ خدا کیا کہے گی؟
ہسپتالوں کی حالت کیسے ٹھیک ہو گی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آپ خود طبی معائنے کے لیے کتنی بار ولایت گئے ہیں؟ لاہور یا صوبے کے کس ہسپتال میں کب آپ نے اپنا طبی معائنہ کرایا؟ آپ کے تو نوکر بھی ان ہسپتالوں کو اپنے لیے مناسب نہیں سمجھتے؟ ملک کے سربراہ ملک کے ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کی توہین کر کے لندن مقیم ہیں! مُلک صابری جیسے مقبولِ عام فنکار کا سوگ منا رہا ہے۔ جنازہ گاہ میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ عدالتِ عالیہ کے قاضی کا بیٹا گُڈ گورننس کی نذر ہو چکا ہے اور خبریں سوگوار، خوف زدہ قوم کے سینے پر مونگ یہ دل رہی ہیں کہ وزیراعظم گھر والوں کے ساتھ گراں ترین سٹور میں شاپنگ کر رہے ہیں۔ کھڑی شریف کے فقیر نے کہا تھا: ’’دشمن مرے تے خوشی نہ کریے، سجناں وی مر جاناں‘‘ اور یہاں تو مرنے والے اور مرنے والوں کا سوگ منانے والے آپ کے دشمن بھی نہیں، آپ کی رعایا ہیں!
حکمران آکسفورڈ سٹریٹ، ہائیڈ پارک، ہیرڈ اور مارک اینڈ سپنسر پر فریفتہ ہیں۔ قوم نے جو کچھ اس کے پاس تھا، نذر کر دیا، مگر اب آکسفورڈ سٹریٹ کہاں سے لائے؟ قوم کی خوش قسمتی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ وزیراعظم مع خاندان لندن میں مقیم ہیں اور اپوزیشن کے رہنما دبئی میں!         ؎
میں اِتھے تے ڈھولا تھل وے
مینڈی اللہ خدائی آلی گل وے
ڈاکٹر طیب منیر! آہ طیب منیر! بریک کے بغیر ٹرالی چلانے والے وحشی کو کیا معلوم کہ اُس نے کس کو کچل دیا۔ ایک محقق، ایک استاد جس کے شاگرد رو رہے ہیں اور دوست دل گرفتہ ہیں! رومی نے کہا تھا: کسی نے بتایا ہے کہ سنائی چل بسا۔ یہ کوئی معمولی خبر نہیں! سنائی کوئی تنکا نہیں تھا کہ اسے ہوا اڑا لے گئی۔ وہ پانی نہیں تھا کہ جاڑا اُسے منجمد کر جاتا! 
شانہ نبود او کہ بہ موئی شکست
دانہ نبود او کہ زمینش فشرد
وہ کنگھی نہیں تھا کہ بالوں میں پھیرتے ہوئے ٹوٹ گئی۔ وہ دانہ بھی نہ تھا جسے زمین کھا جائے۔ وہ تو اِس خاکہ ان میں ایک خزانہ تھا زر کا خزانہ!
پروفیسر ڈاکٹر طیب منیر سے پہلی ملاقات سالہا سال پہلے گورنمنٹ ڈگری کالج سیٹیلائٹ ٹاؤن میں ہوئی جہاں میں ڈاکٹر رؤف امیر سے ملنے گیا۔ رؤف امیر دوست بھی تھا، برخوردار بھی اور فین بھی۔ پورا کلام اِس لکھنے والے کا اسے ازبر تھا! قازقستان کی الماتی یونیورسٹی میں اردو مسند پر تعینات تھا کہ چاہنے والوں کو داغ مفارقت دے گیا۔ کالج میں طیب منیر بھی تھے۔ خندہ کرتا چہرہ! ستارے جیسی چمکتی پیشانی! شائستگی کا متین نمونہ! پھر اکثر ملاقاتیں رہیں! آخری ملاقات مختصر تھی مگر دِل میں پیوست ہے! اوپن یونیورسٹی کے سربراہ محبِ گرامی ڈاکٹر شاہد صدیقی نے اِس لکھنے والے کی شاعری کے حوالے سے ایک خوبصورت تقریب کا اہتمام کر ڈالا۔ ڈاکٹر طیب منیر خصوصی طور پر بین الاقوامی یونیورسٹی سے تشریف لائے جہاں وہ اُردو زبان و ادب کے صدر شعبہ تھے! وہی مسکراتا چہرہ، چاندی جیسے خوبصورت بال! عربی میں کہتے ہیں موتُ العالم، موتُ العالَم! ایک علم والا کیا اُٹھ جاتا ہے، دنیا ہی ساتھ لے جاتا ہے!
