ہماری زندگیوں میں نجومیوں، عاملوں، بابوں اور مختلف اقسام کی ’’روحانی‘‘ شخصیات کا بہت عمل دخل ہے۔ ان ’’روحانی‘‘ شخصیات کے کمالات کا زیادہ حصہ پیش گوئیوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ حالانکہ یہ کام ہم شعرا کے دواوین سے بھی لے سکتے ہیں۔ ایرانی دیوانِ حافظ سے فال نکالتے ہیں۔ آخر ہم دیوانِ غالب سے کیوں نہیں نکال سکتے!
ہماری سیاسی تاریخ جو کچھ ہمارے ساتھ کر رہی ہے اور کیے جا رہی ہے، اس کے بارے میں غالب نے ایک پیش گوئی کی تھی۔ اس پیش گوئی کی حد درجہ صحت دیکھ کر کہنا ہی پڑتا ہے کہ ع
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا!
غالب کی پیش گوئی دیکھیے ؎
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
جنرل پرویز مشرف نے تختہ الٹا تو اس قوم نے مٹھائیاں بانٹیں۔ سب یہی سمجھے کہ جس نجات دہندہ کا انتظار تھا، آ پہنچا ہے۔ امیدیں آسمان کو چھونے لگیں۔ پہلے دو تین برس جرنیل نے کچھ اچھے کام بھی کیے یا کم از کم ڈول ڈالا۔ پہلی بار اس نے ہر سطح کی بھرتیاں فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے حوالے کیں یعنی اسمبلی کے ممبروں اور وزیروں سے نوکریوں کے پروانے چِھن گئے۔ پھر اہلِ سیاست کا عمل دخل در آیا۔ جرنیل کو اپنے اقتدار کے جواز کے لیے سیاست دانوں کے انگوٹھے کی ضرورت تھی۔ جمالی صاحب وزیراعظم بن گئے۔ آتے ہی انہوں نے ملازمتوں کی زنبیل فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ہاتھ سے چھینی اور سیاست دانوں کے حوالے کر دی۔ ساتھ ہی اپنے طبقے کی خوشنودی کے لیے یہ اعلان بھی کیا کہ ملک میں زرعی اصلاحات کی کوئی ضرورت نہیں! مسکراہٹیں ایک کان سے لے کر دوسرے کان تک چوڑی ہو گئیں۔ بتیسیاں نکل آئیں!
بقیہ عرصہ جرنیلی اقتدار کا ہارس ٹریڈنگ، ضمیر فروشی اور امریکہ نوازی کی عبرت ناک داستان ہے! افلاس کی آخری حد یہ تھی کہ پلاسٹک کا بنا ہوا وزیراعظم درآمد کیا گیا‘ جس نے وزارتِ عظمیٰ سے فارغ ہوتے ہی واپسی کی راہ لی!
پھر افق پر چوہدری افتخار صاحب کا ستارہ نمودار ہوا جسے سب ستارۂ صبح سمجھے۔ ہم جیسے بے شمار احمقوں نے ان سے امیدیں وابستہ کرلیں۔ قوم ٹیلی ویژن کے ساتھ چپک کر بیٹھ گئی۔ ڈرائیونگ سیٹ پر اعتزاز احسن اور ساتھ چوہدری صاحب تشریف فرما ہوئے۔ قافلہ چلا، قوم ہم رکاب تھی۔ کتنے ہی برس گزر گئے، ایک دن معلوم ہوا یہ بھی دھوکہ تھا۔ اور لمبا دھوکہ تھا۔ صاحبزادے کے خلاف مقدمہ پیش ہوا تو ملمع اتر گیا، قلعی کھل گئی۔ اب تانگہ پارٹی چلا رہے ہیں ‘رہی عزت تو اسے بُلٹ پروف کار کے ہاتھ گروی رکھا ہوا ہے۔
بہ تدریج عمران خان کی پارٹی کا گراف اوپر جانے لگا۔ ہم جیسے احمقوں نے اب امیدیں تحریک انصاف سے وابستہ کر لیں۔ تحریکِ انصاف سے نہیں، عمران خان سے! دارالحکومت میں وہ خواتین و حضرات بھی ووٹ ڈالنے کے لیے قطار میں کھڑے ہو گئے جو الیکشن کے دن کبھی گھر سے نکلے ہی نہ تھے! دہشت گردی سے خوف زدہ، اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ‘خان کے ساتھ ہوگئے!
سوچنے سمجھنے والوںکا ماتھا اُسی وقت ٹھنک گیا تھا جب، مدتوں پہلے، عمران خان نے قبائلی علاقوں میں رائج صدیوں پرانے جرگہ سسٹم کے لیے پسندیدگی کا اظہار کیا۔ یعنی پتھروں پر بیٹھ جاؤ اور پھر فیصلہ کرو کہ فلاں کا گھر مسمار کر دو اور فلاں کا حجرہ منہدم کر دو! کیا عجب کل کو چور پکڑنے کے لیے انگاروں پر چلنے کا حکم دے دیا جائے! عدالتوں کی ضرورت نہیں رہے گی!
پھر سوات میں آرمی ایکشن ہوا۔ وہی سوات جہاں سکول جلائے جا رہے تھے، قبروں سے مردوں کو نکال کر چوراہوں پر لٹکایا جا رہا تھا‘ اور مسلم خان نے ٹیلی ویژن پر پوری قوم کے سامنے تسلیم کیا تھا کہ لوگوں کو ذبح کیا جاتا ہے۔ سوات عملی طور پر ملک سے کٹ چکا تھا۔ ایک مذہبی سیاسی جماعت کے علاوہ صرف عمران خان نے ایکشن کی مخالفت کی۔ اگست میں ملک سعد میموریل ٹرسٹ کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے قوم کو یاد دلایا کہ انہوں نے سوات میں اور فاٹا میں، غرض ہر جگہ آرمی ایکشن کی مخالفت کی تھی۔ پھر کبھی انہوں نے طالبان کو دفاتر دینے کی پیشکش کی ‘کبھی ایسے گول مول بیانات دیے کہ ان کے دلدادگان دل برداشتہ ہوتے گئے۔ پھر یہ بھی ہوا کہ طالبان نے مذاکرات میں انہیں اپنا نمائندہ قرار دیا! زنداں کی دیوار چمن تک آ پہنچی! عمران خان شرمندہ شرمندہ نظر آئے راز کُھل گیا تھا۔
بالکل بجا کہ پاناما لیکس کی تفتیش کا آغاز وزیراعظم کی ذات اور ان کے خاندان سے ہونا چاہیے‘ وزیراعظم کو ایک ایک پائی کا حساب دینا ہو گا مگر یہ جو عمران خان کہہ رہے ہیں کہ وہ اور بلاول ایک ہی کنٹینر پر کھڑے ہوں گے‘ تو کیا اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز بات کوئی ہو سکتی ہے؟ پیپلز پارٹی گلے گلے تک کرپشن میں دھنسی ہوئی ہے۔ زرداری صاحب سے لے کر گیلانی صاحب تک سینکڑوں واقعات ہیں۔ پھر یہ بھی ہر عقل رکھنے والے کو معلوم ہے کہ آخری پتہ کھیلتے وقت زرداری صاحب نون لیگ کی موافقت کریں گے!
اب خان صاحب نے وہ کام کیا ہے جو اس سے پہلے کسی نے نہ کیا تھا۔ نون لیگ نے، نہ قاف نے نہ پیپلز پارٹی نے۔ انہوں نے ایک مدرسے کو پانچ دس کروڑ نہیں تیس کروڑ روپے عنایت کیے ہیں، اور دلیل ایک یہ دی ہے کہ مولانا نے پولیو مہم میں مدد فراہم کی تھی۔ دوسری یہ کہ مدارس کے بچوں کا بھی حق ہے!