یہ بے مہار وحشی ٹرالیاں انسانوں کو چیر پھاڑ کر نگل رہی ہیں اور نگلے جا رہی ہیں! ان کی بریکیں غائب ہیں۔ راتوں کو یہ بے چراغ دندناتی پھرتی ہیں! کوئی سگنل، کوئی اشارہ، کوئی قانون ان پر نافذ نہیں اس لیے کہ ریاست خود غائب ہے۔ جو قانون موٹر سائیکل سواروں کو شکنجے میں نہ لا سکے، وہ ٹرالیوں کو کیسے قتلِ عام سے روک سکتا ہے؟ اِس قوم کو یاد بھی نہ ہو گا کہ خلیل حامدی جیسے عالم، مصنف، ماہرِ لسانیات کی موت ٹرالی ہی کی ٹکر سے ہوئی تھی۔ کل اوکاڑہ کے ڈسٹرکٹ ہسپتال کے سرجن ڈاکٹر عبداللہ اپنے بیٹے، ڈرائیور اور ساتھیوں سمیت جاں بحق ہو گئے۔ ڈاکٹر صاحب حافظ قرآن تھے، بیٹا بھی حافظ تھا! سندھ میں مٹیاری کے مقام پر ڈمپر نے پانچ افراد کو کچل ڈالا۔ ڈمپر ٹرالی کا بھی باپ ہے! نا جائز باپ!! یہاں ایک لطیفہ بھی سن لیجیے، وزیراعلیٰ پنجاب نے مٹیاری کے قریب چھ افراد کے جاں بحق ہونے پر دُکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے! یہ افسوس بھی بجا ہے! مگر وزیراعلیٰ کے اپنے صوبے میں راولپنڈی کے ڈاکٹر طیب منیر سے لے کر اوکاڑہ کے ڈاکٹر عبداللہ تک ہر روز بیسیوں افراد ٹرالیوں اور ڈمپروں کی نذر ہو رہے ہیں! وہ بھی افسوس کے حقدار ہیں!      ؎
گُل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ براندازِ چمن! کچھ تو اِدھر بھی!
کیا یہ نا ممکن ہے کہ جس علاقے میں ٹرالی قتل کا ارتکاب کرے، اُس علاقے کے ٹریفک کے انچارج کو پکڑ کر قاتل کے ساتھ ہی زندان میں بند کر دیا جائے؟ کیا یہ نا ممکن ہے کہ ٹریفک پولیس بغیر بریک، بغیر چراغ ٹرالیوں کو سڑکوں سے اتار لے؟ کیا وحشی ڈرائیوروں کو سدھارنا ناممکنات میں سے ہے؟ کیا حکومت کو معلوم ہے کہ ویگنوں کے لالچی یہودی صفت مالکوں نے ڈرائیوروں کو وقت کے پنجرے میں ڈال رکھا ہے؟ یعنی ڈرائیور کو یہ بتایا جاتا ہے کہ (مثال کے طور پر) اچھرہ سے لے کر چوبری تک تم نے دن میں اتنے پھیرے کرنے ہیں اور ایک پھیرا اتنے منٹ میں پورا کرنا ہے۔ اب پھیروں کی تعداد پوری کرنے کے لیے ڈرائیور جنونیوں کی طرح گاڑی چلاتا ہے۔ مست اونٹ کی طرح دائیں بائیں آگے پیچھے کچھ نہیں دیکھتا! اس کی آنکھوں میں بینائی کی جگہ خون بھر جاتا ہے!
خدا کی قسم! جنگلوں میں مویشی ہانکتے گڈریے، اِن ٹرالیوں، ڈمپروں، ویگنوں اور ٹریکٹروں کے وحشی ڈرائیوروں سے ہزار گناہ زیادہ مہذب ہیں!

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com