تو کیا پولیو مہم میں مدد فراہم کرتے وقت معاوضے کی بات طے ہوئی تھی؟ اور وہ بھی پورے تیس کروڑ؟ رہی یہ دلیل کہ مدارس کے بچوں کا بھی وسائل پر حق ہے تو اس سے کون سنگدل انکار کر سکتا ہے؟ مگر حق مدارس کے بچوں کا ہے یا مدارس کے مالکان کا؟ یہی تو رونا ہے کہ مدارس کے اوپر چیک اینڈ کنٹرول نہیں! مظلوم ترین طبقہ وہ اساتذہ ہیں جو مدارس میں پڑھا رہے ہیں! انہیں علاج معالجہ کی سہولیات حاصل ہیں‘نہ رہائشی! معمولی، بلکہ برائے نام تنخواہوں پر یہ علما مدارس میں پڑھا رہے ہیں۔ مالکان اور ان کے کنبوں کا معیارِ زندگی آسمان کو چُھو رہا ہے۔ دوسرا مظلوم ترین طبقہ مدارس میں زیر تعلیم طلبہ کا ہے۔ کسی کو نہیں معلوم کہ کروڑوں اربوں کے عطیات میں سے ان طلبہ تک کتنا پہنچ رہا ہے؟
سوال یہ ہے کہ ایک خاص مدرسہ کا انتخاب کس بنیاد پر ہوا ہے؟ کیا دوسرے مدارس کا حق نہیں؟ کیا دوسرے مسالک کا حق نہیں؟ یہ ایک ایسا سلسلہ شروع کیا گیا ہے جس کا کوئی انت نہیں! نہ ہو گا! ہر مسلک کے مدارس کا ایک بورڈ ہے۔ پھر سب بورڈز کی ایک مشترکہ باڈی ہے۔ کیا اِس باڈی سے مشورہ کیا گیا؟ یا یہ عمران خان کی ذاتی پسندنا پسند کا مسئلہ تھا؟ کیا اس مدرسے کی طالبان کے حوالے سے شہرت عمران خان کو معلوم نہیں؟ یا بلی آخر کار تھیلے سے باہر آ گئی ہے؟؟
وفاق المدارس کے سیکرٹری جنرل مولانا حنیف جالندھری سے لے کر سابق سیکرٹری مذہبی امور تک، سب نے اِس عجیب و غریب فیصلے پر تعجب کا اظہار کیا ہے۔ پھر یہ بھی سوال ہے کہ رقم مدرسہ خرچ کرے گا یا حکومت خود مدرسہ پر خرچ کرے گی؟ کیا اس کا آڈٹ ہو گا جس طرح کہ بجٹ سے گئی ہوئی دوسری ساری رقوم کا ہوتا ہے؟
ایک نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ یہ کرم فرمائی حبِ علیؓ میں نہیں بغضِ معاویہؓ میں کی گئی ہے! مولانا فضل الرحمن کی ضد میں یہ کیاگیا ہے تو بات بنی نہیں! اِن صفحات میں ہم نے ہمیشہ مولانا فضل الرحمن کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کی ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ عوام کے منتخب نمائندے ہیں۔ وہ بابائے طالبان نہیں ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ بندوق برداری کی مذمت کی ہے اور جمہوری طرزِ سیاست کی حمایت کی ہے۔ ان پر حملے بھی ہوئے۔ پھر مسلم لیگ کی حکومت نے حال میں جو فنڈ انہیں دیے، وہ ترقیاتی کاموں کے لیے دیے۔ مدرسہ کے لیے نہیں!
شہزاد احمد یاد آرہے ہیں ؎
چُوم لیں دیدۂ حیراں کو کہ آنکھیں پھوڑیں
چاند سمجھے تھے جسے ابر کا ٹکڑا نکلا
پس نوشت۔ اس کالم نگار نے بیسیوں کالم عمران خان کی حمایت میں لکھے۔ مگر اس کے باوجود اِس کالم کے بعد قارئین کی دعاؤں کی ضرورت ہے!
No comments:
Post a Comment